ڈاکٹر عمارجان تاریخ کے استاد ہیں۔ تاریخ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ ڈاکٹر عمارکو برطانیہ اور یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں کی ملازمت کی پیشکشیں موجود تھیں، مگر وہ نوجوانی میں عظیم فلسفی کارل مارکس کے نظریات کے اسیر ہو چکے تھے۔ پاکستان کے مظلوم طبقات کی زندگیوں کو بدلنے اور استحصال سے پاک معاشرہ کے لیے جدوجہد کا عزم رکھتے ہیں، یوں وہ پاکستان واپس آگئے۔
انھیں پہلے پنجاب یونیورسٹی میں تدریس کا موقع ملا۔ ڈاکٹر عمار سائنسی ذہن کے مالک ہیں۔ وہ صرف تاریخ پڑھنے پر یقین نہیں رکھتے اور سماج کی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کے امین ہیں۔ ڈاکٹر عمار کا خاندان پنجاب کا ایک ترقی پسند خاندان ہے۔ ان کے والد پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں اور والدہ باشعور سیاسی کارکن ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی اہلیہ کا تعلق امریکا سے ہے مگر دونوں میاں بیوی استحصال سے پاک معاشرہ کی جدوجہد کے لیے یک سو ہیں۔
ڈاکٹر عمار جب پاکستان آئے تو وہ ایک نئی ڈاکٹرائن کے ساتھ آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ترقی پسندوں کے چند گروپوں کی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے اور معاشرہ کے ہر سیکشن کو غریب طبقات کی جدوجہد میں کردار ادا کرنے کے لیے متحرک کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عمارکے والدین کا لاہور میں ایک بڑا گھر ہے مگر عمار نے لاہور کے علاقہ میں ایک چھوٹا سا گھر اپنے لیے مختص کیا، یہ گھر ایک طرح کا دانش کدہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم H.R.C.P کے سندھ کے نائب صدر قاضی خضر حبیب کا کہنا ہے کہ اس گھر میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کے ساتھ مزدور کارکن، نوجوان، طالب علم، خواتین، دانشور، ادیب اور کسان سب جمع ہوتے ہیں، یوں روایتی اور غیر روایتی محلوں میں سائنسی علم کی مختلف جہد پر بحث و مباحثہ رہتا ہے، اس طرح غریب مزدوروں، کسانوں اور شہر کے غریب نوجوانوں کو نئے خیالات کو سننے اور ان خیالات پر تنقیدی بحث کو سننے اور سوالات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ شاید ڈاکٹر عمار کا گھر پاکستان میں ایک منفرد مثال ہے جب ڈاکٹر عمار برطانیہ میں زیر تعلیم تھے تو انھوں نے یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے کردار کا مطالعہ کیا تھا۔ برطانیہ میں طالب علموں کی تربیت اور ان کی بہبود کے لیے طلبہ یونین کا اہم کردار ہے۔
پاکستان میں 1984 سے طلبہ یونین کے ادارہ پر پابندی ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے طلبہ کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا، عمار اور ان کے ساتھیوں نے ملک بھر میں طلبہ یونین کی بحالی اور مسائل پر متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا، یہ ایک مشکل کام تھا۔ 1984 کے بعد تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبہ، طلبہ یونین کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔ بیشتر طلبہ، اساتذہ، سیاسی تجزیہ نگار، طلبہ یونین اور طلبہ یونین میں فرق محسوس نہیں کرتے، یوں عمار اور ان کے ساتھیوں کی کوشش رنگ لائیں۔ گزشتہ سال پورے ملک میں طلبہ متحرک ہوئے۔
27 مئی کو لاہور سمیت ملک بھر میں طلبہ نے اپنے اس مطالبہ پر رائے عامہ کو ہموارکرنے کے لیے جلوس نکالے۔ ان جلوسوں میں سول سوسائٹی کے کارکنوں کے علاوہ بائیں بازو کے سیاسی رہنماؤں نے بھرپور شرکت کی۔ پہلی دفعہ طلبہ یونین کی بحالی کا مسئلہ قومی میڈیا کے ایجنڈا میں سرفہرست ہوا۔ اس مارچ کا اثر یہ ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبہ کی حمایت کی۔
سندھ کی حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے سندھ اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جو ابھی تک تعلیم کی سلیکٹ کمیٹی کے زیرِ غور ہے۔ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ بھی اس تحریک میں شریک ہوئی مگر سندھ کے علاوہ وفاق اور باقی تینوں صوبوں میں طلبہ یونین کی بحالی پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر عمار اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں سے اس سال 27 نومبر کو ملک کے 26 شہروں میں طلبہ نے جلوس نکالے۔ ڈاکٹر عمار نے اپنی سرگرمیاں صرف طلبہ میں شعور پھیلانے تک محدود نہیں رکھیں بلکہ مزدوروں اور کسانوں کو منظم کرنے کو اپنے ایجنڈا کا حصہ بنایا۔
