Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Acha Tha Thehr Jatay Agar Tum Bhi Zara Aur

Acha Tha Thehr Jatay Agar Tum Bhi Zara Aur

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت، جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹوکر رہے تھے، ختم کر دی گئی۔ ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے وعدہ کیا کہ وہ 90 دن میں انتخابات کرائیں گے، مگر انھوں نے اپنا وعدہ کبھی پورا نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹوکو متنازعہ عدالتی فیصلہ کی بناء پر پھانسی دیدی گئی، ملک میں سیاسی سرگرمیاں جرم قرار پائیں۔

اکرم ڈوگرکا تعلق نوجوانوں کی اس نسل سے تھا جو بھٹوکے قتل سے متاثر ہوئی۔ اکرم، لائل پور میں پیدا ہوئے۔ میٹرک اور انٹر کا امتحان پاس کیا، بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ والد سے اپنی اس خواہش کا اظہار کہا کہ وہ کراچی جا کر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ والد اور والدہ اپنے بیٹے کے چہرے کی معصومیت کو خوب محسوس کرتے تھے، یوں وہ فوری طور پر تیار نہ ہوئے مگر بیٹے کی ضد پر آخرکار ہتھیار ڈال دیے، یوں وہ ایک صندوق کے ہمراہ کراچی آ گئے۔

اکرم ڈوگر لائل پور میں ترقی پسند حلقوں سے متعارف ہو گئے تھے، انھیں بچپن سے کتابیں اور اخبار پڑھنے کا بھی شوق تھا اور معروف مؤرخ علی جعفر زیدی کے متاثرین میں شامل رہے تھے۔ اس بناء پر ان کے صندوق میں چند کپڑوں کے علاوہ کچھ کتابیں بھی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے بی اے آنرز کے طالب علم ہو گئے، ہوسٹل میں جو کمرہ ملا اس میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم وسعت اﷲ خان موجود تھے۔ وسعت اﷲ رحیم یار خان سے آئے تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر تھے مگر دونوں میں ایسی دوستی ہوئی کہ اکرم کی رحلت تک جاری رہی۔

کراچی یونیورسٹی میں ترقی پسند طلبہ پروگریسو فرنٹ کے پلیٹ فارم پر متحد تھے۔ اکرم ڈوگر پروگریسو فرنٹ میں شامل ہو گئے۔ 1978-79ء کے سال کے لیے کراچی یونیورسٹی طلبہ یونین کے انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نامزد امیدوار حسین حقانی صدر اور پروگریسو فرنٹ کے رفیق پٹیل سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ ابھی یونین کی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخابات باقی تھے کہ وائس چانسلر ڈاکٹر احسان رشید نے یونین کے عہدیداروں کی حلف برداری کے انعقاد کا فیصلہ کیا اور اسٹوڈنٹس ٹیچر سینٹر میں اس تقریب کے انعقاد کے لیے انتظامات کیے۔

انتظامیہ کا فیصلہ کراچی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے قواعد و ضوابط کے خلاف تھا۔ پروگریسو فرنٹ اور لبرل اسٹوڈنٹس نے ایک جلوس نکالا۔ جب جلوس اسٹوڈنٹس ٹیچر سینٹر کی سیڑھیوں تک پہنچا تو عمارت کی چھت پر موجود مسلح افراد نے جلوس پر فائرنگ کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک پیشہ ور شخص راجہ جاوید کی اس سلسلہ میں خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ بعد میں ایک خصوصی عدالت نے قتل کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہونے پر راجہ جاوید کو سزائے موت دی، اس فائرنگ کے نتیجے میں متعدد طلباء وطالبات زخمی ہوئے۔

معروف وکیل یونس شاد شدید زخمی ہوئے۔ فائرنگ سے بچنے کے لیے اکرم ڈوگر نے 16 سیڑھیوں کی اونچائی سے چھلانگ لگائی، ان کی کمر میں شدید ضرب لگی۔ وہ کئی ہفتے تک چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے مگر مہینوں کمر درد کی شکایت کرتے رہے، مگر جیسے ہی وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے فوراً احتجاجی اجلاسوں میں شرکت کرنے لگے۔ 80ء کی دہائی کا پہلا عشرہ ترقی پسند طلبہ، مزدوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے شدید مشکلات کا دور تھا۔

شہر میں سیاسی کارکنوں کے لیے زمین تنگ تھی مگر اکرم ڈوگر ایسی سنگین صورتحال میں پروگریسو فرنٹ سے منسلک رہے، وہ دل کھو ل کر نعرے لگاتے۔ خوب بحث و مباحثہ کرتے مگر اخبارات کے مطالعہ اور کتب بینی پر مکمل توجہ دیتے تھے، کراچی یونیورسٹی میں خون ریز تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی، متحارب گروپوں میں فائرنگ معمول بن گئی۔ پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قدیر عابد جاں بحق ہوئے۔

