کورونا وائرس کا طوفان بہت کچھ آشکار کررہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں غریبوں کی مدد کر رہی ہیں۔ غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں لوگوں کو کھانا فراہم کرنے، نقد امداد دینے اور اس ضمن میں دیگر اہم کام انجام دے رہی ہیں مگر سیاسی جماعتوں میں صرف جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت وسیع پیمانہ پر امدادی کاموں میں حصہ لے رہی ہے مگر خوشگوار تبدیلی یہ ہے کہ جماعت اسلامی صرف مسلمانوں کی ہی مدد نہیں کررہی بلکہ غیر مسلم شہریوں کو بھی امداد فراہم کررہی ہے۔
الخدمت کے رضاکاروں نے کورونا وائرس کے خاتمہ کے لیے مساجد کے علاوہ چرچ، مندروں اور گردواروں میں بھی جا کر جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے فعال کارکن اس مشکل صورتحال میں کسی قسم کی مذہبی، لسانی اور ذات پات کی تفریق کو خاطر میں نہیں لارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے متحرک رہنما حافظ نعیم الرحمن اپنے ساتھیوں کے ساتھ غریب عیسائیوں کی بستی عیسی نگر پہنچ گئے۔ انھوں نے چرچ میں پاسٹر کرنل اﷲ دتہ اور پاسٹر سجاد سے ملاقات کی اور غذائی اجناس ان کے حوالہ کیں۔
الخدمت کے کارکنوں نے عیسیٰ نگری کی گلیوں میں بڑی تعداد میں اسپرے کیا۔ عیسیٰ نگری میں 31 کے قریب چھوٹے چھوٹے چرچ ہیں۔ الخدمت کے رضاکاروں نے چرچ میں جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا اور حافظ نعیم الرحمن ہولی فیملی اسپتال پہنچ گئے اور ڈاکٹروں اور طبی عملے میں حفاظتی سامان تقسیم کیا۔ جماعت اسلامی والے کراچی میں مختلف مقامات پر سستی روٹی کے تندور قائم کررہے ہیں۔ ان تندوروں میں بلا کسی امتیاز کے ہر شخص کو سستی روٹی فراہم کی جائے گی۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے صرف غیر مسلم شہریوں کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے اقدامات نہیں کیے بلکہ صنعتی اداروں سے بے روزگار کیے جانے والے مزدوروں کی بحالی کے لیے بھی تحریک شروع کردی ہے۔ یہ مزدور کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی ان مزدوروں کی بحالی کے لیے تحریک چلانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
الخدمت کی پالیسی میں ایک اور تبدیلی نظر آئی کہ اس کے رضاکاروں نے ایم کیو ایم کے رہنما میئر کراچی وسیم اخترکو عباسی شہید اسپتال مدعو کیاتاکہ میئر کراچی ڈاکٹروں اور طبی عملے میں حفاظتی سامان تقسیم کریں۔ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کی مخالف تنظیمیں ہیں۔ جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم کا میئر کراچی کو تقریب میں مدعو کرنے کا فیصلہ رواداری اور جمہوری کلچر کو تقویت دے رہا ہے۔
پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی میں مذہبی رواداری اور غیرمسلم پاکستانیوں سے خوشگوار تعلقات کی تحریک خاصی پرانی ہے۔ جب قاضی حسین احمد امیر تھے تو وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں کراچی آئے۔ اس دوران 25 دسمبر کو کرسمس کا تہوار آگیا تھا اور 25 دسمبر ہی کو 27ویں شب تھی۔ جماعت اسلامی کے عمائدین نے 27ویں شب کو خصوصی عبادات اور دعا کا اہتمام کیا تھا مگر قاضی صاحب اور اس وقت کے جماعت اسلامی کے شعبہ نشرو اشاعت کے سربراہ سرفراز احمد کے ہمراہ گورنر ہاؤس کے سامنے ہولی ٹرینٹی کیتھیڈرل چرچ گئے اور پادری کو کیک پیش کیا گیا۔
سرفراز صاحب کہتے ہیں کہ قاضی حسین احمد تمام فرقوں کی مساجد میں نماز اطمینان سے ادا کیا کرتے تھے۔ اسی زمانہ میں بھارت کے شہریوں کا ایک وفد معروف صحافی کلدیپ نیئر کی قیادت میں کراچی آیا تھا۔ کلدیپ نیئر بھار ت اور پاکستان کے درمیان دوستی کے سب سے بڑے داعی تھے۔ پروفیسر سعید عثمانی اور سرفراز احمد نے جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے پہلی دفعہ بھارتی وفد کے اعزاز میں کراچی کے سب سے بڑے ہوٹل میں استقبالیہ ترتیب دیا تھا۔ پروفیسر غفور اور ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے اس تقریب میں بھارت سے دوستی کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور بھارتی مہمانوں کو کراچی میں خوش آمدید کہا تھا۔
