کلبھوشن کے معاملہ پرحکومت اور حزب اختلاف کے درمیان گزشتہ دنوں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ توقع ہے کہ یہ جنگ مزید جاری رہے گی۔ بلاول بھٹو زرداری اور خواجہ آصف نے کلبھوشن کو این آر او دینے کا الزام لگایا۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنی زوردارتقریر میں الزام لگایا کہ کلبھوشن کا مقدمہ مسلم لیگ ن کی حکومت عالمی عدالت میں لے گئی۔
ڈاکٹر فروغ نسیم ایوان صدر میں تیسری بار وزیر قانون کا حلف اٹھاکر فوری طور پر پارلیمنٹ ہاؤس آئے۔ انھوں نے اپنی ولولہ انگیز تقریر میں کچھ حقائق بیان کیے جس کی بناء پر بین الاقوامی عدالت انصاف نے کلبھوشن کو قونصلر رسائی کا فیصلہ دیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ذاتی طور پرکبھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر مودی کا یار ہونے کا الزام نہیں لگایا تھا۔
ڈاکٹر فروغ نسیم کا استدلال تھا کہ اگرکلبھوشن کو قونصلر تک رسائی اور عدالت میں دفاع کے حق کے لیے آرڈیننس جاری نہیں کیا جاتا، تو پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلہ کا منکر سمجھا جاتا۔ بھارت سلامتی کونسل میں پاکستان کے خلاف پابندیاں عائد کرا دیتا، یوں تحریک انصاف کی حکومت نے اس فیصلہ کے ذریعہ بھارت کے ہاتھ کاٹ دئیے۔ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا افسر ہے، وہ بلوچستان کے کسی علاقہ میں جعلی ایرانی پاسپورٹ لے کر مقیم تھا۔ 3 مار چ 2016 کوگرفتار ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ کلبھوشن ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے پاکستانی علاقہ میں داخل ہوا تھا۔ جب ایران کے صدر اسلام آباد کے دورہ پر تھے تو راولپنڈی سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں کلبھوشن کی گرفتاری کا اعلان کیا گیا۔ کلبھوشن کو خصوصی فوجی عدالت نے سزائے موت دی۔
غیر ملکی جاسوس اور غیر ملکی شہریوں کی گرفتاری کے بارے میں ویانا کنونشن کی دفعات پر عملدرآمد سب کو کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت انسانی حقوق کی تحریک کی رہنما عاصمہ جہانگیر نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان جنیوا کنونشن کا پابند ہے اور پاکستان کو اس کوشش پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ بھارت نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائرکیا۔ بھارت کا تو مطالبہ تھا کہ کلبھوشن غیر قانونی حراست میں ہے، اس کو رہا کیا جائے۔
عالمی عدالت نے طویل سماعت کے بعد بھارت کے کلبھوشن کی رہائی کے موقف کو تو مسترد کردیا مگر حکومت پاکستان کو حکم دیا کہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی جائے، اس کو عدالت میں اپیل کا حق دیا جائے اور اپنے دفاع کے لیے وکیل مہیا کیا جائے۔ عالمی عدالت نے اپنے فیصلہ میں پاکستانی عدالتوں پر اعتماد کا اظہارکیا تھا اور پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کو مثال کے طور پر پیش کیا تھا۔ پاکستان کی سیاست کا بغورجائزہ لیا جائے تو کچھ حقائق میں ہمیشہ مماثلت نظر آتی ہے۔ برسراقتدار حکومت بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے مگر حزب اختلاف شدومد سے حکومت کی اس پالیسی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہے اور پھر جب حزب اختلاف والے اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی پالیسی تبدیل ہوجاتی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دوسرے دورحکومت میں بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کو لاہور مدعو کیا۔ واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے اور مینار پاکستان پر حاضری دی۔ جب جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی اور وہ واجپائی سے ملنے کے لیے آگرہ گئے تو حزب اختلاف کی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی وغیرہ نے مخالفت شروع کردی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے حکومت کی مخالفت کر دی۔
