9دسمبر2021 کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر، کراچی، میں نون لیگی رہنما، احسن اقبال، پر حملہ اور تشدد کا واقعہ محض واقعہ ہی نہیں سانحہ کہا جانا چاہیے۔ نون لیگ کے سابق گورنر سندھ، زبیر عمرصاحب، اور نون لیگ کے سابق وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل صاحب، کو بھی دھکے دیے گئے ہیں۔
شہباز شریف صاحب نے اس بدسلوکی پر سخت احتجاج کیا ہے۔ نون لیگی کے مخالفین اور وفاقی حکمرانوں کاکہنا ہے کہ احسن اقبال اور اُن کے ساتھی ایک "معمولی سی دھینگا مشتی" کو "تصادم" کا نام دے کر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی کارکن یا سیاسی شخصیت کسی بھی سیاسی واقعہ کو اپنے پارٹی اور نجی مفادات کے تحفظ کے لیے بروئے کار تو لاتا ہی ہے۔
احسن اقبال کے ساتھ کراچی میں جو مبینہ "دھینگا مشتی" ہُوئی ہے، کم از کم یہ تو تسلیم کیا گیا ہے کہ احسن اقبال کے ساتھ نامناسب سلوک کیا گیا ہے۔ اس پر معذرت کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا رویہ نہ تو سندھ کی صوبائی حکومت نے اختیار کیا ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت نے کہ ایک وفاقی ادارے پر احسن اقبال نے تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔
احسن اقبال صاحب ہمارے ملک کے ممتاز، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شائستہ مزاج سیاستدان ہیں۔ نون لیگ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ہیں۔ بیک وقت جناب نواز شریف اور شہباز شریف کے معتمدِ خاص بھی۔ کہا جاتا ہے کہ احسن اقبال صاحب اُن ممتاز اور مرکزی نون لیگی قائدین میں شمار ہوتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے قائل ہیں۔ وہ کسی بھی سنگین تصادم سے گریز پا رہنے والی شخصیت ہیں۔
طلبا سیاست سے عملی سیاست تک انھوں نے جتنے بھی مراحل اور مدارج طے کیے، اُن کی زندگی میں کہیں بھی تصادم اور تشدد کا شائبہ نہیں ملتا۔ شاید اس کی بڑی وجہ اُن کی والدہ محترمہ، آپا نثار فاطمہ مرحومہ، کی تعلیم و تربیت کا مرکزی کردار رہا ہے۔ آپا نثار فاطمہ مرحومہ خود بھی ہماری پارلیمنٹ کی رکن رہی ہیں۔ ہمارے ہاں اسلامی قانون سازی کے میدان میں کئی نقوش اُن کے بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ دین سے محبت اور شائستہ رویوں کی ترویج و محبت کا سلیقہ اور آموختہ احسن اقبال صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ سے سیکھا۔
احسن اقبال صاحب کئی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہُوئے ہیں۔ وفاقی وزیر بھی بنے۔ ایک بار وزیر منصوبہ بندی اور دوسری بار وزیر داخلہ۔ وہ اُس پاکستان کے وزیر داخلہ تھے جب ایک بد بخت نے انھیں گولی مار دی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندگی بخشی اور وہ شدید زخمی ہونے کے باوجود رُوبصحت ہو گئے۔ آج بھی ہمارے درمیان صحت کے ساتھ موجود ہیں اور قوم، ملک اور اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کررہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جب انھیں گولی ماری گئی تھی، اُن کے انتخابی حلقے میں اُن کے سیاسی حریف نے اس سانحہ اور گولی چلانے والے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اِسی سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اپنے تعصبات سے کس حد تک اور کس قدر مغلوب ہو سکتے ہیں۔ احسن اقبال صاحب نے مگر اس سفاک رویے کا شکوہ تک نہ کیا۔ اس کا صلہ یوں ملا کہ وہ آج بھی اپنے حلقے میں کامیاب و کامران اور محبوب ہیں اور اُن کے سیاسی حریف ناکام ونا مراد۔
