پاکستان کے عوام غریبوں کی مدد کرنے میں دنیا کے بیشتر ممالک سے آگے ہیں۔ عوام فیاضی کے ذریعہ لوگوں کی مدد کرنے کو عبادت جانتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین نے عوام کے عطیات پر خاصی تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج سے پاکستان کے عوام کا سربلند ہوجاتا ہے۔
ماہرین کے تخمینہ کے مطابق ہر سال 500 بلین روپے لوگ خیرات، صدقات اور عطیات کی شکل میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ رقم خام قومی آمدنی GDP کا 3 فیصد کے قریب بنتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے اقتصادی ماڈلزکے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ممالک میں عوام کی جانب سے عطیات دیے جانے کی شرح پاکستان کے مقابلہ میں کم ہے۔
پاکستان میں مسلمان عمومی طور پر رمضان المبارک کے مہینہ میں زکوۃ اور فطرہ ادا کرتے ہیں۔ ہر مسلمان سال بھر میں (ساڑھے سات تولہ سونا، باون تولہ چاندی یا ان اشیاء کے برابر کی رقم اگر سال بھر مسلمان کے پاس موجود ہوتی ہے تو ) ڈھائی فیصد تک زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ عیدالفطر کی نماز سے پہلے ہر بالغ مسلمان فطرہ ادا کرتا ہے۔ فطرہ کی رقم کا تعین گندم یا کشمش یا کھجور وغیرہ کی قیمت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس رقم کے تعین کو نصاب کہا جاتا ہے۔ نصاب کی شرح ہر سال مختلف ہوتی ہے۔
عید الاضحی پر ہر بالغ مسلمان جس پر زکوۃ فرض ہے، کسی جانور اونٹ، گائے، بکری یا بھیڑکی قربانی کرتا ہے۔ جانوروں کی قیمتوں میں اضافے سے اس رقم میں اضافہ ہوتا ہے۔ قربانی کے جانور کے گوشت کا ایک حصہ غریبوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جانور کی کھال عطیہ کے طور پر دی جاتی ہے۔ پاکستانی مسلمان شہریوں کے علاوہ ہندو اور عیسائی اور پارسی بھی بڑے پیمانے پر عطیات دیتے ہیں۔ لوگ مذہبی تہواروں کے علاوہ بھی فیاضی کا ثبوت دیتے ہیں۔ پاکستانی مسلمانوں میں کسی پریشانی کے خاتمے، کامیابی کے شکرانے کے طور پر صدقات دینے کی روایت خاصی مضبوط ہے۔
عمومی طور پر عطیات کسی فرد کو دیے جاتے ہیں۔ مذہبی تنظیموں کے علاوہ سماجی اور سیاسی تنظیمیں عطیات جمع کرتی ہیں۔ ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم یہ عطیات وصول کرتی ہے۔ مذہبی اور سیاسی جماعتیں اپنے مخصوص مقاصد کے لیے عطیات وصول کرتی ہیں، جو لوگ کسی فردکو عطیہ دیتے ہیں وہ اپنے طور پر اس شخص کی مدد کرنے کے تصور کو عملی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیہی علاقوں میں لاکھوں افراد جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے زمینداروں سے ملنے والے عطیات پر زندگی گزراتے ہیں۔ ایسے بہت سے خاندان ہیں جو نسل در نسل ان با اثر افراد سے ملنے والے عطیات پرگزارہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ ذہنی طور پر ان با اثر افراد کے غلام بنے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے بلند نہیں ہو پاتے۔ زکوۃ، فطرہ اور دیگر عطیات کو قدرت کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرتے ہیں مگر ان میں اپنے حالات کار کو بہتر بنانے کی جستجو پیدا نہیں ہوتی۔ یوں ان لاکھوں افراد کا معیشت کو بہتر بنانے کے عمل میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
