پاکستان کی سب سے بڑی رفاہی تنظیم ایدھی ٹرسٹ کے سربراہ فیصل ایدھی وفاقی حکومت کے رویہ سے مایوس ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک وڈیو میں شکوہ کیا ہے کہ حکومت کو اگر ہم پر بھروسہ نہیں تو لکھ کر دے دیں، ہم خاموش ہو جائیں گے۔ انھوں نے اپنی مایوسی کا اظہار اس صورتحال کی بناء پر کیا ہے کہ ایدھی ٹرسٹ نے 40 ہزار کورونا وائرس کی ٹیسٹ کٹس چین سے خریدی ہیں مگر پروازیں بند ہونے کی بناء پر یہ کٹس پاکستان نہیں آسکی ہیں۔
ملک میں کورونا کے بڑھتے ہوئے مریضوں کی بناء پر ٹیسٹ کٹس کی شدید کمی ہے، اگر وفاقی حکومت خصوصی اجازت نامہ کے ذریعہ جہاز کی پرواز کی اجازت دیدے تو یہ ٹیسٹ کٹس پاکستان آسکتی ہیں۔ فیصل نے مزید کہا کہ 10 جدید ایمبولینس دبئی میں پھنسی ہوئی ہیں اور ایک کراچی کی بندرگاہ پر سڑرہی ہے۔ محکمہ کسٹم ایمبولینس کو کمرشل آئٹم سمجھتا ہے۔ کسٹم حکام نے ان ایمبولینس پر لاکھوں روپے ٹیکس عائد کردیا ہے۔
ایدھی اور دیگر رفاہی تنظیمیں عوام کے عطیات سے انسانیت کی خدمت کررہی ہیں۔ حکومت ایمبولینس کو کمرشل قرار دے کر ٹیکس وصول کرنا چاہتی ہے۔ یہ شاید جدید دنیا کی اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہوگی۔ فیصل کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ کورونا ٹیسٹ کی سہولت مفت فراہم کرنا چاہتا ہے اور سیفٹی ماسک بھی غریبوں میں تقسیم کرنے کا خواہاں ہے مگر حکومت آڑے آگئی ہے۔
لندن سے شایع ہونے والی طبعی سائنس کے جنرل Lanecet Public Health میں شایع ہونے والی ایک تحقیق کا خلاصہ کچھ یہ ہے کہ چین کی حکومت نے کورونا سے متاثر ہونے والے شہر ووہان میں اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور کارخانے بند کرکے اور ووہان کے لاکھوں افراد کو کئی مہینے لاک ڈاؤن کرنے کی تکنیک کو استعمال کر کے نہ صرف چین میں کوروناکے دوسرے حملے کو روک دیا بلکہ پوری دنیا کو اس خطرناک وائرس سے ہونے والے نقصان سے بچالیا۔
جنرل کی اس تحقیق میں چین کی حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پالیسی پر اپریل تک عملدرآمد کیا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن پر تمام ممالک کو عمل کرنا چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے سربراہ Adhanom Ghebreyesus نے بھی اس طبعی جنرل کی رپورٹ کی توثیق کی ہے مگر وفاقی حکومت اور بعض مذہبی عناصر سائنس کی اس حکمت عملی کو محسوس نہیں کرسکے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے کورونا وائرس کے مسئلہ کو بہت عرصہ تک محسوس ہی نہیں کیا۔ بھارت کے مسلمان زائرین بھی بھاری تعداد میں ایران جاتے ہیں۔ جب وہاں کورونا وائرس پھیلا اور اس کی اطلاع بھارتی حکومت کو ملی تو بھارت کی حکومت نے ایران سے مذاکرات کیے اور ایرانی حکومت کو تیار کرلیا کہ بھارتی زائرین کو ایران میں قرنطینہ میں رکھا جائے اور جب ان کے ٹیسٹ منفی آئیں تو انھیں ملک میں لایا جائے۔
ہماری وفاقی حکومت نے چین میں موجود پاکستان کے شہریوں کے لیے یہی حکمت عملی اپنائی مگر ایران کی حکومت سے مذاکرات نہیں کیے تاکہ پاکستانی زائرین ایران میں قرنطینہ میں بند رہیں اور صحت مند ہو کر ملک آئیں۔ پنجاب کی تحریک انصاف کی حکومت نے رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کی اجازت دی۔ رائیونڈ کے اجتماع میں شرکت کرنے والے بعض افراد کوروناسے متاثر ہوئے۔ معاملہ صرف ملک میں کورونا کے پھیلاؤ تک محدود نہ رہا بلکہ غیر ملکی مندوبین کے اپنے اپنے ملک جاتے ہی ان ممالک میں بھی خطرہ پیدا ہوا۔
وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاؤن کو غریبوں کے لیے خطرناک قرار دیتے رہے۔ پہلے لاک ڈاؤن اور کرفیو کے فرق کے معاملے میں کنفیوژ رہے، یوں وفاق کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کرنے میں دیر کی۔ ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید ہمیشہ مخالفین پر رکیک حملوں میں وقت گزارتے ہیں۔ انھوں نے ریلوے کے نظام کو معطل کرنے پر توجہ نہیں دی۔ وزارت ریلوے نے عجیب حکمت عملی اختیار کی۔ پہلے کچھ ریل گاڑیاں بند کردیں، یوں پورے ملک کے ریلوے اسٹیشنز پر ہزاروں لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔
یوں سماجی دوری کا مسئلہ کہیں کھو گیا۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں اجتماعی عبادت کے معاملے کی سنجیدگی کو محسوس نہیں کیا گیا۔ صدر عارف علوی نے سنجیدہ کوشش کی اور دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ الازہر سے فتویٰ حاصل کیا اور علماء سے آن لائن مشاورت کی مگر ملک کے کچھ علماء نے تو جامعہ الازہر کے فتویٰ کو قبول کیا مگر کچھ نے اس فتویٰ کو ماننے سے انکار کیا۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے بھی مہبم پالیسی اختیار کی۔ یہ کیسی عجب صورتحال ہے کہ جماعت اسلامی نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، معروف عالم جاوید احمد غامدی اور مولانا تقی عثمانی نے اپنے بیانات میں واضح کیا کہ تمام مسلمانوں کو حکومت کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اپنے گھر میں ظہر کی نماز ادا کی۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے الزام لگایا ہے کہ کورونا وائرس مذہبی حلقوں کے رجعت پسندانہ رویہ کی بناء پر پھیلا ہے۔ فواد چوہدری کا استدلال ہے کہ یہ ہمیں کہتے ہیں کہ اﷲ کا عذاب ہے، یہ توجہ کریں، اﷲ کا عذاب جہالت ہے۔ علماء جو علم اور عقل رکھتے ہیں اﷲ کی نعمت ہے، ان کی قدر کریں۔ لیکن جاہلوں کو عالم کا درجہ دینا جہالت ہے۔
فواد چوہدری کا بیان ہمارے معاشرہ کی زبوں حالی کی نشاندہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیماریاں اور وبا اور آفات لاکھوں برسوں سے ہیں اور انسان نے سائنس کی مدد سے ان آفات کا مقابلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال میں پید ا ہونے والے بہت سے امراض ختم ہوگئے اور جو نئے امراض پیدا ہورہے ہیں ان کا تدارک بھی سائنس کے اصولوں پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