برصغیر ہندوستان کی معلوم تاریخ میں آزادئ اظہار، آزادئ صحافت جیسے بنیادی حقوق کی اہمیت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ راجہ چندر گپت موریا کے دور سے لے کر مغلوں کے دور تک خبررسانی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ ان بادشاہوں نے خبررسانی کا مطلب مملکت میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگہی سمجھا۔ چندرگپت موریا، علاؤ الدین خلجی، محمد بن تغلق، ظہیر الدین بابر، شیرشاہ سوری اور شہنشاہ اکبر نے اطلاعات کے نظام پر خصوصی توجہ دی۔ ان بادشاہوں نے اطلاعات چھپانے اور غلط اطلاع دینے والے اہلکاروں کو سزائیں بھی دیں، مگر تاریخ میں کسی اخبار کا وجود نہیں ملتا۔
برصغیر میں صحافت کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں شروع ہوا۔ اسی دور میں اخبارات کے بیانیہ کی تبدیلی کے لیے صحافیوں پر دباؤ شروع ہوا۔ صحافیوں پر دباؤ کے طریقے تبدیل ہورہے ہیں مگریہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں کلکتہ میں 1780ء میں کمپنی کے سابق ملازم جیمس اگست ہکی نے پہلا اخبار ہکی گزٹ جاری کیا مگر ہکی کو گرفتار کیا گیا۔ کلکتہ کی عدالت نے ہکی کو جیل بھیج دیا اور اخبار بند کردیا۔
1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برطانوی ہند حکومت نے الزام لگایا کہ یہ جنگ آزادی اخباروں اور محلاتی سازش تھی۔ انگریز حکومت نے تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر صادق الاخبار جس کے ایڈیٹر سید جمیل الدین اور دہلی میں اردو اخبار جس کے ایڈیٹر مولوی باقر تھے پر پابندی لگادی اور بغیر مقدمہ چلائے مولانا باقر کو پھانسی دیدی گئی۔ انگریز حکومت 19ویں صدی کے آخری عشرہ میں عوام میں شعور پیدا کرنے والے اخبارات مولانا عبدالکلام آزاد کے اخبار الہلال اور البلاغ اور مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ہمدرد پر پابندی لگادی۔
اکیسویں صدی کے آغاز پر مولانا محمد علی جوہر کے انگریزی اخبار کامریڈ، ظفر علی خان کا اخبار زمیندار اور مولانا حسرت موہانی کا اخبار اردو معلیٰ پر پابندی عائد کردی گئی اور ان کے ایڈیٹروں مولانا عبدالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان اور حسرت موہانی کو پابند سلاسل کیا گیا اور مدیران کو برسوں قید کی سزائیں کاٹنی پڑیں۔ ضمیر نیازی کی کتاب صحافت پابند سلاسل کے مطابق 1935ء میں 109 اخبار نویسوں اور 98 پرنٹنگ پریسوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ہندوستان کے امور کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے برطانوی دار العلوم میں بیان دیا کہ 45 اخبارات کو اپنی اشاعت بند کرنی پڑی کیونکہ وہ زر ضمانت جمع کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔
ایک سال بعد 72 اخبارات سے ایک لاکھ روپے کی ضمانتیں طلب کی گئیں، صرف 15 اخبار رقم جمع کراسکے۔ صحافتی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ 1907ء میں الہٰ آباد سے ہفتہ وار اخبار سوراجیہ شایع ہوا۔ اس اخبار کی مدت اشاعت محض ڈھائی سال تھی۔ اس کے چار ایڈیٹروں کو باغیانہ اداریہ یا نظمیں شایع کرنے کی پاداش میں حبس دوام با عبور دریائے شور کی سزا ہوئی۔ دو ایڈیٹروں سدھارام کپور اور نند گوپال کو تیس تیس سال کی قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ باجو رام کو 2سال اور ہونی رام کو 10 سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ اخبار کے بانی ایڈیٹر شانتی نرائن بھٹناگر کو ساڑھے تین سال کی سزا ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ سوراجیہ اخبار ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا ایک طرح سے ترجمان تھا۔
