چارلس ڈارون نے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا۔ ڈارون بنیادی طور پر جیولوجسٹ Geologist تھے مگر اپنی تحقیق کی بنیاد پر وہ نیچرلسٹNaturalist اور بائیولوجسٹ Biologist بھی کہلائے۔
ان کی انسان کے ارتقاء کے بارے میں تحقیق نے طبعی سائنس میں تحقیق کی نئی راہیں کھول دیں اور بائیولوجیکل سائنس کے بین الاقوامی شہرت یافتہ اساتذہ کا کہنا ہے کہ طبعی سائنس میں تحقیق کی بنیاد ڈارون کے نظریہ پر ہے۔ کورونا وائرس پر تحقیق کی بنیاد بھی ڈارون کے نظریہ پر ہے۔ ڈارون نے 200 سال قبل کہا تھا کہ دنیا میں زندگی کا آغاز Prepurposed اور Performed سے نہیں ہوا تھا۔
اس بناء پر جرثوماMicrbe مختلف ماحول میں ارتقاء پذیر ہوتے ہیں اور ماحول کو اپنالیتے ہیں۔ وہ زندہ رہتے ہیں اور جو ماحول کے ساتھ مناسبت پیدا نہیں کرپاتے وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ زندگی اور مالیکیول Molecule اچانک پیدا ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس بھی ایک مالیکیول ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جانوروں اور انسان کے سیل میں داخل ہوجاتا ہے اور پھر اپنے ہدف کو ختم کردیتا ہے۔ اس مالیکیول نے چین کے شہر ووہان میں اثر دکھایا۔
گزشتہ سال کے آخر میں ووہان کے شہری وائرس سے متاثر ہونے لگے۔ ایک چینی ڈاکٹر نے سب سے پہلے اس وائرس کے نقصان کو محسوس کیا۔ اس نے حکومت کی توجہ اس معاملہ کی طرف مبذول کرائی۔ ووہان کی پولیس نے عوام میں خوف پھیلانے پر اسے گرفتار کیا اور یہ ڈاکٹر قید ہوا اور وائرس کا شکار ہوگیا۔ چین سے کچھ طلبہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قم گئے، یوں وہاں وائرس پھیلنا شروع ہوا۔ ایران میں اس وقت انتخابات ہورہے تھے۔ یوں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں ہوئے، ایران میں ہزاروں زائرین اس وائرس سے متاثر ہوئے، ان زائرین میں کئی ہزار پاکستانی شامل تھے، یہ پاکستانی زائرین سرحد پار کر کے تفتان آئے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے صورتحال کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا، یوں سیکڑوں افراد کو قرنطینہ کے نام پر ایک ساتھ رکھا گیا جس کی بناء پر مزید لوگ اس وائرس کا شکار ہوئے۔ رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہوتا ہے، اس اجتماع میں ہزاروں پاکستانیوں کے علاوہ مختلف ممالک سے وفود بھی آتے ہیں۔ یوں ان سے بھی کورونا وائرس پاکستان میں داخل ہوا۔ حکومت پاکستان سے ملک کے مختلف ایئرپورٹ پر غیر ممالک سے آنے والے مسافروں کی اسکیننگ پر توجہ نہیں دی گئی جس کی بناء پر جدہ اور دیگر ممالک سے آنے والے مسافر کورونا وائرس کے کیریئر بن گئے۔
سندھ حکومت نے سب سے پہلے صورتحال کا ادراک کیا اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا۔ مگر وفاقی حکومت فیصلہ کرنے کی عدم صلاحیت کا شکار ہوگئی۔ ریل، بسوں اور ہوائی جہازوں سے مسافروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔ کورونا وائرس میں کراچی کے علاوہ حیدرآباد، نواب شاہ، میرپور خاص اور سکھر تک پہنچ گیا۔ وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاؤن اور کرفیو کے فرق کو سمجھاتے رہے، کبھی لاک ڈائون کی ضرورت بیان کرتے رہے اور لاک ڈاؤن کے نقصانات بیان کرتے رہے۔ حکومت پنجاب اورخیبر پختون خوا کی حکومتوں نے دیر سے اقدامات کیے۔
صدر عارف علوی نے مساجد میں اجتماع کو روکنے کے بارے میں جامعہ الازہر کے علماء سے فتویٰ حاصل کیا۔ اس فتویٰ کو سعودی عرب، مصر، ترکی اور ملائیشیا سمیت تمام ممالک کے علماء نے تسلیم کیا۔ پاکستان میں متعدد علما اور اسکالرز نے اس کے حق میں رائے دی لیکن پھر بھی کچھ علما اور حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔ حکومت سندھ نے 3 اپریل کو جمعہ کی نماز میں اجتماع کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جس پر لیاقت آباد میں ایک امام کے اکسانے پر ہجوم نے پولیس والوں پر حملہ کیا۔
