ماہ جولائی کو ملکی تاریخ میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ 1955 میں سندھ، بلوچستان، سرحد (خیبرپختون خوا) اور پنجاب کی شناخت ختم کرکے ون یونٹ قائم کیا گیا تھا۔ یکم جولائی 1970کو یہ ون یونٹ ختم کیا گیا اور چاروں صوبے اپنی حقیقی حیثیت میں بحال کردیے گئے۔
5 جولائی 1977 کو ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت کا تختہ الٹا اور ایک متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، جس کو بعد ازاں "عدالتی قتل" کا نام دیا گیا۔ ضیاء الحق نے 11 سالہ اپنے طویل اقتدار میں ملک کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی ساخت کو تباہ کردیا۔
تاریخ کے اوراق تصدیق کرتے ہیں کہ بظاہر اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد ان کے معاون اسکندر مرزا اور بیوروکریٹ چوہدری محمد علی ون یونٹ نظریے کی ترویج کررہے تھے جب کہ حقیقت میں اس وقت جنرل ایوب خان چاروں صوبوں کی حیثیت کو ختم کرکے ون یونٹ کے قیام کے خواہاں تھے۔
اس وقت کے حکمرانوں کا بظاہر یہ بیانیہ تھا کہ چاروں صوبوں کو ون یونٹ میں ضم کرکے انتظامی معاملات بہتر ہونگے اور یوں یکجہتی پیدا ہوگی۔ ملک کے دو صوبے مغربی اورمشرقی پاکستان کو مستحکم کریں گے مگر اس وقت حکمرانوں کے کچھ پوشیدہ مقاصد تھے۔ ان کا پہلا مقصد تو یہ تھا کہ چاروں صوبوں کی تاریخ ثقافت کو پس پشت ڈالا جائے۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا جائے اور دونوں صوبوں کو مساوی نمائندگی دی جائے۔
ون یونٹ بننے سے سابقہ صوبوں سندھ، بلوچستان اورسرحد میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ ترقی کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ ترقی کا محورکراچی اور لاہور رہ گئے۔
سندھ میں ون یونٹ بننے کے بعد نئے تضادات زیادہ شدت سے ابھرکر سامنے آئے۔ سندھ کے اسکولوں میں برطانوی ہند دور سے سندھی زبان کا مضمون پڑھایا جارہا تھا۔ بٹوارے کے بعد جو لوگ ہجرت کرکے سندھ میں آئے ان کی اولادوں نے سندھی پڑھانا شروع کردی تھی مگر جب جنرل ایوب خان مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو ان کے ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر ٹکا خان نے سندھی زبان کی تدریس پر پابندی لگا دی، یوں نئی نسل سندھی کی تعلیم حاصل نہ کرسکی۔
جب سندھی متوسط طبقہ مضبوط ہوا تو سندھ میں لسانی مسئلہ شدت اختیارکرگیا۔ ون یونٹ کے نام پر مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا۔ یوں نہ صرف بنگال کی شناخت ختم ہوئی بلکہ مشرقی بنگال کی اکثریت کو ختم کر دیا گیا۔ ایوب خان نے جب 1962 میں صدارتی آئین نافذ کیا تو مشرقی پاکستان کے دانشوروں نے اندازہ لگایا کہ اب مشرقی پاکستان کی قیادت سے اقتدارحاصل کرنے کے امکانات نہیں ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا (سابقہ سرحد) کی سیاسی جماعتوں، دانشوروں، طلبہ، ہاری اور مزدوروں کی تنظیموں نے ون یونٹ کے خاتمہ کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، رسول بخش پلیجو، قاضی فیض محمد، شیخ ایاز اور جام ساقی وغیرہ نے سندھ صوبہ کی بحالی کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
بلوچستان میں میر غوث بخش بزنجو، اکبر بگٹی، سردار عطاء اﷲ مینگل، خیر بخش مری وغیرہ پر بھی ون یونٹ کی مخالفت کرنے پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے۔ سرحد میں خان عبدالغفار خان، ولی خان، اجمل خٹک، افضل بنگش وغیرہ مسلسل ون یونٹ کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ نیشنل عوامی پارٹی پنجاب کے رہنماؤں میاں افتخار الدین، محمود علی قصوری، حبیب جالب اس ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں پہلی صفوں میں شامل تھے۔ جنرل یحییٰ خان نے یکم جولائی 1970 کو ون یونٹ کو ختم کیا۔
