"ہم بھارت سے تعلقات اور تجارت کے خواہاں ہیں۔ بھارت سے تجارت کرنے میں سب کے فائدے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کا فائدہ ظاہر ہے۔ مَیں کہہ سکتا ہُوں کہ بھارت سے تجارت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ " فروری 2022کے تیسرے ہفتے اسلام آباد میں یہ الفاظ وزیر اعظم جناب عمران خان کے مشیر تجارت، عبدالرزاق داؤد، نے ادا کیے۔
مشیر تجارت موصوف پہلے بھی اسی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ پچھلے ڈھائی برس سے زائد عرصے سے پاک، بھارت تجارت اور مکالمہ منقطع ہے۔ اگست2019 میں جب بھارت نے یکطرفہ طور پر ظالمانہ فیصلہ کرتے ہُوئے اپنے آئین سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا بیک جنبشِ قلم خاتمہ کر دیا تو پاکستان نے بھی، ردِ عمل میں، فیصلہ کیا کہ بھارت سے تجارت کے دروازے بند کر دیے جائیں۔
تب سے اب تک مکالمہ اور تجارت کے سبھی راستے اور راہداریاں بند ہیں۔ لاریب اس سے نقصان دونوں فریق یکساں اُٹھا رہے ہیں لیکن ہر فریق ظاہر یہی کررہا ہے کہ ہمیں تمہاری کوئی پروا نہیں ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ آیا جناب عمران خان، بھی بھارت سے مکالمہ کے خواہاں اور خواہشمند ہیں ؟
23فروری2022 کو جب جناب عمران خان رُوس کے دو روزہ دَورے پر روانہ ہُوئے تو جانے سے قبل انھوں نے رُوسی ٹی وی (Russia Today) کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں جہاں پاک رُوس تعلقات، رُوس امریکا اور یوکرائن کے درمیان باہم تصادم کے بارے میں گفتگو ہُوئی، وہیں رُوسی خاتون صحافی نے جناب عمران خان سے پاک، بھارت تعلقات کے بارے میں بھی پوچھا اور یہ بھی استفسار کیا کہ رُوس کس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کر سکتا ہے؟ خان صاحب کی گفتگو سے اندازہ ہُوا کہ وہ بھارت سے تعلقات اور مکالمے کے خواہاں تو ہیں لیکن اپنی شرائط پر۔ اس انٹرویو میں پاک، بھارت تعلقات سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا:" اقتدار میں آتے ہی مَیں نے بھارت کو مذاکرات اور مکالمے کی دعوت دی۔
میری خواہش ہے کہ بھارت بھی لوگوں کو غربت سے نکالنے پر توجہ دے۔ جنوبی ایشیا کے ہمارے خطے میں غربت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ کشمیر ہے۔ موجودہ بھارت گاندھی اور نہرو کا نہیں۔ یہ بھارت مودی کا ہے۔ مَیں جس بھارت کو جانتا تھا، یہ اب ویسا نہیں رہا۔ " عمران خان نے مزید کہا: " بھارت کو ہندوتوا کے بجائے انسانیت پر توجہ دینی چاہیے۔
ہم بھارت سمیت پوری دنیا کے ممالک سے تجارتی تعلقات چاہتے ہیں۔ بھارت میں ہندو نسل پرستی اور ہندوتوا نظریے کی شدت بڑھ گئی ہے۔ بھارت میں نسل پرستانہ انتہا پسندی خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف یہ کہہ کر نفرت کو ابھارا جا رہا ہے کہ ہندو بہت عظیم قوم ہے لیکن ان کی ترقی میں یہ دیگر قومیں یا مذاہب رکاوٹ ہیں۔ یہ سوچ اور احساس بہت خطرناک ہے۔ مَیں بھارتی پالیسیوں کے خلاف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ٹی وی پر مباحثہ کرنے کے لیے تیار ہُوں۔ یہ بہت مثبت بات ہوگی کہ ہم برصغیر کے عوام کے لیے مذکرات اور مباحثے کے ذریعے اپنے اختلافات کو ختم کریں "۔
اس انٹرویو کی بازگشت بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، تک بھی یقیناً پہنچی ہوگی۔ اُن کی طرف سے ابھی تک مگر عمران خان کے دیے گئے چیلنج(مباحثہ کرنے) کا جواب نہیں آیا۔ لگتا مگر یہ ہے کہ بھارت ہنوز ضد پر اَڑا ہُوا ہے۔ اور پاکستان سے مکالمے کی فضا میں رنگ بھرنے کا متمنی نہیں ہے۔