جناب احسن اقبال، احسن اسلوب میں بات چیت کرنے اور صبر کے ساتھ شکوہ کرنے کے قائل ہیں۔ کراچی میں ہونے والی بد سلوکی، جس میں اُن کا ہاتھ شدید زخمی ہُوا ہے، کے باوصف اُسی شام جب وہ ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں شریک ہُوئے تو اُن کی گفتگو میں جارحیت کی تلخی کم اور صبر کی مٹھاس زیادہ تھی۔ انھیں زیادہ شکوہ اور شکایت یہ تھی کہ مرکزی حکومت کے لیے مناسب نہیں تھا کہ وفاقی ادارے کے ذمے داران کو نون لیگی قیادت کے خلاف بروئے کار لایا جاتا۔ آخر نون لیگی قیادت اور کارکنان کوئی ایسا اقدام تو نہیں کررہے تھے کہ اُن کے ہاتھ اور پاؤں روکنے کے لیے اُن کے ہاتھوں اور پاؤں پر ضربیں لگا دی جاتیں؟
نون لیگی قیادت کراچی میں بس یہی کرنا چاہتی تھی کہ بسوں کی گرین لائن سروس کے اجرا سے ذرا پہلے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اسلوب میں "افتتاح" کردیا جائے۔ یہ شوق اگر پورا کرنے دیا جاتا تو بھلا کونسی قیامت ٹوٹ جانی تھی؟ نون لیگی قائدین علامتی طور پر محض یہی شو کرنا چاہتی تھی کہ چونکہ کراچی کے عوام کے لیے اس ٹرانسپورٹ منصوبے کا آغاز جناب نواز شریف کی حکومت نے کیا تھا، اس لیے "افتتاح" کا حق بھی نون لیگ ہی کا ہے۔ اس شوق اور تمنا کی تکمیل سے قبل ہی احسن اقبال کا ہاتھ توڑنے کی جرأت و جسارت کرنا کسی بھی اعتبار سے احسن اقدام نہیں کہا جا سکتا۔
اس واقعہ اور سانحہ پر احسن اقبال حسبِ روایت ٹوئٹر پر فوری طور پر خوب متحرک ہُوئے۔ اور اپنا پیغام اپنی اعلیٰ ترین قیادت اور اپنے کارکنوں تک ترنت پہنچایا۔ یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی۔ کسی بھی شکل میں کسی بھی سیاسی کارکن اور منتخب سیاسی قیادت پر تشدد ناقابلِ برداشت عمل ہے۔ یہ تو احسن اقبال کا صبر ہے کہ انھوں نے تحمل اور برداشت کے ساتھ، مسکراتے ہُوئے، اس واقعہ کا ذکر کیا ہے اور خوشگوار لہجے میں یہ بھی کہا ہے کہ " کراچی کے گلستان کے نکھار میں ہمارے زخمی ہاتھ کا خون بھی شامل ہو گیا ہے۔"
واقعہ مگر یہ بھی ہے کہ اُن کا اصل شکوہ سندھ حکومت سے تھا جہاں پیپلز پارٹی کا پرچم لہرا رہا ہے اور بظاہر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی محبتیں بھی نظر آتی ہیں لیکن بباطن مناظر کچھ اور ہی ہیں۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی مبینہ محبتوں کا قصہ بھی عجب ہے۔ کبھی تو ان دونوں کی یکجائی کا یہ منظر ہوتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک آ ملے ہیں اور کبھی دونوں حریفوں اور دشمنوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ دونوں نے مل ملا کر اپنے اپنے چاپنے والوں کو شدید قسم کی اُلجھنوں اور کشمکش میں مبتلا کررکھا ہے۔ لاہور میں این اے 133 کے حالیہ ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی شکست اور نون لیگ کی فتح کے بعد جناب آصف علی زرداری نے نون لیگ پر جو لفظی گولہ باری کی ہے، اس نے بھی یقیناً نون لیگ کا دل کھٹا کیا ہے۔
اب قمر زمان کائرہ صاحب ایسے پیپلز پارٹی کے جیالے سیاستدان آصف زرداری کے ضرر رساں بیان کی شدت کم کرنے کے لیے بہتیرا زور لگا رہے ہیں لیکن جو زخم لگ گیا، لگ گیا۔ سندھ حکومت کے صوبائی دارالحکومت کے قلب میں نون لیگی کارکنان اور احسن اقبال پر جو ضرب لگائی گئی ہے، گرچہ سامنے ہاتھ تو وفاقی ادارے ہی کا نظر آتا ہے لیکن اس بہیمانہ اور بد سلوکی کی اصل ذمے داری اور بوجھ تو سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے۔
نجانے ہمارے رویوں میں رواداری اور صبر کی جگہ تشدد اور انتہا پسندی کے جذبات کیوں غالب آتے جا رہے ہیں؟ سیالکوٹ اور فیصل آباد کے تازہ ترین سانحات کے بعد کراچی میں نون لیگیوں کے ساتھ ظہور پذیر ہونے والا یہ واقعہ ناقابلِ فراموش ہے۔ مستحسن بات یہ بھی ہے کہ احسن اقبال کے ساتھ زیادتی کے باوجود نون لیگ قیادت کا لہجہ جارحانہ نہیں بلکہ مفاہمانہ اور صابرانہ ہے۔ اس لہجے میں بعض مجبوریوں کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