Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Doosri Soorat Mein

Doosri Soorat Mein

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا صدر منتخب کرلیا، یوں غیر مذہبی جماعتیں بھی ایک عالم کی قیادت میں متحد ہوگئیں۔ آج کے دور میں قدامت پرستی اور جدید رجحانات کے درمیان فاصلے اتنے گہرے ہیں کہ اس صورتحالسے کئی سوالات زیادہ گہرے ہو گئے۔

بعض صاحبان کے ذہنوں میں 1977 میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد PNA کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ پی این اے کے قائد مولانا فضل الرحمن کے والد مفتی محمود تھے۔ پی این اے جمہوری اداروں کی بالادستی اور انسانی حقوق کی پامالی کو روکنے کے لیے قائم ہوا تھا مگر بعد میں یہ اتحاد نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے نعرے کے ساتھ مقبول ہوا اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت تحفہ میں دے گیا۔ پاکستان میں سیاسی اتحاد بننے کی روایت سب سے پہلے 1954 میں مشرقی پاکستان سے شروع ہونے والی قوم پرست اور سوشلسٹ جماعتیں جگتو فرنٹ کے نام سے متحد ہوئیں۔

جگتو فرنٹ نے پاکستان قائم کرنے والی جماعت مسلم لیگ کو تاریخ کی بدترین شکست دی تھی مگر باقی اتحادوں میں مذہبی اور غیر مذہبی جماعتیں شامل رہیں۔ جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں جماعت اسلامی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی قیادت میں متحد ہوگئی تھیں۔ ایوب خان کی حکومت کے خلاف یہ سب سے پہلا اور بڑا چیلنج تھا۔ پھر غیر مذہبی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے علیحدہ علیحدہ اتحاد قائم ہوئے۔

2002 میں مولانا فضل الرحمٰن، قاضی حسین احمد اور چھوٹی مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل میں شامل ہوئیں، یوں ایم ایم اے کو اس وقت پختون خوا میں حکومت ملی جب جنرل پرویز مشرف طالبان اور القاعدہ کے خلاف آپریشن میں مصروف تھے۔ سب سے پہلے 1977میں قائم ہونے والے پاکستان قومی اتحاد کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیا جائے تو کچھ حقائق سامنے آتے ہیں۔ پی این اے میں تحریک استقلال، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور مسلم لیگ وغیرہ شامل تھیں۔

اس اتحاد میں مذہبی جماعتوں کی اکثریت تھی۔ تحریک استقلال کے ایئر مارشل اصغر خان اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما بیگم نسیم ولی خان کا واحد مقصد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایئر مارشل اصغر خان کے بھائیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا تھا۔ اس طرح نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر نیپ کے صدر خان عبدالولی خان اور ان کے صاحبزادہ اور دیگر رہنماؤں کو حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کیا گیا تھا اور ان رہنماؤں پر ملک سے غداری کے سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان سے سب سے زیادہ خوفزدہ تھے۔

بھٹو نے ایجنسیوں کو ٹاسک دیا کہ اصغر خان پی این اے کے سربراہ نہ بن سکیں اور شاید اتفاق مفتی محمود پر ہوا اور اتحاد کے پہلے سیکریٹری جنرل رفیق باجوہ کو بنایا گیا، جو جماعت علماء پاکستان کے نمایندے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خفیہ والوں کی کوششوں سے رفیق باجوہ کی ملاقات پیپلز پارٹی کے سربراہ سے ہوئی اور یہ خبر لیک ہوئی تو رفیق باجوہ کے مستعفی ہونے پر جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور کو سیکریٹری جنرل بنایا گیا۔ مفتی محمود کا تعلق جمعیت علماء ہند سے تھا۔ جمعیت علماء ہند کے اکابرین نے انگریز راج کے خاتمہ کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔

علماء کی انگریز راج کے خلاف جدوجہد کا آغاز تو 19ویں صدی میں ہوگیا تھا مگر 1920 میں جمعیت علماء ہند کے قیام کے بعد تو باقاعدہ جدوجہد ہوئی۔ ان علماء کو کالے پانی جزائر انڈیمان بھیجنے کی سزائیں ہوئیں۔ ریشمی رومال تحریک میں سیکڑوں علماء ہندوستان سے ہجرت کر کے افغانستان چلے گئے تھے۔

ان میں کچھ سوویت یونین بھی پہنچ گئے تھے جہاں وہ سوویت یونین کے سوشلسٹ نظام سے متاثر ہوئے تھے۔ مفتی محمود تربیت کی بناء پر انھیں جمہوری عمل پر یقین رکھنے والا سمجھا جاتا تھا۔ مفتی محمود نے عورت کے اسلامی ملک میں سربراہ مملکت بننے کے خلاف تھے اس بناء پر انھوں نے فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابات میں حمایت نہیں کی تھی مگر وہ ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں شریک رہے تھے۔ مفتی محمود نے 1971 میں مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کی تھی۔ پھر 1972 میں مفتی محمود نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے پختون خوا کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔

جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کیا تو مفتی محمود احتجاجاً فوری طور پر اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے تھے مگر بعد میں واضح ہونے والے حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے ایک قریبی معاون کی حکمت عملی اس اتحاد کے پس پشت پر تھی اور راولپنڈی سے آنے والی لائنوں نے پی این اے کو نظام مصطفی کا نعرہ دیا تھا۔ امریکا کی حکومت بھی بھٹو حکومت کے خلاف تھی اور امریکا اسلام کے نام کو سوویت یونین کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتا تھا اور مقصد کسی قسم کا اسلامی نظام نافذ کرنا نہیں صرف بھٹو حکومت کا خاتمہ تھا۔

اس بناء پر پی این اے کی تحریک میں اس کے منشور کو نظرانداز کیا گیا اور نظام مصطفی کے نام سے تحریک کو مقبول کیا گیا تھا مگر جب پی این اے کے رہنما مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان اور پروفیسر غفور احمد نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں سے مذاکرات کیے تو مذاکرات میں نئے انتخابات کا انعقاد، سیاسی قیدیوں کی رہائی، بلوچستان سے فوج کی واپسی جیسے مطالبات تھے۔

ان رہنماؤں نے کسی صورت نظام مصطفی کے نفاذ کا مطالبہ نہیں رکھا تھا مگر کیونکہ پی این اے کو بنانے والوں کا بنیادی مقصد بھٹو حکومت کا خاتمہ اور جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں حکومت کا قیام تھا یہی وجہ ہے کہ 4 جولائی کو 12:00 بجے سے قبل پی این اے اور بھٹو حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تو نئے دن کے آغاز کے چند گھنٹے بعد منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو حراست میں لے لیا گیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا۔ پی این اے تحلیل ہوگئی۔

مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود جنرل ضیاء الحق کے خلاف بننے والے تحریک بحالی جمہوریت MRD کے قیام پر متفق ہوئے تھے کہ اچانک انتقال کر گئے اور نوجوان مولانا فضل الرحمٰن کی جدوجہد کا آغاز ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے ہوا اور انھوں نے جوانی کے کئی سال صوبہ سرحد کی جیلوں میں گزارے۔ انھوں نے 1988 میں بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کی مخالفت بھی کی تھی اور بینظیر بھٹو حکومت کے اتحادی بھی رہے مگر 90 کی دہائی سے جمعیت علماء اسلام کی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

جمعیت علماء اسلام طالبان کی سرپرست بن گئی اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو کبھی فرقہ وارانہ بیانیہ کو اپنی تقاریر کا حصہ نہیں بنایا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے بلوچستان کے بلوچ علاقوں اور اندرون سندھ مدارس کا جال بچھایا گیا۔ ان مدارس کی تعداد تین ہندسوں میں بتائی جاتی ہے اور یہ تمام مدارس جے یو آئی کی تنظیم سے منسلک ہیں۔ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تعداد کتنی ہے اس کا حقیقی اندازہ نہیں ہے مگر یہ سب سے منظم فورس ہے۔

ترقی پسند قوتوں کی کوششوں سے پختون تحفظ موومنٹ کی پی ڈی ایم میں شرکت ایک مثبت اقدام ہے۔ پی ڈی ایم عدم تشدد کی پالیسی اور ریاستی تشدد کا شکار رہی۔ نا نظر آنے والی قوتیں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہیں۔ پی ڈی ایم میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بڑی جماعتیں ہیں۔ اے این پی، نیشنل پارٹی، پختون خواہ، ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی چھوٹی جماعتیں ہیں۔ ان جماعتوں کے پاس کارکنوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کی سوچ جے یو آئی کے رہنماؤں جیسی ہے۔ پھر ان کی قیادت مسلسل جلاوطنی اور قیدوبند کی صعوبتوں کا شکار رہی۔ مسلم لیگ کو جے یو آئی کے بیانیہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اصل مسئلہ پیپلز پارٹی، اے این پی، نیشنل پارٹی پختون خواہ ملی پارٹی اور بی این پی کے ساتھ ہے۔

اگرچہ جماعتیں اپنے کارکنوں کو متحرک رکھتی ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے معاملہ پر عملی طور پر متفق ہوتی ہیں تو پی ڈی ایم اپنے حقیقی مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کر سکے گا، دوسری صورت میں پی این اے کی تاریخ بھی دہرائی جا سکتی ہے۔