Herd Immunity کا نظریہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنالیا۔ اس نظریہ پر عملدرآمد ہوا تو کورونا وائرس 15کروڑ افراد کو متاثر کرے گا۔ لاک ڈاؤن میں نرمی سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، یوں یہ نظریہ عملی صورت اختیار کررہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نظریاتی طور پر لاک ڈاؤن کے خلاف ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن اشرافیہ کے مفاد میں ہے اور اس نے یہ فیصلہ کرایا ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں اور غریب مر جائیں۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ بازاروں اور مساجد میں لاک ڈاؤن کی نرمی کے دوران احتیاطی تدابیر ختم ہوتی جارہی ہیں تو اس کے منطقی نتیجہ میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ Herd Immunity کے نظریہ کا گذشتہ دنوں بین الاقوامی میڈیا میں چرچا ہوا اور اس نظریہ پر عملدرآمد کے لیے سویڈن کی مثال دی گئی۔
سویڈن میں حکومت نے لاک ڈاؤن کا اطلاق نہیں کیا مگر سویڈن کی حکومت نے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ Social Distancing پر مکمل طور پر عملدرآمد کریں اوربوڑھے لوگ گھروں سے نہ نکلیں۔ طبی سائنس میں یہ تصور اس وقت آیا تھا جب جانوروں کے ریوڑ کی قوت مدافعت ایک طبی اصطلاح اور طبی طریقہ علاج بن گیا۔ قدیم زمانہ میں وائرس سے متاثرہ افراد کو عوام میں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ پہلے لوگ وائرس سے ہلاک ہوتے تھے پھر لوگوں میں قوتِ مدافعت پیدا ہوجاتی تھی۔ اس طریقہ علاج میں بیمار اور بوڑھے افراد پہلے جاں بحق ہوتے تھے۔
جب ایک شخص کورونا وائرس کا شکار ہوتا ہے تو اس کے جسم میں موجود Anti-Body مزاحمت کرتی ہیں اور یوں Anti-Body کی بناء پر متاثرہ شخص کا جسم وائرس کو شکست دے دیتا ہے اور وہ صحت یاب ہو جاتا ہے اور اس کا جسم وائرس سے Immune یعنی ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ پھر جب اس پر دوبارہ کورونا وائرس حملہ کرتا ہے تو وہ متاثر نہیں ہوتا نہ دیگر افراد اس سے وائرس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس نظریہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر ملک کی 70 فیصد آبادی جو 15 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اس وائرس سے متاثر ہوتی ہے تو 30 فیصد آبادی محفوظ ہو سکتی ہے۔ مگر اس نظریہ کی بنیاد جس مفروضہ پر ہے وہ انتہائی کمزور ہے۔
عالمی ادارہ صحت W.H.O کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کے تجربات اس مفروضہ کی توثیق نہیں کرتے، یوں اس نظریہ پر عملدرآمد کے نتیجہ میں اگلے ماہ تک اموات کی شرح بڑھ جائے گی۔ نیشنل پارٹی کے رہنما اور سوشل سائنٹسٹ ایوب ملک کا کہنا ہے کہ سویڈن میں اموات کی شرح بڑھنے سے یہ نظریہ واپس لیا گیا۔ اگر اس نظریہ کا تجربہ پاکستان میں کیا گیا تو ابتدائی طور پر اتنی اموات ہونگی کہ یہ سماج اس کی تاب نہ لاسکے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نظریہ قرونِ وسطیٰ میں مکمل طور پر عملدرآمد ہوتا تو مؤرخ اسے سیاہ دورقرار دیتا۔ ایوب ملک کا کہنا ہے کہ جمہوری دور میں یہ نظریہ بنیادی حقوق کے صرحاً خلاف ہے۔ انفیکشن ڈیزیز کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم میں Anti-Body دو طرح سے ڈیولپ ہوتی ہیں۔
وائرس کے جسم میں جانے سے جسم کا مدافعتی نظام Anti-Body تیار کرتا ہے یوں Anti-Body وائرس کو شکست دیتی ہے، دوسرا طریقہ ادویات کے استعمال کا ہے۔ یوں وائرس کے خاتمہ کی دوا کو ویکسین کیا جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس نے سیکڑوں سال کی تحقیق کے بعد مختلف وائرس کے خاتمہ کے لیے مختلف نوعیت کی ویکسین تیار کی ہے اور ان ویکسین نے چیچک، ملیریا، فلو، ہیپاٹائٹس سی اور پولیو جیسے امراض کا خاتمہ کیا ہے۔ کورونا کی ویکسین کے بارے میں چین، یورپی ممالک اور امریکا میں تحقیق جاری ہے مگر ابھی ویکسین تیار نہیں ہوئی۔
حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک ہماری 2.2 فیصد آبادی وائرس سے متاثر ہوئی ہے مگر ہمارے ملک میں ٹیسٹ کرنے کا تناسب بین الاقوامی معیار سے کم ہے، یوں بعض ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی شرح زیادہ ہے۔ وزیر اعظم کے صحت کے مشیر ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ آبادی کے معمولی حصہ کا ٹیسٹ ہوا ہے۔ پاکستان صحت کی سہولتیں انتہائی کم ہیں۔ پاکستان کے اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے 21 ہزار بیڈ مختص کیے گئے ہیں۔ اس وقت 6661 مریض اسپتالوں میں داخل ہیں۔ ملک میں ہنگامی اقدامات کے نتیجہ میں اب وینٹی لیٹر کی تعداد 1400تک پہنچی ہے۔
عمومی طور پر جب رپورٹر تحقیق کرتے ہیں تو اسپتال انتظامیہ اقرار کرتی ہے کہ کئی وینٹی لیٹر کام کی حالت میں نہیں ہیں۔ پولیو، چیچک اور دیگر وائرس اور کورونا کے وائرس میں فرق یہ ہے کہ کورونا علاج کرنے والے ڈاکٹروں، نرسوں حتیٰ کہ اسپتال میں فرائض انجام دینے والے دیگر عملے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں اس وائرس کی بناء پر 10 کے قریب ڈاکٹر اور دیگر عملے کے اراکین شہید ہوچکے ہیں۔ مئی کے وسط تک چاروں صوبوں سے ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل عملے کے احتجاج کی صدائیں اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنی ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اب تک ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق Equipment (PPE) Personal Protection فراہم کرنے میں ناکام رہیں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شیر شاہ کاکہنا ہے کہ صورتحال اتنی خراب ہے کہ ڈاکٹر متاثر ہورہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کے کورونا سے متاثر ہونے کی شرح سے خوف پیدا ہورہا ہے کہ مریضوں کے علاج کے لیے ڈاکٹر دستیاب نہ ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت لاک ڈاؤن نافذ نہیں کرنا چاہتی تو قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیوں کے ذریعہ سماجی دوری کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ ڈاکٹر شیر شاہ کی تجویز ہے کہ حکومت عوام میں مفت ماسک تقسیم کرے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی سے اموات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
اگرچہ صوبوں نے نئے قوانین نافذ کیے ہیں مگر عوام میں تربیت نہ ہونے اور وفاقی حکومت کے کنفیوژ رویہ کی بناء پر ان قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے وزراء بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اگر ان قواعد و ضوابط پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو مکمل لاک ڈاؤن کرنا ہوگا۔ دنیا میں صرف امریکا کے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کی خامیاں بیان کیں۔ صدر ٹرمپ تو انسانوں سے نفرت کے فلسفہ کے امین ہیں مگر وزیر اعظم عمران خان نے کس بناء پر ٹرمپ ڈاکٹرائن کو اپنایا یہ ایک طویل بحث کا مسئلہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان پہلے لاک ڈاؤن اور کرفیو کے درمیان فرق کے بارے میں کنفیوژن کا شکار رہے۔ پھر انھوں نے لاک ڈاؤن کو اشرافیہ کی سازش قرار دیا مگر ان کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے اجلاسوں میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کا فیصلہ ہوا مگر وفاقی وزراء بیک وقت متضاد بیانات دیتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ایک کنفیوژن پیدا ہوئی۔ وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن کو عملی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کرہی لیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور ہوائی جہاز سب کھل گئے، ریل بھی چلنے لگے گی۔ بازاروں میں عید کی خریداری بھی عروج پر پہنچ گئی مگر گذشتہ ہفتہ کے اختتام تک مریضوں کی تعدا د 39000 سے زائد ہوگئی اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 866 کو بھی تجاوز کرگئی۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جون میں مریضوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ ڈاکٹر ظفر مرزا اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ کابینہ میں Herd Immunity کے نظریہ پر عملدرآمد پر سوچ بچار ہوا ہے مگر حکومت کے موجودہ فیصلوں اور وزیر اعظم کے خیالات کے جائزہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت Herd Immunity کے نظریہ پر عمل کرنے کی خواہاں ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ المیہ ہوگا۔