وزیر اعظم جناب عمران خان نے رُوس جانے سے قبل (اور تحریک عدم اعتماد کی افواہوں کے درمیان) پنجاب کے ایک شہر، منڈی بہاء الدین، میں گزشتہ روز ایک بڑا عوامی جلسہ کیا ہے۔ لاریب یہ ایک عظیم الشان جلسہ تھا۔ خان صاحب کے مخالفین کا مگر یہ کہنا ہے کہ حکومت اور حکمرانوں کے لیے ایسا جلسہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
وزیر اعظم نے اس جلسے میں پی ڈی ایم کے سربراہ، حضرت مولانا فضل الرحمن، کو جن الفاظ و القابات سے یاد کیا ہے، اس پر ہم تاسف کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔ حیرانی کی بات مگر یہ بھی ہے کہ(ان قابلِ گرفت الفاظ پر) جے یو آئی (ایف) خاموش ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے اس جلسے میں کئی سچی باتیں کہی ہیں اور بعض ایسی باتیں بھی ارشاد فرمائیں جن سے کوئی بھی مہنگائی کا ڈسا شخص اتفاق نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر وزیراعظم کا (حسبِ سابق) یہ کہنا کہ " پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ادوار میں آج سے زیادہ مہنگائی تھی۔"
یہ بیان درحقیقت عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ خاص طور پر اب جب کہ حکومت نے عوام پر پٹرول کی قیمت میں بارہ روپے فی لٹر اضافہ کرکے مہنگائی کا نیا بم گرایا ہے۔ آج ہی اخبارات نے ہمیں بتایا ہے کہ ملک میں مہنگائی 18فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ مہنگائی ابھی اور بڑھے گی۔
وزیر اعظم صاحب نے منڈی بہاء الدین میں جو سچی باتیں کہی ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ "اپوزیشن مجھ سے ڈری ہُوئی ہے۔" واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن عمران خان سے ڈری سہمی بیٹھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے نام نہاد لیڈرز ہر روز عمران خان کی شیر ایسی شخصیت پر اکٹھے حملہ کرنے کے لیے باہر نکلتے ہیں لیکن پھر دبک کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
عمران خان نے یہ بھی سچ کہا ہے کہ "چھوٹا میاں (شہباز شریف صاحب) بڑے کمزور دل کا مالک ہے۔" بات تو درست ہے۔ اگر شہباز شریف دل کے کمزور نہ ہوتے تو اب تک تحریکِ عدم اعتماد کی شکل میں یا لانگ مارچ کی صورت میں عمران خان پر حملہ آور ہو چکے ہوتے لیکن اُن میں آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہیں پڑ رہی۔ وہ ہر وقت کسی اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔ منمناتی اپوزیشن ہر روز یہ دعوے کرتی ہے کہ ہم وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا رہے ہیں ؛ چنانچہ عمران خان نے منڈی بہاء الدین کے جلسے میں بڑی جرأت اور اعتماد کے ساتھ متحدہ اپوزیشن کو للکار کر یہ چنوتی بھی دی ہے:" یہ میرے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتے ہیں تو لائیں، مَیں ہر وقت مقابلے کے لیے تیار بیٹھا ہُوں۔"
اب اگر اپوزیشن کے جوڑوں میں پانی ہے، اُن میں ہمت اور جرأت نام کی کوئی شئے پائی جاتی ہے تو عمران خان کی چنوتی اور چیلنج کو قبول کرتے ہُوئے جلد از جلد تحریکِ عدم اعتماد لے کر آئیں۔ یہ گھوڑا ہے اور یہ میدان بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کی اس جرأتمندانہ چنوتی پر اپوزیشن کو چُپ لگ گئی ہے۔ اپوزیشن لیڈرز سہم کررہ گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ کئی وفاقی وزرا بھی اپوزیشن کو ایسی ہی چنوتیاں دے چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مشہور سینیٹر فیصل جاوید، وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات ان میں نمایاں ترین ہیں۔