جب میاں نوازشریف تیسری بار برسر اقتدار آئے اور انھوں نے وزیر اعظم مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی اور پھر مودی ان کی نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور آئے تو تحریک انصاف نے بہت زیادہ اور پیپلز پارٹی والوں نے کبھی زوردار اورکبھی مدہم آوازوں میں میاں نواز شریف کو مودی کا یار کہنا شروع کیا۔ تحریک انصاف کی صرف مرکزی قیادت نے ہی نہیں بلکہ صوبائی قیادت سے لے کر نچلی سطح تک کے رہنماؤں نے نواز شریف کو مودی کا یار قرار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یوں ایک جذباتی فضاء قائم کی گئی۔
انتخابی نتائج کا مطالعہ کرنے والے بعض اسکالرزکا کہنا ہے کہ اس نعرہ سے پنجاب کی رائے عامہ متاثر ہوئی۔ جاسوسی کا معاملہ خاصا قدیم ہے۔ ایک زمانہ میں صرف دشمن ملک میں معلومات کے لیے جاسوس بھیجے جاتے تھے۔ اب جدید دور میں دوست ممالک کی جاسوسی کا کلچر بھی خاصا مضبوط ہے۔ اب صرف دفاعی امور سے متعلق معلومات جمع نہیں کی جاتیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ، تعلیم، صحت، صنعت، زراعت اور سیاسی جماعتوں سے متعلق جاسوسی کی جاتی ہے۔ چند سال قبل ایک یورپی شہری اسانج جوکمپیوٹرکا ماہر ہے نے کسی طرح امریکی وزارت خارجہ State Department کے خفیہ کیمروں کے خفیہ نظام تک رسائی حاصل کی اور دنیا وکی لیکس کی اصطلاح سے واقف ہوئی۔ وکی لیکس کی دستاویزات جب ذرائع ابلاغ کے ہاتھ لگیں تو پتہ چلا کہ امریکا، چین اور روس کی ہی جاسوسی نہیں کرتا بلکہ یورپی اتحادی ممالک تک کی جاسوسی کی جاتی ہے۔
وکی لیکس کی ایک رپورٹ کی اشاعت کے بعد جرمنی کی چانسلر نے سخت غصہ کا اظہارکیا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ امریکا اور جرمنی کے تعلقات بگڑ جائیں گے، مگر جرمنی نے ڈپلومیسی کے اصول کے تحت اس معاملہ کو داخل دفترکیا۔ یہی رویہ یورپی ممالک کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے اپنایا۔ امریکا اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی دوڑ جاری ہے۔ چین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی صنعت نے امریکی صنعت کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔
دونوں ممالک کی کمپنیوں کے جاسوس نئی معلومات کی جستجو میں رہتے ہیں مگر کبھی کسی جاسوس کی گرفتاری پر زیادہ شوروغوغا نہیں ہوتا۔ امریکا اور چین وغیرہ نے جاسوسی کرنے پر اپنے شہریوں کے علاوہ غیر ملکی شہریوں کو طویل مدت کی سزائیں دی ہیں اور ان ممالک کی جیلوں میں بہت سے جاسوس اپنی سزا کاٹ رہے ہیں، مگر جدید ڈپلومیسی کے دور میں اب جاسوس کی گرفتاری کو نہ تو جذباتی انداز میں دیکھا جاتا ہے اور اس کو قومی مسئلہ بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے کلبھوشن کی گرفتاری کو جذباتی مسئلہ بنایا اور اس معاملہ کو میاں نواز شریف کو بھارتی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا، مگر تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم قومی اسمبلی میں بلند آواز میں کہہ رہے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جو میاں نواز شریف کو مودی کا یار کہتے تھے۔ ایک اور وفاقی وزیر نے واضح طور پرکہا کہ زرداری، نوازشریف اور عمران خان میں سے کوئی غدار نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے دو اہم اقدامات کیے ہیں۔ سکھوں کی مذہبی یادگارکے لیے راہداری کھول دی، افغانستان کو اپنا سامان بھارت بھیجنے کے لیے پاکستانی سرحد بھی کھول دی گئی ہے۔ اب افغان ٹرک واہگہ کے راستہ سامان لے کر دہلی جا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کلبھوشن یادوکے معاملہ پر تحریک انصاف کی حکومت کا مؤقف بالکل درست ہے۔ پاکستان بین الاقوامی کنونشنز پر عملدرآمد کا پابند ہے۔ پاکستان اب بھی ایشیا اور مشرق بعید کی مالیاتی ٹاسک فورس کے فیصلہ کے تحت گرے لسٹ میں شامل ہے، اگر حکومت کلبھوشن کے معاملے میں کوئی جذباتی فیصلہ کرتی تو پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بڑا نقصان ہوتا مگر تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کو محسوس کرنا چاہیے کہ خارجہ امورکے معاملات کو جذباتی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے نہ ان معاملات کی بناء پر مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ موجودہ حکومت کی طرح یو ٹرن لینا پڑے گا اورخفت اٹھانی پڑے گی۔