ایف آئی اے نے ذوالفقار علی بھٹو کو قصوری قتل کیس میں گرفتار کیا مگر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس حمدانی نے انھیں ضمانت پر رہا کردیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے پانچ رکنی بنچ قائم کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت منسوخ کردی۔ بھارت اور پاکستان کے قانون کے تحت قتل کے مقدمہ کی سماعت سیشن عدالت میں ہوتی ہے مگر جسٹس مشتاق نے خود اس مقدمہ کی سماعت کا فیصلہ کیا تو ملزمان کو ہائی کورٹ میں اپیل کے حق سے محروم کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک درخواست دائر کی کہ ان کی حکومت نے کیونکہ مولوی مشتاق کو چیف جسٹس مقرر نہیں کیا تھا اور وہ اس فیصلہ سے ناراض تھے، یوں ان سے غیر جانبداری کی امید نہیں ہے۔
اس بناء پر انصاف کے اصول کے تحت مولوی مشتاق حسین اس بنچ سے علیحدہ ہوجائیں مگر مولوی مشتاق نے یہ عرضداشت مسترد کردی۔ ایف آئی اے نے وزیر اعظم کے سیکیورٹی ایڈوائزر مسعود محمود، فیڈرل سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں رانا افتخار احمد، ارشد اقبال، صوفی غلام مصطفی، میاں محمد عباس کو وعدہ معاف گواہ بنالیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک سینئر وکیل حیات جونیجو کو اپنا وکیل نامزد کیا مگر فوجی حکومت کے دباؤ پر انھوں نے معذرت کرلی۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا۔ بھٹو کے لیے عدالت میں ایک لوہے کا جال بنایا گیا۔ ایک سینئر وکیل اور مغربی جرمنی کے سفارت خانہ کے قانونی مشیر اے جی چوہدری کا کہنا ہے کہ بھٹو کے مقدمہ کے دوران ایک جرمن سفارتکار نے خواہش ظاہر کی کہ وہ جسٹس مولوی مشتاق سے ملنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جسٹس مشتاق فوری طور پر ملاقات کے لیے تیار ہوگئے۔ انھوں نے جرمن سفارتکار کی سینڈوچ اور پیسٹری وغیرہ سے ضیافت کرنے کی کوشش کی۔ اس سفارتکار نے سوال کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی غیر جانبداری کو چیلنج کیا ہے، اس صورت میں کیا وہ اس مقدمہ کی سماعت کے اہل ہیں؟ جسٹس مشتاق نے فوری طور پر جواب دیا "میرے علاوہ کوئی اور جج اس کو ہینڈل نہیں کرسکتا۔" جسٹس مشتاق نے مزید فرمایا کہ اس شخص نے ایف آئی اے کے ذریعہ قتل کرایا ہے۔
پھر لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو موت کی سزا دی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 18مارچ 1978 کو سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ کی فل بنچ جسٹس انور الحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس جی صفدر شاہ، جسٹس قیصر، ایکٹنگ جج جسٹس کرم الٰہی چوہان اور ایڈھاک ججوں جسٹس وحید الدین اور جسٹس نسیم حسن شاہ پر مشتمل تھی۔ سماعت کے موقعے پر جسٹس محمد قیصر کی ریٹائر منٹ کی تاریخ آگئی۔ آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت انصاف کے وسیع مفاد میں کسی اہم مقدمہ کی سماعت کے دوران ریٹائر ہونے والے جج کی معیاد میں مقدمہ کے مکمل ہونے تک توسیع کردی جاتی ہے۔ جسٹس انوار الحق نے جسٹس قیصرکی ملازمت میں توسیع کے لیے صدر پاکستان سے درخواست نہیں کی۔ سینئر وکیل افضل حیدر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انوا ر الحق اپنے برادر ججوں کے خیالات سے بخوبی واقف تھے۔ اس بناء پر انھوں نے اپنا استحقاق استعمال نہیں کیا۔
مقدمہ کی سماعت کے دوران جسٹس وحید الدین احمد بیمار ہوگئے۔ مقدمہ کی سماعت کچھ دنوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔ جسٹس وحید الدین نے چیف جسٹس کو خط تحریر کیا کہ وہ چھ ہفتہ تک واپس نہیں آسکتے۔ عدالت نے میڈیکل رپورٹوں کی بناء پر جسٹس وحید الدین کو بنچ سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بیرسٹر یحییٰ بختیار کا کہنا ہے کہ انوار الحق جسٹس وحید کے خیالات سے خوفزدہ تھے۔ جسٹس قیصر اور جسٹس وحید نے ججوں کے سامنے واضح طور پر کہا تھا کہ بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ نہیں بنتا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک عرضداشت میں جسٹس انوار الحق سے کہا کہ ان کی حکومت نے ان کی جگہ جسٹس محمد یعقوب کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، یوں وہ اس فیصلے سے ناراض ہوئے ہیں۔ پھر بھٹو نے اس عرضداشت میں مزید لکھا کہ جسٹس انوار الحق نے نصرت بھٹو کی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نافذ کرنے کو آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر عرضداشت مسترد کیا ہے، یوں وہ غیرجانبداری نہیں رہے۔
