Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mit-Ta, Ujarta Lahore?

Mit-Ta, Ujarta Lahore?

ایک مدت بعد لاہور کی پرانی انار کلی میں رات گئے تک بیٹھنے اور دوستوں کے ساتھ لاہور اور پرانے لاہور کی ثقافت پر گفتگو کرنے اور باتیں سُننے کا موقع ملا۔ شدید حبس اور بجلی کی آنکھ مچولی کے باوجود احباب کی اس یادگار مجلس سے اُٹھنے کو جی نہ چاہا؛ چنانچہ پسینے میں شرابور دلچسپ گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔

ابھی اُن ایام کو گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہُوا جب تقریباً ہر شام ہم جلیس دوستوں کی ایک محفل پرانی انار کلی کے اس آخری حصے میں سجتی جہاں فالودے اور مچھلی فروشوں کی دکانیں ہیں۔ یہاں اُردو پنجابی شاعر بھی آتے، اخبار نویس بھی، ادیب حضرات بھی تشریف لاتے اور وکلا بھی۔ ادب، سیاست، صحافت کے موضوعات پر پُر زور اور پُر شور بحثیں ہوتیں۔ پرانی انار کلی کی اِنہی ناقابلِ فراموش محفلوں میں پنجابی زبان کے طرحدار شاعر جناب سائیں اختر لاہوری سے ملاقات ہُوئی تھی جو پکی دوستی میں بدل گئی۔

اُن کے زبردست پنجابی کلام مجموعہ چھپ کر آیا تو یہیں ایک کاپی پر اُن سے دستخط کروائے گئے تھے۔ اپنے سابقہ اخبار میں اس مجموعہ کلام پر تبصرہ کیا تو گوجرانوالہ کے ایک مولوی صاحب نے راقم پر مقدمہ کر دیا تھا۔ بڑی مشکلوں، معافیوں اور ترلوں منتوں سے گلو خلاصی ہُوئی تھی۔ رات گئے پرانی انار کلی کے اس سنسان ہوتے بازار سے اُٹھا تو، بقول شاعر، کئی کہانیاں سی دل کو یاد آ کر رہ گئیں۔

یہ دیکھ کر دل مزید افسردہ ہُوا کہ پرانی اور نئی انار کلی کی کئی تاریخی بیٹھکوں، کتب خانوں، ہوٹلوں کو مسمار کیا جا چکا ہے۔ کوئی لندنی حکمران اور منتظم ہوتا تو انہیں کبھی مٹنے نہ دیتا۔ سارے قدیم لاہور کی کئی تاریخی عمارتیں ہماری ہوسِ زر اور ثقافت دشمنی کی نذر ہو چکی ہیں۔ یونس ادیب، آغا اشرف، ایف ای چوہدری اور مدثر بشیر کا شکریہ جنہوں نے نہایت محنت اور سنجیدگی سے "میراشہر اہور"، "ایک دل ہزار داستان"، "اب وہ لاہور کہاں" اور "لہور دی وار" نامی کتابیں لکھ کر اُس لاہور کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا جو ہمارا قیمتی اثاثہ تھا لیکن ہم اس اثاثے کی حفاظت نہ کر سکے۔

اب مٹتے، اُجڑتے لاہور کی تاریخی عمارتوں، بیٹھکوں، تکیوں، لائبیریریوں، ادبی نشست گاہوں، قبرستانوں، حویلیوں، فلمی نگار خانوں، شخصیتوں، تانگہ ہودیوں، قدیم تعلیمی درسگاہوں، پہلوانوں، اخبارات اور اُن کے دفتر وں، تحریکِ پاکستان اور قائد اعظم سے وابستہ تاریخی ہالوں اور جلسہ گاہوں وغیرہ کو جناب منیر احمد منیر نے ہمیشہ کے لیے اپنی شاندار اور بے مثل کتاب میں محفوظ کر لیا ہے۔

اس دل افروز کتاب کا نام ہے : "مٹتا ہُوا لاہور۔ " ایک دلکش داستان کی طرح اِسے مرتب اور تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہُوئے آدمی افسانوی لاہور میں پہنچ جاتا ہے، وہ لاہور جس میں ہمیشہ ایک ناقابلِ فہم طلسم رہا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ایسی نادر و نایاب تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جن کا ذکر ہم صرف کہانیوں اور داستانوں میں سنا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر اندرونِ موچی دروازہ میں مبارک حویلی کی تصویر جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے افغانستان کے شاہ شجاع سے کوہِ نور ہیرا چھینا تھا۔

ہم جب اپنے بزرگوں سے مشہور کہاوت "جو مزہ چھجو کے چوبارے، وہ بلخ نہ بخارے" سنا کرتے تھے تو سوچتے تھے یہ چھجو کا چوبارہ کیا شئے ہے، کہاں ہے؟ منیر صاحب کی اس کتاب میں شامل لاہور میں چھجو کے چوبارے کی فوٹو بھی دیکھ لی ہے۔ پاکستان بننے سے قبل یہ عمارت دراصل میؤ اسپتال سے متصل ایک مندر تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک مے خانہ بھی تھا جہاں مَے خور شغل کرتے اور’ سکون، لیتے۔ لاہورکی پرانی ہندو شخصیات کا ذکر پڑھتے ہُوئے اکثرایک نام بلاقی شاہ کا سُنا کرتے تھے جو ایک ظالم اور بہت بڑا سُود خور ہندو تھا۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر نے اپنے ناولٹ "یا خدا" میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ اتنا بڑا سُود خور تھا کہ، بقول سید احمد سعید کرمانی، میاں ممتاز دولتانہ کے والد خان بہادر احمد یار دولتانہ بھی اس کے مقروض تھے۔