ون یونٹ کے اثرات خاصے گہرے رہے۔ ان تینوں صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا، جب کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں یہ احساس تقویت پاگیا کہ ایسا آئین جو عوام کی اکثریت پر قدغن لگائے انھیں قبول نہیں ہوگا۔ عوامی لیگ کے 6نکات دراصل ون یونٹ بننے کے بعد مشرقی پاکستان کی اکثریت کے خاتمے سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تدارک کے لیے تھے، جب مارچ 1971 میں جنرل یحییٰ خان اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے تو پھر اس کا نتیجہ 16 دسمبر 1971 کو سامنے آیا۔ مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ سے غائب ہوا اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ آج بنگلہ دیش اپنی پسماندگی سے چھٹکارہ حاصل کرکے ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971ء کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اتفاق رائے سے عبوری آئین بنایا۔ ملک سے مارشل لاء ختم ہوا۔ ذوالفقارعلی بھٹو صدر بن گئے۔ قومی اسمبلی میں نمائندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے مشورے سے 1973 کا آئین تیار ہوا۔ اس آئین پر اسلامی نظام کی حامی سیاسی جماعتوں اور سیکیولر نظریات کی حامی جماعتوں میں اتفاق ہوا، یوں ملک نے جمہوریت کی طرف سفرکرنا شروع کیا۔
اگرچہ پیپلزپارٹی کے پہلے دورحکومت میں انسانی حقوق کی صورتحال اطمینان بخش نہیں رہی مگر مارچ 1977میں انتخابات ہوئے۔ مخالف جماعتوں کے اتحاد PNA کی قیادت نے انتخابی نتائج کو قبول نہیں کیا، یوں ایک سیاسی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومت اور پی این اے کی قیادت کے درمیان مذاکرات ہوئے، 4 جولائی کے دن کے خاتمہ سے ایک گھنٹے قبل حکومت اور حزب اختلاف ایک فارمولہ پر متفق ہوئیں تو 5جولائی کو رات گئے جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1973 کے آئین کو معطل کیا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دی گئی۔ ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں قوم سے وعدہ کیا تھا کہ 90 دن میں انتخابات کرائیں گے اور اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کر دیں گے مگر انھوں نے اس وعدہ کا پاس نہ کیا۔ امریکی صدر ریگن کے ساتھ مل کر افغان جہاد شروع کیا گیا۔ اس لڑائی میں امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں شامل افرادکے وارے نیارے ہوگئے۔ ملک میں ہیروئن اورکلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ انتہا پسند عناصر کو تقویت ملی جس کے نتیجے میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرات بڑھ گئے۔ جنرل ضیاء الحق کا دور تو 1988 میں ختم ہوگیا مگر طاقتور مقتدرہ نے انتہا پسندی کی ڈاکٹرائن کی پشت پناہی شروع کر دی۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدارکے بعد انسانی حقوق کی پامالی کا نیا طوفان آیا۔ انتہاپسندوں کو ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی اختیارکی گئی۔ 1988 سے 1999کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکیں۔
جنرل مشرف نے آئین کو پامال کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکا اور اتحادی افواج کی کارروائی سے طالبان کی حکومت ختم ہوئی مگرکابل میں لڑی جانے والی جنگ کوئٹہ اور پشاورکے راستہ کراچی میں منتقل ہوئی۔ اس لڑائی میں ہزاروں فوجی اور سویلین شہید ہوئے مگر بعض ریاستی پالیسیوں کی بناء پر پاکستان کے روشن خیال چہرہ پر سیاہ داغ لگ گئے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں 18ویں ترمیم منظور ہوئی۔ صوبوں کو تقریباً وہ حقوق ملے جو 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت نے مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد پاکستان کی روح کے مطابق تھے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ منتخب حکومتوں نے آئینی مدت پوری کی۔ جمہوریت کا سفر آسان ہوا مگر طالع آزما قوتوں نے 18ویں ترمیم کے خاتمہ کے لیے ایک مہم شرو ع کی ہوئی ہے۔ صوبوں نے ملک بنایا، صوبوں کے اختیارات غضب ہونے سے وفاق کمزور ہوگا، ہر منتخب حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ شفاف انتخابات اور مکمل جمہوریت ہی ملک کا مستقبل ہیں۔ ون یونٹ اور 5جولائی 1977 کے حالات کے تجزیہ سے یہی سبق ملتا ہے۔