ڈاکٹر عمار، ملک کے مختلف علاقوں میں چلنے والی مزاحمتی تحریکوں کو فعال بنانے والے کارکنوں کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار اور ان کے ساتھیوں نے سیکڑوں خاندانوں کو COVID کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤن میں بنیادی اشیاء کی فراہمی کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ ڈاکٹر عمار کو اپنے ضمیرکے مطابق عمل کرنے کی سزا ملنا شروع ہو گئی۔ عمار جان کی سرگرمیوں کو امن و امان کے لیے خطرہ جانتے ہوئے انھیں ایک ماہ کے لیے امن و امان کے قانون کے تحت نظربند کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
برصغیر میں شہری آزادیوں کو کچلنے کے لیے امتناعی قوانین کے اجراء کا سلسلہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے شروع ہوا۔ ایک انقلابی رہنما ڈاکٹر زیڈ احمد (زین العابدین احمد ) نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ 30ء کی دہائی میں ڈاکٹر زیڈ احمد، سجاد ظہیر، محمود نظیر اور ڈاکٹر اشرف لندن میں زیر تعلیم تھے۔ یہ طالب علم مولانا محمد علی جوہرکے گھر میں رہا کرتے تھے۔ یہ نوجوان لندن میں کارل مارکس کے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کام کرنے لگے۔ برطانیہ کی کمیونسٹ پارٹی ہندوستان کی آزادی کی حمایت کرتی تھی، جب ان نوجوانوں نے وقت پر تعلیم مکمل کی اور ڈاکٹر زیڈ احمد اور ڈاکٹر اشرف نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ معروف ادیب سجاد ظہیر نے بیرسٹری کی سند حاصل کی۔
صاحبزادہ محمود الظفرنے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حاصل کی مگر جب ان نوجوانوں کے لیے برطانیہ میں کام کے بہت مواقع تھے مگر ان لوگوں نے ہندوستان جانا ضروری سمجھا۔ ڈاکٹر زیڈ اے لکھتے ہیں کہ جب وہ بحری جہاز سے بمبئی پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ پولیس کے اہلکار گرفتاری کے وارنٹ لیے انھیں تلاش کر رہے ہیں، یوں ان لوگوں کو طویل عرصہ زیر زمین گزارنا پڑا۔ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی۔
سجاد ظہیرکے سپرد پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کو منظم کرنے کا فریضہ ہوا۔ ڈاکٹر زیڈ احمد اور ڈاکٹر اشرف نے بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ نئی ریاست جس کے قائد بیرسٹر محمد علی جناح بنیادی انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ جب سجاد ظہیر، ڈاکٹر زیڈ احمد اور ڈاکٹر اشرف پاکستان آئے تو انھیں بتایا گیا کہ کراچی کی حکومت نے ان افراد کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہوئے ہیں، یوں پہلے ڈاکٹر زیڈ احمد اور ڈاکٹر اشرف مسلسل زیر زمین رہنے کے بعد ملک سے چلے گئے، سجاد ظہیر گرفتار ہوئے۔
راولپنڈی سازش کیس میں چار سال جیلوں میں مقید رہے، پھر 1954 میں بھارت چلے گئے۔ نئی ریاست نے یہ سلوک صرف سجاد ظہیر، ڈاکٹر زیڈ احمد اور ڈاکٹر اشرف کے ساتھ ہی نہیں کیا بلکہ مسلم لیگ کی حکومت نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے خان عبدالغفار خان، عبدالحمید اچکزئی، غوث بخش بزنجو اور پاکستان کی حمایت کرنے والے میاں افتخار الدین، جی ایم سید اور حسین شہید سہروردی سمیت سیکڑوں کارکنوں کے ساتھ یہ سلوک کیا۔
جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی حکومتوں نے مخالفین کو پابند سلاسل کرنے کے لیے امن و امان کے قانون کو بھرپور طور پر استعمال کیا۔ ایوب خان، یحییٰ خان اور بھٹو حکومتوں نے ڈیفنس آف پاکستان رولز (D.P.R) کے ذریعہ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، طلبہ، مزدور، کسان رہنماؤں، خواتین کارکنوں کو قید کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے مقاصد کے لیے مارشل لاء ریگولیشنز کو استعمال کیا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجونے شہری آزادیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ بینظیر بھٹوکی دونوں حکومتوں اور میاں نواز شریف کی حکومتوں نے اس امتناعی قانون کو استعمال نہیں کیا، جنرل پرویز مشرف کے دور میں 9/11 کے بعد یہ قانون استعمال ہوا، یوں 2008سے 2018 تک یہ روایت مستحکم ہوئی کہ کسی فردکو اس نو آبادیاتی قانون کے تحت اس کی آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت کے اس اقدام سے واضح ہوتا ہے کہ پنجاب کی حکومت نو آبادیاتی دورکے ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