ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نئے قوانین نے ہزاروں طالب علموں کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ ایچ ای سی کے فیصلہ کے مطابق جن طالب علموں نے 2018 کے بعد کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بی اے، بی ایس سی، بی کام اور دسمبر 2020 کے بعد ایم اے، ایم ایس سی اور ایم کام کی جو ڈگریاں دی جائیں گی، کمیشن ان ڈگریوں کی تصدیق نہیں کرے گا، یوں ہزاروں طالب علموں کی ڈگریاں بے وقعت ہوجائیں گی۔
ایچ ای سی نے اپنے قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں بہت سی اصلاحات کیں۔ ان اصلاحات میں نئے پروگرام اور نئے مضامین کا اجراء اور انڈرگریجویٹ سے ہر سطح پر ریسرچ کلچرکا نفاذ شامل تھا۔ ایچ ای سی کی بہت سی پالیسیوں پر شدید تنقید ہوئی اور بعض پالیسیوں کے نفاذ سے پاکستان کی یونیورسٹیوں کے کورس یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں کے کورس کے مساوی ہوگئے۔
اساتذہ کے تقرر اور ترقیوں کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے علاوہ ریسرچ پیپرزکی لازمی شرط عائد ہوئی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں برطانوی دور کے بی اے، بی اے آنرز، بی ایس سی آنرز، ایم ایس سی اور ایم کام کی تدریس ہوتی تھی۔ اسی طرح ریسرچ کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں رائج تھیں۔ ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں میں آنرز کے کورس نہیں پڑھائے جاتے تھے مگر پاکستان میں اعلیٰ تعلیم بین الاقوامی معیارکے مطابق نہیں تھی۔ یوں ادارے کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بی ایس کا پروگرام رائج کرایا۔ اس کورس میں سماجی سائنس کے علاوہ دیگر کلیات میں نئے مضامین رائج کیے گئے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی انجمن کے عہدیدار ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ایک بے معنی ٰلڑائی میں مبتلا تھے، یوں کراچی یونیورسٹی میں بی ایس (B.S) کا پروگرام رائج ہوا مگر یہ پروگرام متروک قرار پایا اور بی اے آنرزکا پرانا پروگرام نافذ ہوا۔ ملک کی دیگر سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں بی ایس کا پروگرام رائج ہوا توکراچی یونیورسٹی بی اے آنرزکے طلبہ ریاضی، شماریات اورکمپیوٹرکے مضامین کی تعلیم سے محروم رہ گئے۔
ایچ ای سی نے یہ پالیسی واضح کی تھی کہ کچھ عرصہ بعد ایم اے، ایم ایس سی اور ایم کام کے پروگرام ختم کردیے جائیں گے۔ اس طرح ایچ ایس سی نے کالجوں سے بی اے، بی کام اور بی ایس سی کے پروگرام ختم کرنے اور ان کی جگہ ایسوسی ایٹ بی ایس کے پروگرام رائج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بہت بنیادی فیصلے تھے۔ کالجوں میں ایسوسی ایٹ بی ایس کے پروگرام رائج کرنے کا مقصد نئے مضامین رائج کرنا تھا۔ خاص طور پر ایسے مضامین جو صنعت، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا ٹیکنالوجی سے متعلق ہوں اور طلبہ کو یہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد آسانی سے ملازمتیں مل سکیں۔ نئے نظام کوکامیاب بنانے کے لیے تعلیمی فنڈز میں اضافہ لازمی ہے۔ اس نئے فنڈ سے جدید اسمارٹ کلاسوں اور لیباریٹری کے قیام کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت کے لیے پروگرام، تعلیم کے نئے طریقوں، ورکشاپ، سیمینار اورکانفرنس جیسے نئے طریقہ کار کا اجراء بنانا تھا۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت نے کالجوں میں ایسوسی ایٹ بی ایس کے پروگرام کے نفاذ اور اس پروگرام میں نئے مضامین کے اجراء کے لیے ایک جامع پالیسی تیار کی تھی اور پنجاب کے بعض کالجوں میں یہ پروگرام رائج ہوا تھا، مگر دیگر صوبوں میں حکومتوں نے اس نئے نظام کے منصوبہ بندی پر توجہ نہیں دی۔
سندھ کے کالجوں میں صورتحال خاصی ناگفتہ بہ ہے۔ سندھ کے بعض کالجوں میں کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کے پروگرام شروع کیے گئے۔ حکومت سندھ نے ان کورسز کے لیے خصوصی گرانٹ دی تھی، یوں جدید کمپیوٹر سے نظام کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ میں پروگرام خاصے کامیاب رہے مگر مجموعی طور پر سندھ کے کالج بدترین انتظامی بحران کا شکار رہے۔ بیشتر کالجوں میں کلاسوں میں فرنیچر نہیں ہے۔ اسی طرح لیباریٹری، آلات اورکیمیکلز دستیاب نہیں ہیں، جب کہ اسمارٹ کلاس روم کا تصوراب تک حقیقت کا روپ اختیار نہیں کرسکا۔ اب بھی اساتذہ تختہ سیاہ پر چاک سے لکھتے اور اشکال بناتے ہیں۔