جماعت اسلامی کا خدمت خلق کا شعبہ خاصا قدیم ہے اور اس کی سرگرمیاں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی کا قیام ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے عمل میں آیا تھا۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اسلامی نظریہ کو جدید تقاضوں کے مطابق توضیح اور تشریح کی تھی۔ لسانیات کے ماہر ڈاکٹر طارق رحمن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مولانا مودودی نے مصر کے عالم سید قطب جنہوں نے اخوان المسلمین قائم کی تھی کے نظریات کو اپنے ذہن میں رکھ کر مذہبی کتابیں تصنیف کی تھیں۔ جماعت اسلامی پر تحقیق کرنے والے بعض اسکالر کا کہنا ہے کہ مولانا مودودی نے جمہوری راستہ چنا اور پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے خلاف مزاحمتی تحریک میں حصہ لیا۔
مولانا مودودی نے فوجی آمریت کے خلاف ایک خاتون اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابات میں حمایت کی۔ اور ان کی صدارتی مہم میں حصہ لیا۔ ایک خاتون کو ملک کے سب سے بڑے عہدہ کے لیے نامزد کرنے کے فیصلہ کی دیگر مذہبی جماعتوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ یہ علماء قرآن اور احادیث سے حوالے دیتے تھے کہ اسلامی ملک میں عورت کی حکمرانی کسی صورت جائز نہیں مگر مولانا مودودی نے جمہوری نظام کے لیے فاطمہ جناح کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔
جماعت اسلامی، ایوب خان کے خلاف حزب اختلاف کے متحدہ محاذ کا حصہ بنی۔ اس محاذ میں سیکیولر جماعتیں نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ بھی شامل تھیں۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں میاں طفیل محمد نے جماعت اسلامی کو مارشل لاء کی بی ٹیم بنادیا تھا اور جماعت اسلامی کا رویہ زیادہ مذہبی انتہاپسندی کی طرف مائل ہوگیا تھا۔ یہ صورتحال بعد میں خاصے عرصہ تک جاری رہا۔
قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی پالیسی میں اہم تبدیلیاں کی تھیں۔ ان کے دور میں جماعت اسلامی نے مزدوروں کے حقوق اور غریب بستیوں کے مکینوں کے مسائل سے لے کر بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافہ کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔ جماعت اسلامی ہمیشہ سے مضبوط مرکز کی حامی رہی۔ جماعت اسلامی نے کبھی صوبائی زبانوں کو سرکاری زبانیں قرار دینے کی حمایت نہیں کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب 50 کی دھائی میں مشرقی پاکستان کے طلبہ نے بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینے کی تحریک شروع کی تو جماعت اسلامی کے اکابرین اس تحریک کی مخالفت کررہے تھے۔ ی
ہی صورتحال 1972 میں سندھ میں ہوئی جب پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دینے کا قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا تو جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کے کارکنوں نے احتجاجی تحریک چلائی مگر جب سید منور حسین جماعت اسلامی کے امیر کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے صوبائی خودمختاری کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا اگر جماعت اسلامی یہ نظریہ 60 کی دہائی میں پیش کرتی تو قوم پرست جماعتوں کی فہرست میں شمار کی جاتی۔ پھر سینیٹ میں جماعت اسلامی کے نمایندوں پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر غفور نے 2010 میں صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے 18ویں ترمیم کی حمایت کی۔
صوبائی خودمختاری کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم اور عوامی لیگ کے 6 نکات میں تھوڑا سا فرق ہے۔ جماعت اسلامی کے بعض رہنما عموماً کہتے ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے چھوٹے کاروبار کو ختم کردیا ہے۔ شہروں میں کھلنے والے بڑے بڑے مال محلہ کی چھوٹی دکانوں کو ختم کررہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر بالادست طبقات کا قبضہ ہے۔ یہ انتہائی اہم نکات ہیں جو عام آدمی کی زبوں حالی کی وجہ بیان کرتے ہیں مگر جماعت اسلامی متوسط طبقہ کی شفاف قیادت اور عوامی مسائل اجاگر کرنے کی جدوجہد کے باوجود ہر انتخاب میں کم نشستیں حاصل کرپاتی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے بارے میں ایک پرسیپشن Perceptionیہ ہے کہ یہ ایک خاص فقہ کی جماعت ہے مگر جماعت اسلامی کی پالیسیوں میں ہونے والی ان خوشگوار تبدیلیوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں جماعت اسلامی پاکستان میں آباد ہر شہری سے بلاامتیاز مذہب، جنس یا ذات کے یکساں حقوق کے لیے آئین میں کی جانے والی ہر ترمیم کی حمایت کرے گی۔