اِن سطور کی اشاعت تک وزیر اعظم جناب عمران خان امریکا کے سات روزہ دَورے سے واپس تشریف لاچکے ہوں گے۔ ایک ہفتہ امریکا میں قیام اور ملک سے غیر حاضر رہنے کے باوجود کم کم لوگوں نے اُن کے خلاف انگلی اُٹھائی ہے۔
سابق وزیر اعظم جناب نواز شریف اقوامِ متحدہ ہی کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے نیویارک میں چار دن ٹھہرے تھے تو پی ٹی آئی اور اُن کے ہمنواؤں نے شدید تنقید میں آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا، یہ کہتے ہُوئے کہ غریب قوم کے خرچ پر نیویارک میں "اتنے دن" قیام کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔
یہ نقص نگاری بے جا تھی اور اب کوئی اگر عمران خان کے نیویارک میں سات روزہ قیام کو بے معنی گردانتا ہے تو یہ بھی نامناسب ہو گا اور حقائق سے قطعی لا علم بھی۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان نے 22 تا 28 ستمبر جتنے دن بھی نیویارک میں گزارے ہیں، ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ پاکستان کی خدمت اور کشمیر کاز کو اجاگر کرنے میں صَرف کیے ہیں۔
اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان ساتوں ایام میں پاکستان اور مقبوضہ کشمیرکے بارے میں اُن کے قوی بیانات اور جاندار سرگرمیوں سے امریکی میڈیا گونجتا رہا ہے۔ خان صاحب نے اس دوران میں کونسل آن فارن ریلیشنز ایسے موثر ترین تھنک ٹینک سے خطاب کیا۔ یو این میں بیٹھے عالمی میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے انٹر ایکشن کیا۔
ایشیا سوسائٹی کے دانشوروں سے مخاطب ہُوئے۔ نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل ایسے طاقتور ترین امریکی اخبارات کے ایڈیٹوریل بورڈ ممبرز سے براہِ راست مکالمہ کیا۔ امریکی شہ دماغوں سے ملاقاتوں کے دوران عمران خان کا موقف تین اہم نکات کی تبلیغ پر مشتمل پر رہا:(۱) پاکستان کی امن پسندی (۲) بھارتی زیادتیوں کی نقاب کشائی (۳) مظلوم و محصور کشمیریوں کے لیے عالمی رائے عامہ ہموار کرنا۔
27ستمبر کو انھوں نے جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر جن چار نکات ( ماحولیات، منی لانڈرنگ، اسلامو فوبیا، مقبوضہ کشمیر) پر معرکہ خیز خطاب کیا، اس نے تو ایک نئی تاریخ بھی رقم کی ہے اور پاکستانیوں و کشمیریوں سمیت عالمِ اسلام کو ایک نیا حوصلہ، اعتماد اور ولولہ تازہ دیا ہے۔
خان صاحب امریکا سے شادمان و کامران لَوٹے ہیں۔ اُن کی سفارت کاری کے باوجود اگرچہ ابھی تک ظالم اور جفا جُو بھارت نے محصور کشمیریوں پر نافذ جان لیوا کرفیو نہیں ہٹایا ہے۔ ہم مگر اُمید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ جلد ہی کشمیریوں پر گزشتہ آٹھ ہفتوں سے تنی ظلم و زیادتی کی یہ چادر ہٹا دی جائے گی۔ عمران خان کے اس امریکی دَورے میں کئی بین الاقوامی شخصیات نے مختلف مقاصد کے تحت ملاقاتیں کی ہیں۔
ہر کام میں کیڑے نکالنے والے مگر کہہ رہے ہیں کہ خانصاحب کو تین شخصیات سے ملاقاتیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ ان میں سے پہلی شخصیت "مائیکرو سوفٹ " کے حوالے سے دُنیا بھر میں پہچانی جانے والی ارب پتی امریکی شخصیت بل گیٹس کی ہے۔ بل گیٹس معرفِ عالم فلنتھروپسٹ بھی ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے میں وہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ گیٹس صاحب نے مگر دل آزاری یہ کی ہے کہ نیویارک میں عمران خان کی موجودگی کے دوران نریندر مودی ایسے ظالم شخص کو اپنے ادارے (گیٹس اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن) کا سب سے بڑا ایوار ڈ دے دیا۔ ایک جہان اس ایوارڈ کے دیے جانے پر بل گیٹس کی مخالفت کر رہا تھا کہ مودی نے کشمیریوں پر مظالم ڈھانے کی انتہا کر رکھی ہے۔
مودی کو ایوارڈ نہ دینے کے لیے امن کا نوبل انعام پانے والی تین معزز خواتین نے بل گیٹس کو مشترکہ خط بھی لکھا۔ بل گیٹس مگر نہ مانے اور ظالم مودی کو ایوارڈ دے ہی ڈالا۔ حیرانی کی بات ہے کہ اس کے بعد بل گیٹس، عمران خان سے ملنے گئے تو وہ بخوشی اُن سے ملے۔ اس ملاقات پر کئی لوگ معترض ہیں۔ بل گیٹس نے اگر مودی ایسے سفاک شخص کو ایوارڈ نہ دیا ہوتا تو خانصاحب کے ملنے پرکوئی اعتراض نہ کرتا۔ یہ تو سکّے کا ایک رُخ ہے۔ ممکن ہے بل گیٹس سے ملتے ہُوئے خانصاحب کو سکّے کا وہ رُخ دکھائی دیا ہو جو ہم ایسے کوتاہ نظروں سے اوجھل رہا۔ حکمرانوں کی نظریں بہرحال عوام الناس کی نظروں سے زیادہ دُور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