اس سال کے شروع میں کوویڈ 19کی بناء پرکالجوں میں تدریس معطل ہوئی۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ Onlineکلاسوں کا اجراء ہوگا مگر اساتذہ کی تربیت جدید اسمارٹ فون اور لیپ ٹاپ دستیاب نہ ہونے، طلبہ کے گھروں میں بجلی کی فراہمی اور انٹرنیٹ دستیاب نہ ہونے سے Onlineکلاسوں سے استفادہ نہ کرسکے۔ ایچ ای سی نے اب کالجوں کے لیے ایسوسی ایٹ بی ایس پروگرام کو لازمی قرار دیا ہے اور ایچ ای سی نے انڈر گریجویٹ اسٹڈیز میں Creative Knowledge کی کیٹیگری میں پاکستان اسٹڈیز اور اسلامک اسٹڈیز کے مضامین بھی شامل کردیے ہیں۔
تعلیم اور انتہاپسندی کے موضوع پرکام کرنے والے اساتذہ کو اس غیر منطقی فیصلہ پر شدید تشویش ہے مگر کالجوں میں اس تناظر میں بنیادی انفرااسٹرکچر دستیاب نہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی چند طلبہ تک محدود ہے، یہی صورتحال باقی صوبوں کی ہے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے دیہی علاقوں میں کالجوں میں ریاضی، فزکس، کیمسٹری، کمپیوٹرسائنس اور انگریزی کے اساتذہ کی کمی ہے اور بہت سے کالجوں میں لیباریٹریز محض نام کی ہیں۔ اسی طرح لائبریریوں میں متعلقہ مضامین کی کتابوں کی عدم دستیابی عام سی بات ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہOnline Library ان مسائل کا حل ہے مگر انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے سے Online Library سے استفادہ نہیں ہوسکتا۔ اردو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عرفا ن عزیز کا استدلال ہے کہ ہر سال ہزاروں طالب علم یونیورسٹیوں سے پرائیوٹ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اب بی اے اور ایم اے کو اچانک ختم کردیا گیا ہے جس سے نہ صرف طالب علموں کا نقصان ہوگا بلکہ سرکاری یونیورسٹیوں کا مالیاتی بحران اور بڑھ جائے گا۔
ایچ ای سی کو چاہیے کہ وہ دنیا بھرکی طرح پاکستان کے طالب علموں کو بھی گریجویشن کی تعلیم کے لیے ضروری 120 کریڈٹ آورکو دو سال میں فاسٹ ٹریک پروگرام کے ذریعے مکمل کرنے کی اجازت دے۔ اسی طرح طالب علموں کے لیے طویل مدتی تعلیمی قرضہ اور اساتذہ کے لیے بڑی تعداد میں تحقیقی وتعلیمی پروجیکٹس اور ضروری کتابوں اور آن لائن مواد کی دستیابی کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر اقدامات بھی ضروری ہیں۔
انتظامی معاملات میں گہری دلچسپی لینے والے استاد پروفیسر نجم العارفین کہتے ہیں کہ بی اے، بی ایس سی اور بی کام کی ڈگریاں حاصل کرنے والے طلبہ بی ایس پانچویں سمسٹر میں داخلہ کے اہل ہوں گے مگر ایچ ای سی پالیسی کے تحت ان طلبہ کو اپنی تعلیمی Defficiency دورکرنے کے لیے ایک اضافی سمسٹر پڑھنا پڑے گا جو Zero Weightage ہوگا، یوں طلبہ اور یونیورسٹی پر مزید بوجھ بڑ ھے گا۔ بین الاقوامی تعلقات کے استاد ڈاکٹر اصغر دشتی کا مدعا ہے کہ گلوبل نالج اکانومی اورنالج ورک فورس جیسے لبرل ایجنڈا پرکام کرنے والے ورلڈ بینک اور فیڈرل ایجوکیشن بیوروکریسی نے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے ذریعہ ایک عوام دشمن پالیسی کا نفاذ کیا ہے۔ اس نئی پالیسی کے نفاذ سے غریب بچے تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔
اسی طرح جو طلبہ اپنی ملازمتوں کے ساتھ پرائیوٹ تعلیم جاری رکھتے تھے وہ اب اپنی تعلیمی اسناد میں اضافہ نہیں کریں گے۔ جذباتی ماحول سے علیحدہ ایک سنجیدگی سے ڈاکٹر عرفان عزیز اور ڈاکٹر اصغر دشتی کے استدلال کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تجاویز میں کچھ حقائق نظر آرہے ہیں۔ اسلام آباد کی بیوروکریسی کو حقائق کو محسوس کرنا چاہیے۔ ایچ ای سی کو اپنی پالیسی کو نرم کرنا چاہیے۔ وفاق اور صوبائی حکومتیں اس نئے نظام کے نفاذ کے لیے مربوط منصوبہ بندی کریں۔ اس منصوبہ کی کامیابی کے لیے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ ہونا ضروری ہے۔ نئے مضامین کا نفاذ بین الاقوامی معیارکا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے مگر نئے مضامین کی تدریس کے لیے سہولتوں کی فراہمی بھی انتہائی ضروری ہے۔