یہ سوچ خطرناک بھی ہے اور رعونت کی عکاس بھی۔ پاکستان مگر یہ چاہتا ہے کہ بھارت سے مکالمے اور مصافحے کی فضا ہموار ہو۔ بند دروازے کھلیں اور تازہ ہوا ندر آئے۔ رُوس روانہ ہونے سے قبل ہمارے وزیر اعظم نے ممتاز انگریزی جریدے (نیوز ویک، اشاعت21فروری2022) کو جو تفصیلی انٹرویو دیا، اس میں بھی خانصاحب کی طرف سے پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی بین السطور خواہش کے آثار ملتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا: " اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں دُنیا کا جو ملک بھی مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لیے آگے بڑھے گا، ہم اُسے خوش آ مدید کہیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی بحران عروج پر ہے۔ مسئلہ کشمیر ہی دراصل پاکستان اور بھارت کے درمیان کور ایشو ہے۔ عالمی طاقتوں اور دُنیا کی یہ ذمے داری ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والے مصائب سے کان اور آنکھیں بند کرکے نہ رکھے۔ دُنیا نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کا وعدہ کررکھا ہے۔ اس پر وعدے پر عمل کرنا چاہیے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ مودی کا بھارت آجکل ہندوتوا نظرئیے کی گرفت میں ہے۔ "
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی (رائٹر) کے استفسار پر بھارتی وزارتِ خارجہ نے جناب عمران خان کے ان دونوں انٹرویو پر بھی کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔ یعنی بھارت ابھی پاکستان کی طرف دستِ مکالمہ دراز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے؟ کوئی ایک سال قبل وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ " اگر پاک، بھارت تعلقات اور مکالمہ آگے بڑھتا ہے تو نئی دہلی کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ پاکستان کے ذریعے وہ وسط ایشیائی ریاستوں سے براہِ راست مستفید ہو سکے گا۔
بھارت کو مگر اس جانب پہلا قدم اٹھانا پڑے گا۔ "اِس بیان کے بعد ہی چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ، کی طرف سے بھی بیان آیا تھا کہ "اب وقت آگیا ہے کہ ہم (پاکستان اور بھارت) اپنا ماضی دفن کریں اور آگے قدم بڑھائیں۔ " یہ ایک نہائت خوش کن اور حوصلہ افزا بیان تھا۔ اُمیدیں وابستہ کی گئیں کہ دونوں ممالک کے درمیان منجمد فضائیں پگھل جائیں گی۔ مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے جناب عمران خان اپنی گفتگوؤں میں نریندر مودی کو جن الفاظ و القابات سے یاد کرتے ہیں، ان کی موجودگی میں مودی کا خان سے مکالمہ نہیں ہو سکتا۔
حقیقی طور پر قصور زیادہ بھارت کا ہے۔ بھارتی میڈیا میں، بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی زیرِ سرپرستی، آئے روز پاکستان کے خلاف جو حرکات کی جاتی ہیں، ان کی موجودگی میں بھی پاکستان کی بھارت سے مکالمے کی فضا مکدر ہو جاتی ہے۔ مثلاً: پچھلے دنوں سعودی عرب کے آرمی چیف (جنرل فہد بن عبداللہ) نے پہلی بار بھارت کا دَورہ کیا۔
اس موقع پر انڈین آرمی چیف (جنرل نروانے) نے سعودی آرمی چیف کو شیلڈ دیتے ہُوئے جان بوجھ کر ایسی فوٹو بنوائی جس کے پس منظر میں 1971 میں ڈھاکا میں پاکستانی جنرل(نیازی) بھارتی جرنیلوں کے سامنے سرنڈر کی دستاویزات پر دستخط کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہ تصویر بعد ازاں بھارتی میڈیا میں شایع اور نشر کی گئی۔ یہ بھارتی خبثِ باطن تھا اور دانستہ شرارت بھی۔ ایسی شرارتوں کی موجودگی میں بھارت سے پاکستان کا مکالمہ و مصافحہ شاید بے حد مشکل امر ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کا امریکی صدر سے مکالمہ ہو رہا ہے نہ بھارتی وزیر اعظم سے۔ اس فضا کو بدلنا بے حد ضروری ہے۔