منیر احمد منیر نے "مٹتا ہُوا لاہور" میں اس لاہوری ہندو ساہو کار کی مشہور اور پُر شکوہ حویلی کی فوٹو بھی شائع کردی ہے اور ہمیں یاد دلایا ہے کہ پاکستان اور قائد اعظم ؒ نے ہمیں کیسے کیسے ظالموں اور خوں آشاموں سے نجات دلائی ہے۔ کتاب میں لاہور کے اُن تاریخی ہالز (مثلاًبرکت علی محمڈن ہال) اور سیاسی جلسہ گاہوں ( مثلاً: موچی دروازہ) کا تفصیلی ذکر اور فوٹو بھی شامل کیے ہیں جہاں تحریکِ پاکستان کے ہمارے عظیم قائدین نے انگریز اور ہندو کے اتحاد کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی، سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور سرخرو ہُوئے۔

"مٹتا ہُوا لاہور" کا ہر صفحہ، ہر سطر اور ہر تصویر دل ونگاہ کو کھینچتی ہے۔ کتاب پڑھتے اور تصاویر دیکھتے ہُوئے انسان خوابوں کی دُنیا میں پہنچ جاتا ہے، وہ خواب جنہوں نے ہمارے آج کے پاکستان کی تشکیل کر رکھی ہے۔ آج کا لاہور جو آلودگی کا مرکز ہے، زیر نظر کتاب پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کبھی یہ لاہور پھلدار باغوں، صاف نہروں اور پھولوں کی مہکتی کیاریوں کا شہر ہُوا کرتا تھا۔ جناب منیر احمد منیر نے اس دلکش لاہور کی لفظی منظر کشی کرتے ہُوئے کسی قدیم ترین داستان کا حوالہ نہیں دیا ہے، بلکہ جیتے جاگتے اور زندہ دل دل بوڑھے لاہوریوں سے خود مل کر اور اُن کی زبانی کہانیاں اور آپ بیتیاں سُن کر یہ جاذبِ دل کتاب قارئین کے سامنے پیش کی ہے۔ اس کے لیے اندرونِ لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں اور تاریخی کوچوں کی خاک چھاننا پڑی ہے۔ لاریب اس پر بڑی محنت کی گئی ہے کہ ٹیپ ریکارڈروں سے پرانے بابوں کے انٹرویوز اتارنا اور اُن کی تدوین کوئی سہل کام نہیں ہے۔

مٹتے لاہور کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ کرنے کی نیت سے مصنف منیر احمد منیر صاحب نے اس کتاب میں تین اہم انٹرویوز شامل کیے ہیں: کرنل (ر) سلیم ملک، حافظ معراج دین اور مستری محمد شریف۔ لاہور کے بارے میں ان محترم بزرگوں کی گفتگوؤں میں کیا سحر ہے، یہ تو کتاب کے مطالعہ ہی سے محظوظ ہُوا جا سکتا ہے۔ حافظ معراجدین 1993ء کو اور مستری محمد شریف2004ء کے دوران فوت ہُوئے۔ مستری صاحب نے انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا ہے :" میںڈاکٹر( علامہ) اقبال ؒ کے جنازے میں شریک تھا۔

ڈاکٹر اقبالؒ کے مزار کی جوڑی چوگاٹھ میرے چچا مستری نُور محمد نے بنائی تھی۔ جب ڈاکٹر اقبالؒ فوت ہُوئے، مَیں نے دیکھا کہ (سوگ میں) خواتین نے، ہندوؤں نے بھی، سکھوں اور انگریزوں نے بھی کالے بلّے لگائے۔ ڈاکٹر اقبالؒ کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ " (صفحہ246) جب1931ء میں لاہور سے کشمیر کے بارے میں ایجی ٹیشن کا آغاز ہُوا اور اس میں احراریوں کا اصلی کردار کیا تھا، اس کا انکشاف خیز ذکر بھی کتاب میں ملتا ہے۔

لاہور میں اُن دنوں کشمیر میں مسلمانوں کے حق میں اور ڈوگرہ حاکم کے مظالم کے خلاف مسلمان جو جلوس نکالتے، اُن میں پنجابی کا یہ شعر پڑھا جاتا: "اُٹھو اُٹھو مومنو! رُخ کرو کشمیر دا/ راج تباہ کر سُٹو ڈوگرے بے پِیر دا۔ " اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کشمیری مسلمان کب سے مسلسل ظلم و استحصال کی چکی میں پستے چلے آ رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اُس دَور میں لاہور سے کشمیر جانے کا کرایہ صرف ڈھائی روپے تھا (صفحہ 237) حافظ معراج دین صاحب نے شاہ عالمی دروازے کے باہر تاریخی" مسجدِ شب بھر"( جس کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ نے شعر بھی کہا ہے) کا قصہ بھی خوب بیان کیا ہے۔

( صفحہ 194)کرنل (ر) سلیم ملک صاحب نے منیر احمد منیر سے گفتگو کرتے ہُوئے بتایا ہے کہ پاکستان بننے سے قبل ساندہ (لاہور) میں ایک چائے کمپنی والے لوگوں کو مفت چائے پلانے آتے تھے اور لوگ اُن کی پٹائی کرتے تھے کہ ہمیں نشے کا عادی بنایا جارہا ہے (صفحہ 144)یہ حیرت خیز کتاب ( مٹتا ہُوا لاہور) 350صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت سات سو روپے۔ ستلج بلاک (78) علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور پر خط لکھ کر یا0333 4332920پر فون کرکے کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