اس صدی میں پاکستان کے دو علاقے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ منصوبہ بندی کے تحت طالبان کوخیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں لایا گیا۔ طالبان نے پہلے قبائلی علاقوں میں اپنی کمین گاہیں بنائیں، پھر سوات اور پشاور کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
سوات میں 90ء کی دہائی میں چلنے والی تحریک شریعت محمدی کے قائد صوفی محمد کے داماد، مولانا فضل اﷲ نے سوات پر قبضہ کیا۔ طالبان نے ان علاقوں میں اپنی عدالتیں قائم کیں اور یہ احکامات جاری کیے کہ تمام لوگ ان کے احکامات کی پاسداری کریں۔ خیبر پختون خوا میں مختلف جماعتیں متحرک رہی ہیں۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف قابل ذکر ہیں، مگر کسی نے بھی طالبان اور ان کے بیانئے کی ڈٹ کر مخالفت نہیں کی۔
البتہ عوامی نیشنل پارٹی میں شامل قوم پرست اور دیگر ماڈریٹ گروپوں نے طالبان کے جبر ی نظام کے خلاف مزاحمت کی۔ یوں قوم پرست اور ماڈریٹ اور لبرل گروپوں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی۔
طالبان نے اے این پی کی مرکزی قیادت پر حملے شروع کیے۔ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی پر متعدد خودکش حملے ہوئے۔ اے این پی کے سینئر رہنما میاں افتخار پر حملوں میں ناکامی کے بعد ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا۔ اے این پی کا بلور خاندان براہِ راست حملوں کا شکار ہوا، پہلے بشیر بلور، پھر 2018ء کے انتخابات میں ان کے صاحبزادے ہارون بلور کو شہید کیا گیا مگر اے این پی اور دیگر ترقی پسند گروپوں نے طالبان کے بیانئے کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اس بحران سے سرخ رو ہوکر نکلے۔
اسی دوران کراچی میں گینگسٹرز نے لیاری میں قبضہ کرنا شروع کیا۔ تاریخی طور پر لیاری سیاسی تناظر میں بلوچستان سے منسلک رہا ہے، جب بھی بلوچستان میں کوئی تحریک چلی لیاری اس کا مرکز رہا۔ اس صدی کے پہلے عشرہ میں بلوچستان میں صورتحال بگڑی۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس مری کے قتل کے الزام میں مری قبیلہ کے سردار خیر بخش مری کو گرفتار کیا گیا۔ اس دوران کئی افراد لاپتہ ہوگئے اور پھر معاملہ اکبر بگٹی کے قتل تک پہنچا۔ اس دفعہ لیاری میں گینگ وار کی وجہ سے بلوچستان میں ہونے والے واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لیاری کے مرکز چاکیواڑہ سے شایع ہونے والے اخبار توار کے کئی صحافیوں بھی قتل ہوئے۔
پیپلز پارٹی کا لیاری میں ہمیشہ ووٹ بینک رہا ہے، لیاری کے عوام نے 1970ء سے 2013ء تک تمام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کیا تھا۔ مگر پیپلز پارٹی نے گینگ وار کے نقصانات کا ادراک نہیں کیا۔ 2008ء میں صدر آصف زرداری نے صلح کل کی پالیسی اختیار کی، وہ ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر 90 گئے اور یہ تاریخی اعلان کیا کہ وہ ماضی میں ایم کیو ایم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے قائد کے نائب نے بھی جواباً یہی الفاظ دھرائے مگر ایم کیو ایم کی قیادت نے دہری پالیسی اختیار کی۔ ایک طرف وہ صوبائی اور وفاقی حکومت میں شریک ہوئی تو دوسری طرف اس کے مسلح کارکنوں نے شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھا، ادھر مختلف مذہبی انتہا پسندگروہ بھی ایک دوسرے کے کارکنوں کو قتل کرنے لگے۔ اس دوران پورے شہر میں گینگسٹرز کے گروپ بن گئے جس کی بناء پر اغواء برائے تاوان کا کاروبار عروج پر پہنچا۔
اس وقت صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم کے مسلح ورکروں کو قابو میں لانے کے لے لیاری کے گینگسٹرز کو استعمال کرنا شروع کیا جس کی بناء پر بہت سے بے گناہ مارے گئے۔ پہلی دفعہ شہر میں اردو بولنے والوں اور بلوچوں میں کشیدگی کے آثار نظر آنے لگے۔ شیرشاہ سے لے کر کلفٹن، ملیر اور دیگر علاقوں میں صورتحال انتہائی مخدوش ہوگئی۔ لیاری میں پہلی دفعہ بلوچ اور کچھی برادری میں تضادات ابھرے۔ کچھی برادری ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کی حامی رہی ہے۔
