مریم نواز بار بار کہہ رہی ہیں کہ پی ڈی ایم کا جھگڑا عمران خان سے نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ہمارا جھگڑا ان سے ہے جنھوں نے غلط انتخاب کیا۔ پی ڈی ایم کے رہنماؤں خصوصاً مولانا فضل الرحمٰن کا بیانیہ ہے کہ 2018کے انتخابات پولیٹیکل انجنیئرنگ کا شکار ہوئے۔ اس وقت ملک کی سنگین صورتحال کا اگر معروضی انداز میں تجزیہ کریں تو ہم پاکستان کو درپیش اس چیلنج کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے، جو ووٹ کی طاقت کے ذریعہ قائم ہوئے۔ پاکستان کے قیام کی ساری جدوجہد مسلم لیگ اور اس کی ملحقہ تنظیموں نے کی۔ جمہوری نظام کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو حقائق سامنے آتے ہیں کہ برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں متوسط طبقہ پیدا ہوا، تعلیم کے پھیلاؤ اور اربنائزیشن کے عمل کے نتیجہ میں سیاسی شعور بڑھا۔ لوگوں نے ریاست کی ہیت کے بارے میں غوروفکر کرنا شروع کیا۔
اخبارات نے متوسط اور مزدور طبقہ میں اپنے حقوق کے شعورکو اجاگرکرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ برطانیہ کے بادشاہ اور چرچ کے خلاف تحریک تیزہوئی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں میگناکارٹا معاہدہ ہوا، یوں پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوئی اور ایک جدید ریاست ابھرکر سامنے آئی۔ اس جدید ریاست کے تین ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ قرار پائے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے برطانیہ کے قانون کے سب سے بڑے ادارہ لنکن ان سے بارایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پارلیمانی نظام کے سب سے بڑے حامی رہے۔ جب وہ انڈین لیجسلیٹو کونسل کے رکن بنے تو ان کا سارا زور ہندوستان کے شہریوں کو حقوق دلوانے پر تھا، وہ ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر زور دیتے تھے۔ جب انھیں محسوس ہوا کہ برطانوی انتظامیہ انڈین لیجسلیٹوکونسل پر قدغن لگارہی ہے تو وہ اس کونسل سے مستعفی ہوگئے۔
پاکستان کا آغاز پارلیمانی نظام سے ہوا مگر سول بیوروکریسی جس کی قیادت غلام محمد اور چوہدری محمدعلی کررہے تھے، ان کی پشت پناہی اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کررہے تھے نے پارلیمانی نظام حکومت میں رخنہ ڈالنا شروع کیا۔ محققین تو اس خدشہ کا اظہارکرتے ہیں کہ پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے بھی یہی عناصر تھے۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ اس وقت کے ایک اعلیٰ پولیس افسر لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات پر مامور تھے، انھیں ایام میں کراچی کے قریب جہازکی تباہی بھی اسی سازش کا حصہ تھی۔
پہلے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کوگورنر جنرل غلام محمد نے برطرف کیا، یوں مشرقی پاکستان میں مایوسی کا سلسلہ شروع ہوا جو بعد میں بد اعتمادی میں تبدیل ہوا۔ ایک دن جنرل ایوب خان اس ملک کے وزیر دفاع بن گئے۔ جنرل ایوب خان کے طے کردہ نقشہ کے تحت 1955 میں ون یونٹ قائم کیا۔
ون یونٹ کے ذریعہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا اور سندھ، بلوچستان اور اس وقت کے سرحد کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ جب 1958 میں عام انتخابات کا وقت آیا اور بیوروکریسی کو احساس ہوا کہ عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی اور ان دیگر قوم پرست جماعتوں کے اکثریت حاصل کرنے کے امکانات پیدا ہوئے تو اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے مل کر مارشل لاء لگایا اور 1956 کا آئین منسوخ کردیا۔
جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو بھی رخصت کیا اور 1962 میں ملک میں ایسا آئین بنایا جس میں تمام اختیارات صدر کے عہدے میں مرکوز تھے۔ 1964 کے صدارتی انتخابات میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے شکست دی گئی۔ اس مجموعی صورتحال میں سب سے زیادہ احساس محرومی مشرقی پاکستان کے عوام میں پیدا ہوا۔
1968 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام نے تحریک چلائی تو ایوب خان نے اپنے ہی تیارکردہ آئین کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا جنھوں نے فوری طور پر مارشل لاء نافذکیا۔ جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں انتخابات کرائے مگر قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کی حمایت کی، ادھر مشرقی پاکستان میں بھارت نے مداخلت کردی۔ 16 دسمبر 1971 پاکستان دولخت کردیا گیا۔
سیاستدانوں کو آزادی سے آئین بنانے کا موقع ملا تو 1973 کا آئین نافذ ہوا۔ دو فوجی آمروں نے اس آئین کو معطل کیا اور من مانی ترامیم کیں مگر آج بھی تمام سیاسی جماعتیں اس آئین پر متفق ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء نے کلاشنکوف اور ہیروئن کلچرکو عام کیا اور مذہبی انتہا پسندی سے معاشرہ کو شدید نقصان پہنچایا۔
1988 میں کامیابی کے باوجود پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بینظیر بھٹو کو بابائے سول بیوروکریسی غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ سے سمجھوتہ کرکے اقتدار میں آنا پڑا، مگر 18 ماہ بعد ان کی حکومت توڑ دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں کا اتحاد I.J.I قائم ہوا۔ تحریک استقلال کے سربراہ ایئر مارشل اصغر خان نے 90 کی دہائی میں اس سازش کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائرکیا تھا مگر 20 سال گزر جانے کے باوجود یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔
1988 سے 1999 کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی دو حکومتیں اپنی اپنی معیاد پوری نہ کرسکیں۔ بعد ازاں جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کابل سے کراچی منتقل ہوگئی۔ 2008 سے 2018 کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی اپنی معیاد پوری کی مگر دو جماعتوں کے وزراء اعظم اپنی مدت کے تین سال بعد سپریم کورٹ کے احکامات پر برطرف ہوئے اور بقیہ مدت کے لیے ان حکومتوں کی رٹ ختم ہوگئی۔ نوا ز شریف حکومت کے آخری دور میں فیض آباد دھرنا ہوا۔
2018 کے انتخابات میں R.T.S سسٹم کے بیٹھ جانے کی باتوں یا الزامات پر کوئی تحقیقات نہیں ہوسکی۔ ملک کے موجودہ بحران کا حل قائد اعظم کی تعلیمات میں موجود ہے۔ قائد اعظم نے مارچ 1948 میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں افسروں سے خطاب کیا، اس خطاب کو کوئی بھی پڑھ لے، بس قائد کے اس خطاب کو مشعل راہ بناکر ہی پاکستان کو جدید جمہوری ریاست بنایا جاسکتا ہے۔