تحریک انصاف کی حکومت کراچی والوں سے مسلسل مذاق فرما رہی ہے۔ سرکلر ریل کے بجائے کراچی سٹی اسٹیشن سے پپری تک لوکل ٹرین چلا دی گئی۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے فخر سے اعلان کیا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی پاسداری کی ہے۔
یہ ریل گاڑی سٹی اسٹیشن سے صبح چل رہی ہے اور شام کو پپری سے واپس آتی ہے۔ پہلے اس کا کرایہ 50 روپے مقررکیا گیا تھا مگر شیخ رشید اس گاڑی کے افتتاح کے لیے خود کراچی تشریف لائے اور فیاضی کرتے ہوئے کرایہ 30 روپے کر دیا۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ اورنگی سے پپری تک سرکلر ریلوے اگلے مہینہ چلے گی۔
سندھ کا محکمہ ٹرانسپورٹ اس عزم کا اظہارکر رہا ہے کہ اورنگی سے پپری کے راستہ میں آنے والے 16مقامات پر اوور ہیڈ برج تعمیر ہونگے اور گیٹ لگائے جائیں گے۔ ریلوے کے حکام نے گزشتہ مہینوں بار بار یہ فرمایا تھا کہ پہلے اورنگی سے پپری تک گاڑی چلے گی مگر نہ تو اس علاقہ میں پٹری کی مرمت کا کام مکمل ہوا نہ ریلوے اسٹیشنوں کی مرمت ہوئی، یوں حکام کو مجبوراً اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرنا پڑی۔
سپریم کورٹ کی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے والے ایک رپورٹر نے بتایا کہ معزز چیف جسٹس گلزار احمد نے سندھ کے چیف سیکریٹری اور ریلوے کے سیکریٹری کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے تھے اس لیے جلدی سے سٹی اسٹیشن سے ریل گاڑی چلانے کا فیصلہ ہوا جس کو سرکلر ریلوے کا نام دیا گیا۔ اب پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے صورت حال کا نوٹس لیا اور وزیر اعلیٰ کو ذاتی طور پر طلب کر لیا۔
کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ سے دلچسپی رکھنے والے صاحبان اس خدشہ کا اظہارکر رہے ہیں کہ نامکمل سرکلر ریلوے مسافروں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکے گی اور یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ فرما چکے ہیں کہ سرکلر ریلوے سے کراچی کے مسافروں کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرکلر ریلوے پرانے ٹریک پر چلتی ہے جس کے خاصے امکانات ہیں تو کراچی کے شہریوں کو کچھ فائدہ ہو گا مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ سرکلر ریلوے کے لیے مختص گاڑیوں کی تعداد بڑھائی جائے۔
خاص طور پر صبح اور شام سے پہلے ہر 10 سے 15 منٹ بعد گاڑی چلے، پھر ریلوے کا عملہ ہر صورت اوقات کار کی پابندی کرے۔ جس فرد کو صبح 8 بجے سٹی اسٹیشن پہنچنا ہو وہ شخص صبح 7 بجے لانڈھی اسٹیشن پر موجود ہو تو اس گاڑی پر جانے اور اس مسافر کو 7:45 بجے سٹی اسٹیشن پہنچا دے۔ ایسی ہی صورتحال سائٹ اور اورنگی اسٹیشنوں سے پپری جانے والی گاڑیوں کی ہو۔
اس طرح شام 4 بجے سے رات 8 بجے تک سٹی اسٹیشن سے پپری جانے والی گاڑی ہر 15 منٹ بعد دستیاب ہو اور وقت پر لوگوں کو گھروں تک پہنچا دے۔ پھر ہر علاقہ میں ریلوے اسٹیشن پر شٹل سروس مہیا ہو۔ ریل میں سوار ہونے اور ریل سے اترنے والے مسافروں کو شٹل سروس کی سہولت مہیا ہو تو پھر یہ مسافروں کے لیے انتہائی مفید ہو گا۔
سرکلر ریلوے کو کامیاب کرنے میں وفاقی حکومت کی وزارت ریلوے اور حکومت سندھ کا بنیادی کردار ہے۔ ریلوے کی وزارت کے افسران کو اپنے عملہ کو متحرک کرنا ہے تا کہ سرکلر ریل کی پٹری درست حالت میں رہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض جگہوں پر پٹری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ریلوے کے عملہ نے اس پٹری کی مرمت کی کوشش کی ہے مگر اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سرکلر ریلوے شہر کے گنجان آباد علاقوں سے گزرے گی جہاں ریل کے گزرنے سے ٹریفک رکے گا۔ اگر ٹرین کو کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو نہ صرف مسافر بلکہ شہر کا بڑا حصہ متاثر ہو گا۔ اس طرح سرکلر ریلوے کے لیے ایسے انجن فراہم کرنے ہونگے جو راستہ میں خراب نہ ہوں۔