اس صورتحال میں انھیں بنچ سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ مگر جسٹس انوار الحق نے اس عرضداشت کو مسترد کردیا۔ سپریم کورٹ کی فل بنچ کے رکن جسٹس اکرم نے یہ فیصلہ لکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔ جسٹس انوار الحق، جسٹس اکرام الٰہی چوہان، جسٹس نسیم حسن شاہ نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا۔ مسٹر جسٹس دوراب پٹیل نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو مسترد کرنے اور بھٹوکو رہاکرنے کا فیصلہ تحریر کیا۔ جسٹس محمد حلیم اور جسٹس جی صفدر شاہ نے ان سے اتفاق کیا۔ یحییٰ بختیار نے ریویو پٹیشن دائر کی مگر اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ میں چار دن تک تقریر کی۔
انھوں نے روزانہ 3گھنٹے تک دلائل دیے۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی سازش کا شکار ہوئے ہیں اور انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1978 ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈ ی میں پھانسی دیدی گئی۔ بھٹو کی میت کو C-130 میں رات گئے لاڑکانہ بھیج دیا گیا۔ ان کی اہلیہ، بیٹی اور قریبی رشتے داروں کو بھٹو صاحب کے دیدار سے محروم کیا گیا۔ سینئر وکیل عابد حسن منٹو نے لکھا ہے کہ انھیں ایک رات بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار اور ڈی ایم اعوان کا پیغام ملا کہ بھٹو کے خلاف دو وعدہ معاف گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے ہیں۔ یہ افراد اپنے وکیل کی جگہ انھیں وکیل مقرر کرنا چاہتے ہیں۔
ان گواہوں کے قریبی رشتے دار دوسرے دن راولپنڈی پہنچیں گے۔ آپ علی الصبح راولپنڈی جانے کے لیے ٹیلی فون کا انتظار کریں۔ میں تیار ہوگیا مگر مجھے علم تھا کہ بھٹو کے وکلاء کی نگرانی ہورہی ہے اور خود ان کا ٹیلی فون ٹیپ ہورہا ہے۔ میں نے اپنے خدشات سے یحییٰ بختیار اور اعوان کو آگاہ کیا مگر انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی مگر دوسرے دن پیغام نہیں آیا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ان گواہوں کے قریبی رشتے دار کو جو راولپنڈی جارہا تھا فیصل آباد بس اسٹینڈ پر سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔ امریکا کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک اس مقدمہ کی سماعت کو دیکھنے کے لیے پاکستان آئے اور کئی دن سپریم کورٹ میں گزارے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹو کے خلاف شہادتیں انھیں مجرم قرار دینے کے لیے ناکافی تھیں۔ سینئر وکیل ایس ایم ظفر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھٹو کے مقدمہ میں بنیادی قانون سے انحراف کیا گیا۔ قانون کے تحت وعدہ معاف گواہوں کے بیانات کی اس وقت تک اہمیت نہیں ہوتی جب تک آزاد شہادتیں ان کے بیان کی توثیق نہیں کرتیں۔
سینئرصحافی سعید حسن خان کی فرانس کے انسانی حقوق کے وکیل رابرٹ بیڈینٹ سے پیرس میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اس ملاقات میں سعید حسن خان کو بتایا کہ وہ بھٹو کیس کی سماعت دیکھنے کے لیے اسلام آباد گئے تھے۔ انھوں نے قائم مقام چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ چیف جسٹس نے ملاقات میں فوراً ہی کہا کہ بھٹو نے قصوری کے علاوہ اور بھی قتل کرائے ہیں۔ فرانسیسی وکیل سماعت کے دوران جسٹس انوار الحق کے ان ریمارکس سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ بھٹو کو سزا دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک ترقی پسند جج کا کہنا ہے کہ بھٹو کی پھانسی کے مقدمہ کا فیصلہ اتنا برا ہے کہ کوئی وکیل اس مقدمہ کو بطور نظیر پیش نہیں کرتا۔ اس فیصلہ کو تاریخ میں "عدالتی قتل" کا نام دیا گیا ہے۔