کراچی کے لیے آئینی آپشنز زیر غور ہیں، وزیر اعظم سے بات ہوئی ہے۔ میں اس وقت تفصیلات بتانے کی پوزیشن میں نہیں۔ کراچی کی صورتحال کے بارے میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے یہ مؤقف اختیار کر کے کراچی کے بارے میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد کو سنجیدہ حیثیت دے دی۔
چیف جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کی صورتحال کو تشویش ناک قرار دیا۔ چیف جسٹس نے سماعت کے دوران صوبائی حکومت اور بلدیہ کراچی کی کارکردگی پر مایوسی اور غصہ کا اظہار کیا۔ انھوں نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ تباہی کے دہانے پر، حکومت ناکام اور حکمراں انجوائے کررہے ہیں۔ وفاق سے کہیں آکر معاملات ٹھیک کریں۔
سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ سندھ حکومت اور اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق نہ ہوا تو آئین کا آرٹیکل 149 نافذ ہوسکتا ہے۔ عمران اسماعیل نے اس ٹاک شو میں مزید کہا کہ وفاقی حکومت اب کراچی کو لٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ کراچی کے لیے بہت ٹھوس فریم ورک پر کام ہورہا ہے۔ اس فریم ورک میں وفاق اور سندھ کی حکومت اور کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے۔ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر آرٹیکل 149 نافذ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاق نے کراچی کو اپنی کالونی بنانے کی کوشش کی تو مزاحمت کریں گے۔
ان کا مدعا ہے کہ صوبوں کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے، سندھ کو اس کا جائز حق نہیں مل رہا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اس بحث پر یوں تبصرہ کیا کہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں کہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کیا جائے، اگر ایسا ہوا تو بقول ان کے سندھ کے عوام مزاحمت کریں گے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی سندھ کی ہیت کی تبدیلی کے کسی ممکنہ فیصلہ کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی رائے ہے کہ انفرااسٹرکچر این ڈی ایم اے، ایف ڈبلیو او اور فوج کے سپرد کیا جائے۔ چیمبر کے صدر سراج قاسم تیلی نے مزید کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں ترقیاتی کاموں کے لیے رقم فراہم کریں۔ ان کا استدلال ہے کہ 5سال کے لیے فوج کو یہ کام تفویض کیا جائے۔ قاسم تیلی کہتے ہیں کہ صوبائی محکمے بدترین صورتحال سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ کراچی کے بنیادی ڈھانچے زبوں حالی کا شکار رہے۔
اس صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 149 کے نفاذ کا ذکر بھی ہورہا ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت وفاقی حکومت چند معاملات پر صوبائی حکومت کو ہدایت دے سکتی ہے۔ ان میں اہم قومی اہمیت کے حامل معاملات، تعمیر و مرمت کے منصوبے، پاکستان کے کسی حصہ میں امن و امان یا اقتصادی بحران جیسے سنگین خطرے کے ا نسداد کے لیے ہدایت دی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس کی آبزرویشن، اٹارنی جنرل اور گورنر سندھ کے ارشاد اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں ایک خطرناک صورتحال ابھر کر سامنے آرہی ہے۔
کراچی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سوچ و بچار کے لیے کچھ نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کے نتیجہ میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا اور برصغیر کی ایک چھوٹی بندرگاہ کراچی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا گیا۔ انڈیپنڈنٹ ایکٹ 1947ء کے تحت پاکستان کے قیام کے لیے قانونی جواز فراہم ہوا تو بانی پاکستان قائداعظم نے کراچی کو نئے ملک کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بعض ناقدین کی رائے تھی کہ مشرقی بنگال کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی تھی اور پاکستان کی آبادی کی بڑا حصہ مشرقی بنگال تھا۔ اس بناء پر پاکستان کا دارالحکومت ڈھاکا بنایا جائے، مگر مسلم لیگ کی قیادت نے کراچی کو دارالحکومت بنا دیا۔
اس وقت کراچی کی آبادی چند لاکھ پر مشتمل تھی۔ ہجرت کی بناء پر آبادی کی منتقلی سے کراچی کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کراچی کو مرکز کی تحویل میں دے دیا۔ 1955ء میں جب سندھ، بلوچستان، پنجاب اور سرحد کو ضم کر کے نیا صوبہ مغربی پاکستان قائم ہوا تو لاہور مغربی پاکستان کا دارالحکومت بنایا گیا۔ کراچی کی حدود میں حب اورٹھٹہ شامل کردیا گیا۔ 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سندھ صوبہ بحال ہوا تو کراچی دارالحکومت بنایا گیا۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بھی کراچی سندھ کا دارالحکومت رہا مگر عملاً ملک میں وحدانی طرز حکومت قائم رہی اور اسلام آباد کی حکومت کراچی سمیت تمام ملک کے معاملات کا فیصلہ کرنے لگی۔
1988ء سے 1999ء تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں قائم رہیں۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔ انھوں نے جنرل نقوی کا تیار کردہ نیا بلدیاتی نظام قائم کیا مگر پیپلز پارٹی کی حکومت 2008ء میں برسر اقتدار آئی تو یہ نظام ختم ہوا اور بلدیاتی اداروں کا ایسا کمزور نظام نافذ ہوا کہ تمام بلدیاتی امور چوپٹ ہوگئے۔ 2020ء تک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تقریباً 40 سال کے قریب کا عرصہ مرکز کی زیر نگرانی گزرا۔ اس دوران کراچی وفاقی دارالحکومت بھی رہا مگر کسی حکومت نے کراچی کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے بنیادی اقدامات نہیں کیے۔
کراچی کی آبادی بڑھنے کے باوجود پانی کی فراہمی، دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح سیوریج کے جدید نظام، جدید پبلک ٹرانسپورٹ مثلاً انڈر گراؤنڈ ٹرین، بسوں اور بجلی سے چلنے والی ٹرام وے، کوئی سولر اور پن چکی سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں پر کوئی سوچ بچار نہیں ہوئی۔ کراچی کے لیے جامع ماسٹر پلان کی بھی تیاری نہیں ہوئی۔ اس عرصہ میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے شہر میں پھیلی ہوئی جھونپڑیوں کی بستیوں کو نئی بستیوں میں ضم کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ مگر ترقی کا آغاز پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ہوا جب شاہراہ فیصل کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا گیا، شہید ملت روڈ اور دیگر سڑکیں بنیں، کراچی میں دو اسپتال عباسی شہید اور لیاری جنرل اسپتال وغیرہ اسی دور میں تعمیر ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں کراچی کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں اس شہر کی ترقی پر توجہ نہ دے پائیں۔ ترقی کا حقیقی عمل سابق صدر پرویز مشرف کے نچلی سطح تک کے اختیارات کی بناء پر ہوا۔ لندن میں ہونے والے واقعات کے اثرات کو روکنے کے لیے مقتدرہ نے مداخلت کی۔ یوں وفاقی اور صوبائی وزراء پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی بن گئی۔ یہ کمیٹی کیا فرائض انجام دے گی، یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیر کو پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ سندھ کے انتظامی اختیارات میں کسی سے شراکت نہیں کریں گے، سندھ پر قبضہ کا کسی کے دماغ میں فتور ہے تو اسے نکال دے، چنانچہ حقائق کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عارضی انتظام ثابت ہوگا۔ کراچی کی ترقی بااختیار سٹی گورنمنٹ کے قیام سے ہی ممکن ہے جس میں سارے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کردیے جائیں۔