شہروں میں ہزاروں خاندان ملنے والی بھیک پر نسل درنسل زندگی گزارتے ہیں۔ یہ بھیک مانگنے کو اپنا پروفیشن بنالیتے ہیں۔ یہ فقیر عورتوں اور بچوں کو بھیک حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عا م آدمی خدا کی خوشنودی کے لیے ان لوگوں کو بھیک دیتے ہیں مگر عطیات پر پلنے والے یہ خاندان بھی شرح پیداوار بڑھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے، یوں اربوں روپے کی رقم کے خرچ ہونے کے باوجود غربت کی شرح کم نہیں ہوتی۔ ایک سروے کے مطابق 67 فیصد افراد کسی فرد کو عطیہ دیتے ہیں۔ ملک میں مذہبی جماعتوں کے عطیات وصول کرنے کے معاملہ نے ایک خطرناک شکل اختیار کر لی ہے، بعض مذہبی جماعتوں کو پاکستان کے علاوہ خلیجی ممالک اور سعودی عرب وغیرہ سے عطیات ملتے ہیں۔
ان مذہبی جماعتوں نے ان عطیات کی مدد سے پورے ملک میں مدارس قائم کیے ہیں۔ گزشتہ 40 برس کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ صرف مذہبی تنظیموں ہی نہیں بلکہ سیاسی اور لسانی تنظیموں نے بھی عطیات کو اپنے مخفی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ تنظیموں نے مذہبی تہواروں پر ملنے والے عطیات بھی وصول کیے اور پھر دیگر مواقعے پر بھی افراد اور تجارتی آرگنائزیشن سے عطیات وصول کیے۔ بعض اوقات یہ عطیات رضاکارانہ طور پر وضح کیے گئے۔ یہ عطیات ان تنظیموں نے اپنے عسکری دستوں کو منظم کرنے اور ٹارچرکیمپوں کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیے۔ ان عطیات سے وصول ہونے والی رقوم منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کی گئی۔
یوں نہ صرف ملکی قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی میں ملوث مجرموں کو منی لانڈرنگ کے ذریعے رقوم فراہم کی گئیں۔ منی لانڈرنگ سے نہ صرف دہشت گردوں کو مالیاتی حمایت ملی بلکہ ملک کی معیشت کو بھی سخت دھچکا لگا۔
منی لانڈرنگ کے ذریعے اربوں روپوں کی منتقلی کی وجہ سے پاکستانی ریاست آمدنی کے اہم ذریعہ سے محروم رہ جاتی ہے۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد عالمی برادری کو بھی اس پورے نظام سے تشویش پیدا ہوئی۔ اقوام متحدہ کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ٹاسک فورس نے پاکستان کوگرے ایریا میں شامل کیا۔ اس بناء پر ملکی معیشت کو نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ Safe Charity for Business کا تصور سامنے آیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فیاضی کے عمل سے ملنے والی رقوم کے استعمال کے بارے میں حقائق واضح نہیں ہوتے۔ بعض اوقات یہ رقم سماجی بہبود کے منصوبوں پر خرچ ہوتی ہے۔
بعض اوقات یا کسی قسم کے منفی مخفی مقاصد Hidden Agendas and Objective کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کیونکہ اس رقم کے خرچ ہونے کا کوئی مقدمہ یا دستاویزی ثبوت نہیں ہوتا۔ اس صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ جو فرد عطیہ دے رہا ہے اور جو فرد یا کوئی تنظیم عطیات وصول کررہی ہے اس کے دستاویزی ثبوت موجود ہوں اور یہ انتہائی ضروری ہے کہ عطیہ دیے والے فرد کے آمدنی کے ذرایع واضح ہوں اور عطیہ لینے والا فرد یا تنظیم اس رقم کوکس مد میں خرچ کریں گے یہ تمام حقائق ریکارڈ پر درج ہوں، یوں کسی بھی صورت عطیات سے متعلق رقوم منی لانڈرنگ میں استعمال نہ ہوسکے۔ اس تصورکو Safe Charityکا نام دیا گیا ہے۔ سماجی تنظیم S.D.P.I نے اس مقصد کو اجاگرکرنے کے لیے آگاہی کی مہم شروع کی ہے، ہر باشعور فرد کو Safe Charity کے تصورکو اپنانا ہوگا۔