حملہ آوروں نے حاصل بزنجو کو پیشکش کی کہ وہ بھاگ جائیں مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور ان کے گھٹنے پرگولی مار دی گئی، یوں پروگریسو فرنٹ منتشر ہوا۔ مومن خان مومن، فہیم الزمان اور حاصل بزنجو نے یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ (U.S.M) کو منظم کیا، اکرم ڈوگر اس فرنٹ کا حصہ بن گئے۔ اس زمانہ میں اسلامی تاریخ کے استاد ڈاکٹر مراد اور ان کی اہلیہ پروفیسر سلمیٰ مراد، فلسفہ کے استاد ڈاکٹر ظفر عارف اور دانشور محمد میاں نے ترقی پسند طلبہ کو مارکس ازم کی تعلیم دینے کے لیے اسٹڈی سرکل شروع کیے۔ اکرم ڈوگر ان اسٹڈی سرکل میں باقاعدگی سے شرکت کرتے، کتابوں کے بارے میں سوالات کرتے۔ ان کے بعض سوالات بہت معصومانہ ہوتے تھے۔

کمیونسٹ پارٹی کی ایماء پر پی ٹی وی کے سابق سربراہ اسلم اظہر نے ڈرامہ گروپ "دستک" قائم کیا جہاں نوجوانوں کو اداکاری کی تربیت دی جاتی تھی۔ اکرم ڈوگر دستک کی نشستوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے طلبہ فرنٹ سے متعلق کسی فرد نے اسلم اظہر کو باور کروایا کہ اکرم ڈوگر مشکوک آدمی ہے۔ اسلم اظہر نے اکرم ڈوگر کی موجودگی پر اعتراض کیا۔ بعد میں الزام لگانے والے بھول گئے مگر اکرم ڈوگر نے مہینوں اس الزام کو دھرایا۔ معروف ادیب اور دانشور احمد سلیم اور راقم الحروف نے اکرم ڈوگر کا دفاع کیا تو ہر طرف سے یہ جواب آیا کہ یہ بات تو خود انھوں نے بتائی ہے۔ بہرحال دوستوں کے بار بار اصرار پر یہ معاملہ ختم ہوا۔

80ء کی دہائی میں ایک رات کو وسعت اﷲ خاں اور اکرم ڈوگر میرے ساتھ میرے گھر جا رہے تھے کہ پی ای سی ایچ ایس میں الفلاح مسجد کے سامنے بائیں بازو کے معروف دانشور محمد میاں ٹہلتے ہوئے مل گئے۔ انھوں نے اپنے گھر چلنے کی دعوت دی۔ میاں صاحب خود چائے تیار کرنے میں شہرت رکھتے تھے، یوں ہم تینوں ان کے گھر چلے گئے، زوردار بحث و مباحثہ شروع ہوا، میاں صاحب زور زور سے دلائل دیتے تھے۔ اس بحث و مباحثہ کے دوران اکرم ڈوگر نے معصومانہ انداز میں میاں صاحب سے سوال کر لیا کہ آپ نے اتنی جدوجہد کی کیا آپ کبھی جیل گئے ہیں؟

میاں صاحب یہ سوال سن کر مشتعل ہو گئے۔ پہلے انھوں نے اکرم کو اردو انگریزی میں برا بھلا کہا اور پھر مارنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا، یہ کوئی صبح 4 بجے کا وقت تھا۔ وسعت اور راقم الحروف نے بیچ بچاؤکرایا۔ محمد میاں کا غصہ ٹھنڈا ہوا، انھوں نے اکرم کو گلے لگایا۔ دونوں راستہ میں اکرم سے پوچھتے رہے کہ رات گئے انھیں یہ سوال کرنے کی کیا سوجی تھی۔ 12 فروری کو میرے ماموں زاد بھائی راشد رحمن کا ملتان میں انتقال ہوا۔ مجھے پی آئی اے کی فیصل آباد فلائٹ میں سیٹ ملی۔

میں نے اکرم ڈوگر کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مجھے فیصل آباد سے فوراً ملتان جانا ہے۔ وہ فروری کی سردی میں رات گئے فیصل آباد ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ مجھے اپنے گھر لے گئے اور ساری رات مجھے چائے اور قہوہ پلایا اور زندگی کے ہر معاملہ پر مباحثہ ہوا۔ انھوں نے اس ملاقات میں ذکر کیا کہ وہ 80ء کی دہائی میں لگائے جانے والے پولیس ایجنٹ کے الزام کو نہیں بھول پائے۔ اکرم نے مجھے اور میری بھابھی کو صبح 5 بجے ملتان جانے والی بس میں سوار کرایا۔

اکرم 3 مئی کو دنیا سے چلے گئے اور اپنے اہل خانہ کے علاوہ دوستوں کو اداس چھوڑ گئے۔ فیض نے میجر اسحاق کے انتقال پر مرثیہ لکھا تھا جو آج غم گساران اکرم کے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے۔

لو تم بھی گئے، ہم نے تو سمجھا تھا کہ تم نے

باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمان وفا اور

یہ عہد کہ تا عمر رواں ساتھ رہو گے

رستے میں بچھڑ جائیں گے جب اہل صفا اور

ہم سمجھے تھے صیاد کا ترکش ہوا خالی

باقی تھا مگر اس میں ابھی تیر قضا اور

ہر خار رہ دشت وطن کا ہے سوالی

کب دیکھیے آتا ہے کوئی آبلہ پا اور

آنے میں تامل تھا اگر روز جزا کو

اچھا تھا ٹھہرجاتے اگر تم بھی ذرا اور