اگرچہ ریلوے والوں نے تیار ہونے والی جدید بوگیاں اس مقصد کے لیے مختص کی ہیں جو خاصی آرام دہ ہیں۔ ان بوگیوں کی صفائی اور وقت پر دستیابی ریلوے کے عملہ کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔ ایک دفعہ کسی ریل گاڑی میں کوئی تکنیکی خرابی ہوئی اور گاڑی مقررہ وقت پر اسٹیشن پر نہیں پہنچی تو مسافر نہ صرف فوری طور پر مایوس ہونگے بلکہ آیندہ سفر سے گریز کریں گے۔
حکومت سندھ کی اہم ذمے داری یہ ہے کہ سرکلر ریلوے کے تمام اسٹیشنوں کو جانے والی سڑکیں اچھی حالت میں رہیں۔ ہر اسٹیشن سے شٹل سروس چلانے کی ذمے داری بھی سندھ حکومت کی ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ شٹل سروس کا معاملہ نجی شعبہ کے حوالہ کر دیا جائے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں سوزوکیاں اور چنگ چی رکشہ مختصر فاصلہ کے سفر کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ چنگ چی موٹر سائیکل پبلک ٹرانسپورٹ کے زمرے میں شامل نہیں ہے۔ یہ صرف مال برداری کے لیے مختص ہے مگر سوزوکی کسی حد تک مناسب ہے۔
حکومت کو لاہور میں چلنے والی شٹل بسوں کی طرح اعلیٰ معیار کی بسوں کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے تا کہ مسافر اچھے ماحول میں شٹل میں بیٹھ کر سفر کر کے اسٹیشن پہنچیں اور اسٹیشن سے اپنے گھرکے قریب ہی اسٹاپ پر اتریں۔ اسی ضمن میں ایک اہم ترین مسئلہ امن و امان کا ہے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ سرکلر ریلوے کے اسٹیشن آبادی سے دور اور سنسان ہوتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے لیے ریلوے اسٹیشن خاصی کشش پیدا کریں گے اور اس بات کا خطرہ ہے کہ مختلف اسٹیشنوں پر آنے والے مسافر لوٹ مار کا شکار نہ ہو جائیں۔ خاص طور پر خواتین کے لیے زیادہ خوف کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
حکومت سندھ پولیس کے محکمہ کو پابند کرے اور ہر علاقہ کے ایس ایچ او کے فرائض میں شامل ہو کہ ریلوے اسٹیشن کو اسٹریٹ کرائم سے پاک رکھا جائے گا اور ریلوے پولیس ہرگاڑی میں لوٹ مار کرنے والے افراد کے خلاف مستند رہے تو پھر صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
دنیا بھر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے جرائم پر قابو پایا جاتا ہے۔ پولیس کا محکمہ ہر اسٹیشن پر خفیہ کیمرے نصب کرے اور تھانے کے کنٹرول روم سے ان کیمروں کی نگرانی کی جائے تو زیادہ افرادی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پولیس اہلکار اس بات کو یقینی بنائیں کہ سرکلر ریل اور ریلوے اسٹیشن اسٹریٹ کرائم سے محفوظ علاقے ہونگے، پھر مسافروں کی اکثریت سرکلر ریل کو ترجیح دے گی۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی ذمے داری حکومت سندھ کی ہے مگر حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومت سندھ کی ترجیحات میں کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کی حکومت کے 12سال بعد فخر سے اعلان کیا گیا ہے کہ کراچی میں گرین لائن کی طرح ریڈ لائن اور یلو لائن بھی متعارف ہونگی۔ گرین لائن وفاقی حکومت کا منصوبہ تھا جس کی تکمیل کے امکانات ابھی واضح نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے گزشتہ دنوں بتایا کہ یہ منصوبہ اگلے سال وسط تک مکمل ہو گا۔ حکومت سندھ نے پہلے ہی ریڈ لائن اور یلو لائن کی تعمیر کے اعلانات کیے تھے مگر یہ اعلانات محض اخبارات کی خبروں تک محدود رہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ابھی تک ریڈ لائن کا ذکر محض فائلوں تک محدود ہے۔ پھر کورونا کا پھیلاؤ ہر منصوبہ کو التواء کا شکار کر رہا ہے۔
یوں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ریڈ لائن اور پھر یلو لائن کے منصوبے 10 سال بعد ہی پایہ تکمیل کو پہنچیں گے اور کراچی کے عوام جدید ٹرانسپورٹ کے جدید نظام سے محروم رہیں گے۔ سرکلر ریلوے کی نگرانی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ بہرحال وفاقی حکومت اور حکومت سندھ سرکلر ریلوے کے منصوبہ کو کامیاب کر دے تو یہ اس صدی کے بڑے کارناموں میں شامل ہو گا۔