ایک پڑوسی نے ان پولیس والوں کو گھر میں پناہ دے کر جان بچائی۔ پولیس نے مقدمہ درج کیا تو مطالبہ ہونے لگا کہ یہ مقدمہ خارج کیا جائے۔ 10 اپریل کو خاتون پولیس افسر شرافت خان جو فرنٹیئر کالونی تھانہ کی انچارج ہیں نے جمعہ کو مسجد میں جمع ہونے والے ہجوم کو منتشر ہونے کو کہا تو ان پر پتھرائو ہوا اور وہ زخمی ہوگئیں۔
ٹی وی چینلز کے پنجاب اورخیبر پختون خوا کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان صوبوں میں جمعہ کو مختلف شہروں میں لاک ڈائون پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پہلے پرویز الٰہی پھر چوہدری شجاعت حسین تبلیغی جماعت والوں کی حمایت میں سامنے آئے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی پیچھے نہ رہے۔ وہ تین مہینے لندن میں قیام کے دوران وہاں کی صورتحال سے سیکھ نہ پائے یا سیاسی فائدہ کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے والی انتظامیہ کے اقدامات کی مذمت کردی۔ اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپریل کے دوسرے ہفتہ میں کورونا سے متاثر ہ مریضوں کی تعداد بھی بڑھی اور اس مرض سے مرنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مسلسل اس خدشہ کا اظہار کررہے تھے کہ اپریل کے وسط سے مریضوں کی تعداد بڑھ جائے گی مگر وفاقی حکومت نے اس اہم مسئلہ پر توجہ نہ دی، حتیٰ کہ ڈاکٹروں کے عملے کو بنیادی حفاظتی سامان پہنچانے کا بھی انتظام نہیں کیا گیا۔ بلوچستان کے ڈاکٹر جب مایوس ہو کر سڑکوں پرآگئے تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال کے حکم پر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ وزیر اعظم اس معاملہ میں صرف افسوس کا اظہار کرسکے۔
اب تازہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اوسطاً دنیا کے دیگر ممالک سے زیادہ ہوگئی ہے، اگر پورے ملک میں لاک ڈاؤن پر سختی سے عملدرآمد نہ ہوا تو ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ پاکستان میں مرنے والوں کی تعداد اٹلی اور امریکاسے زیادہ ہوجائے گی مگر وفاقی وزراء آج بھی متضاد باتیں کررہے ہیں۔ کبھی سندھ حکومت پر کراچی کو بند کر کے معیشت کو کمزور کر نے کا الزام لگایا جارہا ہے، کبھی سندھ کے گورنر لاک ڈاؤن کے خاتمہ کی باتیں کررہے ہیں۔ ریاستی سطح پر لاک ڈاؤن کے خلاف رجعت پسند رویہ کی پشت پناہی ہورہی ہے۔ وزیر اعظم مسلسل لاک ڈاؤن کے بارے میں کنفیوژ مؤقف اختیار کر کے خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ کسی وزیر نے لاک ڈاؤن کے نفاذ کو یقینی بنانے والے انتظامی اور پولیس افسران پر حملے کی مذمت نہیں کی۔
چین نے سائنسی طریقہ پر 67 دن تک ووہان کو لاک ڈاؤن کرنے کے بعد اب شہر کو کھول دیا ہے۔ چین نے یہ کامیابی لاک ڈاؤن کے ذریعہ حاصل کی۔ معروف دانشور پروفیسر مبارک حیدر نے اپنی کتاب مغالطے مالغے میں لکھا ہے کہ جانور کی حیات اور انسان کی ذہانت کا فرق اس صلاحیت کے ہونے نہ ہونے سے واضح ہوتا ہے۔ دیوار پر کیڑے کا بار بار چڑھنا، گرنا اور پھر چڑھنا ثابت قدمی کی مثال کے طور پر صدیوں سے بیان ہوتا رہا ہے۔ لیکن انسان کی ثابت قدمی کا اظہار بالکل ہوبہو اس طرح نہیں ہوتا۔ مریخ پر بھیجی جانے والی خلائی گاڑی کو ہر ناکامی کے بعد پھر ویسا ہی نہیں بنایا جاتا نہ ہی ہر بار ہر عمل کو اسی طرح دہرایا جاتا ہے۔
حیوان اور انسان کے سیکھنے کا عمل اپنے بنیادی وصف کے اعتبار سے الگ ہے۔ حیوان ان گنت شکستوں کے بار بار عمل میں بس تھوڑا سا سیکھتا ہے۔ اس کا طرز عمل بدلتا ضرور ہے لیکن بہت اذیت ناک اور طویل دہرائیوں کے بعد انسانی ذہانت اس سے یکسر مختلف وصف ہے۔ یہ انسانی دماغ کی وہ صلاحیت ہے جس سے ہم حقیقی وقت میں حقیقت کی درست تصویر تیار کرتے ہیں۔ انسانی ذہانت ہی سائنس ہے۔ جن معاشروں میں سائنس کی بالادستی رہی وہ ترقی کررہے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ سائنسی طرز فکر سے دور ہے۔