اس کے صرف 13 شمارے شایع ہوئے اور ہر شمارہ پر کسی نئے مدیر کا نام ہوتا تھا۔ اخبار کے 10 ایڈیٹر مقرر ہوئے، ہر ایڈیٹر کو گرفتار کر کے جزائر انڈمان بھیج دیا گیا، یعنی عمر قید کی سزا د ی گئی۔ ہندوستان کے معروف اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر ہرمین کو 1919ء میں ہندوستان بدر کیا گیا تو بیرسٹر محمد علی جناح اور ان کی اہلیہ رتی جناح نے بمبئی میں آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے احتجاجی جلسہ میں شرکت کی، یہ رتی جناح کی پہلی سیاسی سرگرمی تھی۔ 1947 میں ہندوستان تقسیم ہوا۔ ایک حصہ بھارت اور دوسرا حصہ پاکستان وجود میں آیا۔ مگر نئے ملک میں اخبارات کے بیانیہ پر کنٹرول کی کوشش ناکام ہوئی۔
محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں اپنی پالیسی تقریرمیں نئی ریاست کے جمہوری خدوخال پر روشنی ڈالی۔ بیرسٹر جناح نے اپنی تقریر میں نئی ریاست کے سیکولر کردار پر روشنی ڈالی۔ بیوروکریسی نے ان کی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی جو روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کی کوشش پر ناکام ہوئی۔ فیض احمد فیض کو ایک خبر کی اشاعت پر گرفتار کیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں آزاد اخبارات کے ادارہ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کیاگیا۔
کئی مدیر جن میں مظہر علی خان، احمد ندیم قاسمی اور سبط حسن شامل تھے بے روزگار کر دیے گئے۔ اس دور میں ایڈیٹروں کی گرفتاری اخبارات کی بندش اور سیاہ قوانین کے تحت اخبارات کے بیانیہ کو تبدیل کرنے کے لیے حکومتی کارروائیاں جاری رہیں۔ جنرل یحییٰ خان کا دور صحافیوں اور اخبارات کے لیے برا دور رہا۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی کارروائی آشکار کرنے پر نجی اﷲ، عبداﷲ ملک جیسے صحافیوں کو سزا ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں 1973ء کا آئین متفقہ طور پر نافذ ہوا۔ اس آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادئ صحافت کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا مگر اخبارات پر قدغن عائد رہیں۔ کئی صحافیوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور بہت سے اخبارات پر قدغن لگائی گئی، جنرل ضیاء الحق کا ایک سیاہ دور آیا، اس دور میں صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، فوجی عدالتوں سے سزائیں دی گئیں۔ بہت سے صحافیوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
سرد جنگ ختم ہوئی۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی اہمیت کو محسوس کیا جانے لگا۔ شہریوں کے جاننے کے حق Right to know کو قانونی تحفظ دینے کے لیے قوانین کی تیاری شروع ہوئی۔ 1988ء سے 1999ء کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتیں برسر اقتدار آئیں۔ حکومت نے آزاد میڈیا کے کردار کو تسلیم کرنا شرو ع کیا مگر نائن الیون کے بعد Non State Actors کا کردا رابھرا۔ ان انتہا پسندوں نے صحافیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، یوں پاکستان میں 150 کے قریب صحافی جاں بحق ہوئے۔
تحریک انصاف نے گزشتہ کئی برسوں سے اپنے منشور میں آزادئ صحافت کے تحفظ کو نمایاں جگہ دی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان اور ڈاکٹر عارف علوی گزشتہ 20برسوں میں آزادئ صحافت کے تحفظ کی ہر تحریک کی حمایت کرتے رہے۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی تو بعض من چلوں کو امید پیدا ہوچکی تھی کہ عمران خان آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے بنیادی اقدامات کریں گے، مگر گزشتہ ہفتہ اسلام آباد میں ہونے والے واقعہ اور دیگر باتوں سے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم مغل دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