گینگسٹروں نے لیاری کی سیاسی، سماجی، ادبی ساخت کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مخالفین اور بھتہ ادا نہ کرنے والوں کو ہراساں اور قتل کرنا تو عام سے بات تھی۔ صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کی زندگی تنگ ہوگئی۔ لیاری کی پہچان سینئر صحافی نادر شاہ عادل کو لیاری سے ہجرت کرنی پڑی۔ مارکسٹ دانشور رحیم بخش مرحوم اپنے گھر تک محدود ہوگئے۔ لیاری کی پیداوار مزدور رہنما عثمان بلوچ کے لیے اپنے آبائی گھر جانا ممکن نہ رہا۔ لیاری ہمیشہ سے ادبی، ثقافتی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ گینگ وار کے دوران یہ سرگرمیاں رک گئیں۔
لیاری کے گینگسٹرز نے فرقہ وارانہ تنظیموں کی حوصلہ افزائی شروع کردی۔ ذوالفقار مرزا کی پیپلز پار ٹی سے رخصتی اور دنیا کے ذرایع ابلاغ میں کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی کوریج کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کو غلطی کا احساس ہوا اور پولیس کے دلیر اسلم چوہدری کی سربراہی میں لیاری میں پولیس آپریشن ہوا، اس آپریشن کے دوران لیاری کئی دن تک بند رہا۔ بجلی اور پانی کی سپلائی معطل رہی جس کی بناء پر عوام کی اکثریت پیپلز پارٹی حکومت سے نالاں ہوئی۔
یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف والوں نے بھی لیاری کے گینسٹروں سے رابطے کیے۔ تحریک انصاف کو اس زمانہ میں اپنے جلوسوں کی کامیابی کے لیے سامعین کی ضرورت تھی اور ایم کیو ایم کے جنگجوؤں سے تحفظ بھی چاہیے تھا۔ بہرحال آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں لیاری میں گینگ وار رک گئی۔ پولیس نے کئی گینگسٹرز کو مقابلوں میں مار دیا۔ کچھ بیرون ملک فرار ہوگئے۔ عزیر بلوچ دبئی گیا اور پھر گرفتار ہوا۔
یہ ایک داستان ہے، کئی لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ ثبوت نہ ہونے کی بناء پر اس کو باعزت بری کردیا جائے گا۔ سندھ کی حکومت نے بعض نامعلوم وجوہات کی بناء پر ڈاکٹر مورائی، بلدیہ فیکٹری اور عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ جاری نہیں کی تھی۔ وفاقی وزیر علی زیدی دو سال سے سندھ ہائی کورٹ میں اس کے اجراء کے لیے قانونی لڑائی میں مصروف تھے۔ عدالت عالیہ نے سندھ حکومت کو یہ رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔
اس دوران بقول علی زیدی کہ نامعلوم موٹر سائیکل سوار وں نے خاکی لفافے میں جے آئی ٹی رپورٹ ان کے اسلام آباد کے گھر پر تعینات گارڈ کو دیدی، یوں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور علی زیدی کے درمیان لفظی گولہ باری شروع ہوگئی۔ یہ مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں علی زیدی کی کاوشوں کو سراہا گیا مگر اصلی جے آئی ٹی کی تلاش کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے یا اس پورے معاملہ میں تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے بجائے محض علی زیدی سے یکجہتی پر اکتفاء کیا گیا۔
یوں ایک سینئر اینکر پرسن کی یہ بات درست محسوس ہونے لگی کہ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کی قیادت کو این ایف سی ایوارڈ کے اس فارمولہ پر آمادہ کرنے کے لیے ہورہا ہے۔ بہرحال خیبر پختون خوا اور لیاری کے واقعات کے تجزیہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ سیاسی جماعتوں یا حکومتوں کو محدود مقاصد کے لیے کسی صورت گینگسٹرز کی مدد حاصل نہیں کرنی چاہیے۔ ایسی پالیسی کا فائدہ ہمیشہ طالع آزما قوتوں کو ہوتا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز اس صورتحال سے سبق سیکھ لیں تو مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