جناب عمران خان کی کابینہ میں دو چار ہی وزیر ایسے ہیں جو غیر مبہم الفاظ میں اپنے وزیر اعظم کے حق میں اور اپوزیشن کے خلاف گرج کر بولتے ہیں۔ وزیر داخلہ، شیخ رشید احمد، ان میں سے ایک ہیں۔ اب تو شیخ صاحب موصوف وزیر اعظم عمران خان کے ایوارڈ یافتہ ٹاپ ٹین وزرا کی فہرست میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اپوزیشن کی مبینہ متحدہ طاقت کو چیلنج کرتے ہُوئے کہا ہے:" لائیں ذرا عدم اعتماد کی تحریک۔ ہمت تو کرکے دیکھیں۔ اور سارے گندے انڈے جمع ہو کر اسلام آباد آجائیں، ہم انھیں ایک ہی ٹھوکر سے توڑ ڈالیں گے۔ اسلام آباد میں جہاں بھی آپ آنا چاہیں، شوق سے آئیں۔ ہم آپ کے منتظر ہیں۔" وزیر داخلہ شیخ رشید احمد صاحب کی طرف سے اپوزیشن کو ان کھلے الفاظ میں یہ جو چنوتی یا چیلنج دیا گیا ہے، معمولی نہیں ہے۔ یہ چنوتی دراصل اپوزیشن کی باطنی اور عدم اتحاد کی جملہ کمزوریوں کو عیاں کرتی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ شیخ صاحب سے زیادہ اپوزیشن میں شامل مختلف عناصر کے زورِ بازو کو کون جانتا ہوگا؟
شیخ صاحب نے اپوزیشن کو یہ کھلا چیلنج اُس دن دیا جس روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور نون لیگ کے صدر، میاں محمد شہباز شریف، نے لاہور میں جناب آصف علی زرداری اوربلاول زرداری بھٹو صاحب کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ اس موقعے پر شہباز شریف نے کہا تھا:" ہم نے پیپلز پارٹی کے معزز قائدین کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے گھر میں خوش آمدید کہا ہے۔"
میاں صاحب کو "دل کی اتھاہ گہرائیوں " سے ویلکم کہنا بھی چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ یا پی ڈی ایم میں بوجوہ اتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں اور حزبِ اختلاف کے دھڑے اپنے باطی تضادات اور لالچوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے اتنے دُور جا چکے ہیں کہ ان کا اکٹھا مل بیٹھنا اور کھانا کھا لینا ایک بڑی غنیمت سمجھا گیا۔ اس دعوت کو بوجوہ دونوں باپ بیٹا مسترد بھی نہ کر سکے۔
مطلب یہ ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی دریا کے دو کناروں کی طرح دُور دُور رہ کر بھی ملاپ اور اتحاد کے خواہاں ہیں۔ اس موقعے پر اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف نے کہا: " پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم سے مشاورت کے بعد حکومت کے خاتمے کے لیے تمام قانونی، آئینی اور سیاسی حربے استعمال کریں گے۔"
شہباز شریف صاحب کے مذکورہ بالا اعلان میں جو ضعف اور بددلی سی ہے، وہ سب پر عیاں ہو رہی ہے۔ کھوکھلے اور بے جان لفظوں پر مشتمل یہ اعلان سُن کر ہی شیخ رشید احمد اور وزیر اعظم نے اپوزیشن کو اسلام آباد آنے اور عدم اعتماد کی تحریک لانے کا کھلا چیلنج دیا ہے۔
عوام کی طرح حکومت کو بھی یقینِ کامل ہے کہ اسلام آباد پر اپوزیشن کی چڑھائی اور تحریکِ عدم اعتماد کی دھمکیوں میں کوئی اخلاص ہے نہ معنویت اور نہ ہی کوئی جان۔ پچھلے ساڑھے تین برسوں کے دوران نون لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن نے اتنی بار حکومت گرانے، حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور اسلام آباد پر حکومت کے خلاف چڑھائی کرنے کے کھوکھلے اور بے معنی نعرے لگائے ہیں کہ اب ان پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔
عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کو دیے گئے نئے چیلنج کے بعد یہ خبر سامنے آئی ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب، عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کیے جانے تک اسلام آباد ہی میں قیام فرمائیں گے۔ شوق سے قیام فرماتے رہیں لیکن اپوزیشن نے اپنی حرکات سے واضح کر رکھا ہے کہ یہ وزیر اعظم صاحب کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے عوام میں جو اعتماد کھو دیا ہے، اِسے دیکھ اور سونگھ کر ہی وزیر داخلہ اور خان صاحب نے اپوزیشن کو چنوتی دی ہے۔ اب تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی متحدہ اپوزیشن کو ان الفاظ میں للکارا ہے: تم لوگوں نے جو کرنا ہے کر لو، ہم تو اپنے اقتدار کی مدت پوری کریں گے۔