دوسرے شخص ارب پتی جارج سوروس ہیں۔ یہ صاحب نیویارک میں عمران خان سے اپنے وفد کے ہمراہ ملے ہیں تو اس پر بھی بعض لوگ ابھی تک معترض بھی ہیں اور ناراض بھی۔ اصرار کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کو اس شخص سے نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جارج سوروس ایک این جی او "اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز" کے بانی اور چیئرمین ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے بقول : دنیا بھر میں اپنے فلاحی کاموں کے لیے 32 ارب ڈالر عطیہ کرنے کے باوجود وہ اپنے ملک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ایک ناپسندیدہ شخص تصور کیے جاتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جارج سوروس نے عمران خان سے پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں تعاون فراہم کرنے کے علاوہ افغانستان میں اپنے تعلیمی منصوبوں پر بات کی۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق، اوپن سوسائٹی فاونڈیشنز کے وفد نے ٹیکس اصلاحات میں بھی پاکستان کی مدد کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس ملاقات کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ اوپن فاؤنڈیشنز کا ایک وفد بہت جلد پاکستان کا دورہ کرے گا۔ جارج سوروس 40 سال سے دنیا کے 120 ملکوں میں فلاحی کام کرنے والی تنظیم کے سربراہ ہیں۔
امریکا سے آسٹریلیا تک اور ہنگری سے ہونڈورس تک جارج سوروس ایک معروف شخصیت سمجھتے جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی اُن کے مخالفین میں سے ایک ہیں۔ ذرایع کہتے ہیں : اس شخص کی عمران خان سے ملاقات اس لیے بھی مخالفت کی زَد میں ہے کہ جارج سوروس پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں تعاون فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن میں بروئے کار مشہور کشمیری نژاد امریکی ڈاکٹر غلام نبی فائی بھی ہمارے وزیر اعظم صاحب سے ملے ہیں۔ وہ ایک بڑے کشمیری وفد کے ہمراہ عمران خان سے ملے تھے تاکہ امریکا میں مقیم ہزاروں کشمیریوں کے جذبات و احساسات سے خان صاحب کو آگاہ کر سکیں۔ مقبوضہ کشمیر کے لاتعداد باسیوں اور کشمیری حریت پسند قیادت سے بھی اُن کے گہرے تعلقات ہیں اور ڈاکٹر غلام نبی فائی امریکی دارالحکومت میں مجبور و مقہور کشمیریوں کی آواز ہیں۔
وہ تقریر و تحریر کے محاذ پر امریکا کے مختلف شہروں میں کشمیریوں کی خوب ترجمانی کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ راقم بھی چند بار اُن سے اسلام آباد میں مل چکا ہے۔ اس نستعلیق اور فہمیدہ شخصیت نے خود کو کشمیر کاز اور کشمیر کی آزادی کے لیے وقف کر رکھا ہے۔
وہ "کشمیری امریکن کونسل" کے بانی اور سربراہ بھی ہیں۔ اس تنظیم کے پرچم تلے وہ مسئلہ کشمیر کے موضوع پر امریکا کے متعدد شہروں میں لاتعداد سیمینارز، کانفرنسز اور لیکچرز کا اہتمام کر چکے ہیں۔ امریکا میں موجود بھارتیوں اور بھارتی لابی کی آنکھ میں وہ خارِ مغیلاں کی طرح کھٹکتے رہے ہیں ؛ چنانچہ اِسی بھارت نواز امریکی لابی نے اُن کے خلاف منفی پروپیگنڈہ چلانے کی مہمات بھی شروع کر رکھی ہیں۔
اِسی پروپیگنڈہ کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انھیں سات سال پہلے امریکیوں نے گرفتار کر کے دو سال کی سزا بھی دے ڈالی تھی۔ اس سزا سے بھارت کے کلیجے میں ٹھنڈ تو پڑ گئی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ یہ گرفتاری اور سزا سراسر غلط تھی؛ چنانچہ فائی صاحب کو رہا کرنا پڑا۔ ڈاکٹرغلام نبی فائی کے خلاف بھارتیوں کا پروپیگنڈہ ابھی رُکا نہیں ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فائی صاحب، عمران خان سے ملے تو واشنگٹن اور نیویارک میں موجود کشمیر دشمن بھارتی لابی نے سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ چلانے کی ناکام کوشش کی کہ وزیر اعظم پاکستان کو ایک "سزا یافتہ" شخص سے نہیں ملنا چاہیے تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جناب عمران خان نے فائی صاحب سے مل کر ایک اچھا اقدام کیا ہے۔ اس ملاقات سے دُنیا بھر میں بسنے والے کشمیریوں سے عمران خان اور پاکستان کی محبت بھی عیاں ہُوئی ہے۔