پاکستان میں گزشتہ سال بھی انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ جاری رہا، مظلوم طبقات کے حالات مزید ابتر ہوگئے۔ انسانی حقوق کی تنظیم انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) گزشتہ 33 برسوں سے ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کو دستاویزی شکل دیتی ہے اور ان واقعات کے تدارک کے لیے مہم چلاتی ہے۔
ایچ آر سی پی نے گزشتہ سال انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019ء ملک میں منظم طریقہ سے سیاسی اختلافات کو دبانے کے لحاظ سے یاد رکھا جائے گا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست بچوں، خواتین، غیر مسلم پاکستانی شہریوں، مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں درج انسانی حقوق مثلاً آزادئ اظہار، آزادئ صحافت، عقیدہ کی آزادی، تنظیم سازی کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنا نہیں پائی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئین کی بنیادی شقوں پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں آئین کے آرٹیکل 140-A پر مکمل طور پر عملدرآمد میں ناکام رہیں۔ پنجاب، خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہونے کے باوجود نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ اسی طرح پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی قانون سازی کے تناظر میں کارکردگی بہت زیادہ بہتر نہیں رہی۔ پارلیمنٹ نے پورے سال 107 قوانین کی منظوری دی۔ مجموعی طور پر 107 قوانین منظور ہوئے، یوں منتخب ادارے قانون سازی کا بنیادی فریضہ انجام دینے میں سست روی کا شکار رہے۔
ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں بچوں کے حالات زار پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ملک بھر سے جمع کیے گئے اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ سال بچوں سے جنسی زیادتی کے 2 ہزار 864 واقعات ہوئے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شہروں اور دیہاتوں میں بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات کا تدارک نہ ہوسکا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو تھانوں تک پہنچے اور پولیس اہلکار، ان واقعات کی ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے، کمسن بچوں سے کام لینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چائلڈ لیبر جس میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے ابتدائی عمروں میں ہی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ چائلڈ لیبر کا مسئلہ شہروں اور دیہاتوں دونوں جگہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے سنجیدگی سے پالیسی نہیں بنائی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ سال غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں پنجاب میں ہوئیں مگر باقی صوبے بھی اس معاملہ میں پیچھے نہیں رہے۔ ان خواتین کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے حق، ملازمتوں میں امتیازی رویہ برقرار رہا۔ اب بھی لاکھوں والدین لڑکوں کو تعلیم دلوانے اور لڑکی کو باورچی خانہ میں کام کرنے کے فلسفہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح روزگار کے معاملہ میں خواتین کے ساتھ تعصب کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ سال بھی بہت سے شعبوں میں خواتین ملازمتوں کی اہل قرار نہیں پائیں یا قانون میں خواتین کو اہل قرار دینے کے باوجود عملی طور پر انھیں روزگار سے محروم رکھا گیا۔ اس رپورٹ میں ایک اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ خواتین کے تحفظ کے لیے ملک میں قوانین نافذ ہیں مگر حکومتیں ان قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں ناکام ہیں۔
گزشتہ سال خواتین کا عالمی دن 8 مارچ کو منایا گیا۔ اگرچہ خواتین مارچ کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رہا اور خواتین مارچ کو منظم کرنے والی خواتین کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر پورے ملک میں خواتین نے عالمی دن پر جلسے جلوس کیے، یوں آگہی کا عمل تیز ہوا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے باوجود جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی بھرے رہے۔ جیلوں میں زیر حراست قیدیوں کی اکثریت ان ملزمان پر مشتمل ہے جن کے مقدمات برسوں سے زیر سماعت ہیں۔
انسانی حقوق کی رپورٹ کو مرتب کرنے والے کارکنوں نے اعداد و شمار کے شماریاتی تجزیہ کے ذریعہ بتایا ہے کہ جیلوں کی گنجائش سے 133.8 فیصد زیادہ قیدی جیلوں میں بند ہیں اور زیر سماعت قیدیوں کا تناسب 62.1 فیصد ہے۔ جیلوں کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ جیلوں کی بیرکوں میں غیر انسانی ماحول (Unhygienic) سے بیشتر قیدی ایچ آئی وی / ایڈز، ٹی بی اور جلدی بیماریوں کے علاوہ دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کے لیے طبی سہولتیں کم ہیں۔ اس طرح صرف پنجاب میں سزائے موت پانے والے 188 قیدی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
گزشتہ سال تنازعات سے متعلق ہلاکتوں کی تعداد میں خاصی حد تک کمی آئی ہے۔ شماریاتی تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018ء میں 2، 333 افراد ان تنازعات میں جاں بحق ہوئے تھے مگر اس سال 1، 444 افراد کی ان تنازعات میں جانیں گئیں۔ اسی طرح عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد کم نہ ہوسکی۔ اب بھی 18 لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ 2018ء میں یہ تعداد 19 لاکھ تھی۔
ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق کا استدلال ہے کہ گزشتہ سال ایک باقاعدہ منظم طریقہ سے سیاسی منحرفین کی زندگیوں کو تنگ کیا گیا اور آزادئ صحافت پر نظر نہ آنے والی پابندیاں عائد رہیں۔ کئی صحافیوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انھیں حکومت پر تنقیدی رپورٹوں کو مرتب کرانے، شایع اور نشر کرنے میں مختلف نوعیت کی پابندیوں کا سامنا رہا۔ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے معاملہ کو ختم کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور انسانی حقوق کی ڈاکٹر شیریں مزاری جبری گمشدگی کے خلاف قانون سازی کا عزم کرتی ہیں مگر گزشتہ سال بھی سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔
انسانی حقوق کمیشن کی ڈائریکٹر فرح ضیاء نے اپنے مشاہدہ میں کہا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں سیاسی تنازعات موجود ہیں مگر ان تنازعات کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ غیر مسلم شہریوں کے عدم تحفظ کوختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آئے۔ غیر مسلم نوجوان خواتین کی زبردستی مذہب کی تبدیلی، ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کا سلسلہ گزشتہ سال جاری رہا۔ اسی طرح ان مذہبی اقلیتوں کو بھی ملازمتوں کے حقوق میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ایچ آر سی پی ہر سال انسانی حقوق کی پامالی کے حوالہ سے سالانہ رپورٹ جاری کرتی ہے۔
انسانی حقوق کی وزارت نے اس رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں حکومت کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کو شامل نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی وزارت کا مؤقف ہے کہ حکومت نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے نہ صرف قوانین تیار کیے ہیں بلکہ انتظامی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ وزارت کے ہینڈ آؤٹ میں زینب الرٹ بل جوابدہی اور برآمدگی ایکٹ 202 (Zainab Alert Response and recovery act) بچوں کے ساتھ جنسی ہراسگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے نیشنل ایکشن پروگرام بنایا گیا۔
انسانی حقوق کی وزارت نے اپنے بیانیہ میں تسلیم کیا ہے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایچ آر سی پی کی یہ رپورٹ صرف برسر اقتدار حکومتوں کے لیے ہی انتباہ نہیں ہے بلکہ ریاست کے دیگر اداروں کے لیے بھی چیلنج ہے۔ پارلیمنٹ اور مختلف صوبائی اسمبلیوں میں اس رپورٹ پر تفصیلی بحث ہو تو بہت سے نئے پہلو آشکار ہونگے، جب تک انسانی حقوق پامال ہوتے رہیں گے آبادی کی اکثریت اور ریاست کے درمیان فاصلے برقرار رہیں گے جس کا نتیجہ ترقی کی دوڑ میں سست روی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلے گا۔