22 جنوری اتوار کی شام پرسکون تھی۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ کیماڑی میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ اچانک مسان روڈ پر چلنے والے افراد زمین پر گرنے لگے۔ علاقہ میں خطرناک گیس کی بو پھیل گئی۔ کیماڑی کے علاقے میں قائم ایک نجی اسپتال میں اچانک سانس گھٹنے کے مریض آنے لگے۔ اسپتال میں ایمرجنسی لگادی گئی۔
اس نامعلوم گیس سے 15کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ ایک نوجوان اپنے گھر کی چھت پر کبوتروں کو دانا ڈالتے ہوئے بے ہوش ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ کسی نامعلوم گیس کا شکار ہوا۔ یوں دو دنوں میں 500 کے قریب افراد نامعلوم گیس سے شدید بیمار ہوئے۔ حکام نے مرنے والے افراد کے خون کے نمونے کراچی یونیورسٹی بھجوا دیے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن جن کا بنیادی مضمون کیمسٹری ہے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایک جہاز سے سویا بین اتاری جارہی تھی۔
سویابین کی ڈسٹ سے دمہ کے مرض کے علاوہ سانس اور پتہ کے امراض میں مبتلا افراد متاثر ہوئے، ان میں سے کچھ جاں بحق ہوئے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے دستیاب مواد سے مطالعے کے بعد کہا کہ میکسیکو میں بھی سویا بین کی جہاز سے کنٹینر منتقلی کے دوران اس طرح کی صورتحال پید اہوئی تھی۔
کمشنر کراچی نے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی رپورٹ کو ہی کیماڑی میں اموات کی وجہ قرار دیا۔ بندرگاہوں کے وفاقی وزیر علی زیدی نے حکومت سندھ کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ انھوں نے کہا کہ جہاز سے سویابین کی منتقلی کے کام میں مصروف کسی مزدوروں کو سویابین کی ڈسٹ سے کچھ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھاکہ اس نامعلوم گیس کے پھیلنے کی وجوہات حکومت سندھ کو بیان کرنی چاہئیں، یوں وفاقی وزیر علی زیدی اور کیماڑی سے منتخب ہونے والے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر پٹیل میں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں شدید تکرار ہوئی۔ علی زیدی نے گیس کے اخراج کی ذمے داری حکومت سندھ پر ڈالی۔ پٹیل نے الزام لگایا کہ زہریلی گیس کے اخراج کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔
کیماڑی کے قدیم مکین پروفیسر سعید عثمانی جو اتفاقاً گیس کا شکار ہونے سے بچ گئے کا کہنا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی 20 برتھ ہیں مگر کسی برتھ پر کام کرنے والا کوئی فرد متاثر نہیں ہوا جب کہ دوسرے دن کیماڑی سے متصل سلطان آباد میں ناخوشگوار گیس پھیلنے سے خاصے افراد متاثر ہوئے۔ لوگوں نے اپنے بچوں سمیت ہر فرد کو گھروں میں مقید کردیا، مگر حکام کوئی مؤقف اختیار نہیں کرسکے۔
بعض صحافیوں کا کہنا تھا کہ سویا بین کی ڈسٹ زیادہ افراد کو متاثر نہیں کرتی۔ صرف بوڑھے افراد جو پتہ اور دمے کے مریض ہوتے ہیں اس گیس سے متاثر ہوجاتے ہیں، پھرکراچی شہر میں گیس سے 16سے زائد ہلاکتوں کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ جو لوگ اس گیس سے متاثر ہوئے ان میں سے کچھ اپنے پیاروں کو رو دھو کر خاموش ہوگئے جب کہ کچھ اب تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی پر ماتم کر رہے ہیں۔
زہریلی گیس سے ہلاکتوں کی اپنی تاریخ ہے۔ 80 کی دھائی میں بھارت کی ریاست مدھیہ پریش کا گنجان آباد شہر بھوپال جو اپنی بھاری صنعتوں کی بناء پر اب بھی مشہور ہے وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے اپنا پلانٹ لگایا تھا۔ یو پی کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان کی فیکٹری میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں، پھر ایک شام کو اچانک اس کمپنی کے کارخانے سے زہریلی گیس پھیلنے لگی۔
ہزاروں افراد چند لمحوں میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ بھارت کی حکومت اور یونین کاربائیڈ کے درمیان طویل قانونی جنگ ہوئی۔ یونین کاربائیڈ نے اپنا کارخانہ بند کردیا۔ بھارت کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے رجوع کیا تو ملٹی نیشنل کپنی والے بہت کم معاوضہ دینے پر مجبور ہوئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ سوویت یونین کے شہر چرنووبل میں ہوا۔ چرنوبل میں قائم ایٹمی پلانٹ سے ایٹمی لہریں اچانک خراج ہوئیں، یوں ہزاروں افراد ایٹمی لہروں سے متاثر ہوئے۔ چرنوبل کے حادثہ کے بعد بین الاقوامی ایٹمی کونسل نے ایٹمی ری ایکٹروں کی تنصیب پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ دنیا بھر میں ایٹمی پلانٹ کی تنصیب کو ماحولیات کی تباہی قرار دیا گیا۔
کراچی یونیورسٹی، سائنس فیکلٹی کے بعض اساتذہ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے حادثے کے تیسرے دن رپورٹ جاری کردی۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ کیماڑی کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق نچلے طبقہ سے تھا۔ ان غریبوں کے حالات زار ملک کے بالادست طبقات کے لیے توجہ کا باعث نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مرنے والے افراد کے لواحقین اور اس گیس سے متاثرہ افراد کی دادرسی کی طرف نہ تو وفاقی حکومت نے توجہ دی نہ صوبائی حکومت کو خیال آیا، یوں نہ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس معاملہ پر سنجیدہ بحث ہوسکی نہ ہی سندھ اسمبلی کے ارکان کو اتنی توفیق ہوئی کہ کیماڑی میں گیس کے اخراج کے بارے میں غور کرسکتی۔
سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے حادثات میں مرنے والوں کی انشورنس اسکیم شروع کی تھی۔ کیماڑی جیسے حادثات کے متاثرین کو معاوضہ ملنا چاہیے۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے اور جوابی الزامات کا کھیل کھیلنے کے بجائے ایک اعلیٰ سطح کمیشن قائم کرنا چاہیے جو سائنسدانوں پر مشتمل ہو۔ یہ کمیشن بین الاقوامی معیارکے مطابق اس پورے واقعے کی تحقیق کرے اور اس سانحہ کے ذمے داروں کی نشاندہی کرے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لیے تجاویز پیش کرے۔ اس کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ اور سندھ اسمبلی میں پیش ہونی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان سفارشات کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اگر کیماڑی کے حادثہ کو نظراندازکردیا گیا تو مستقبل میں اس سے زیادہ خطرناک حادثات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