بڈو اوربنڈل یہ دو جزائر پھر وفاق اور سندھ کے درمیان تنازعہ کا سبب بن گئے ہیں۔ کراچی کا سمندر ایک طرف بلوچستان اور دوسری طرف صوبہ سندھ کے شہروں ٹھٹہ، بدین اور کچھ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سمندر میں بہت سے جزائر ہیں۔ ان میں سے کچھ جزائر کی عمریں ہزار سال، کچھ کی صدیوں اور کچھ کی کئی برسوں پر مشتمل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کے اطراف میں 23 کے قریب بڑے جزائر ہیں۔ چھوٹے جزیروں کی تعداد خاصی ہے۔ بڈو اوربنڈل ڈیفنس کے ساحلی تفریحی مقام دو دریا سے چند سو کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، یوں یہ جزائر کاروباری اداروں اور بلڈرز کے لیے خاصی کشش کا باعث ہیں۔ مگر کراچی کے ماہی گیروں اور سمندری امور پر تحقیق کرنے والوں کے لیے اس کی خاص اہمیت ہے۔
ان جزائر پر مینگروز کے جنگلات ہیں۔ اسلام آبادکے بیوروکریٹس کے لیے یہ محض درختوں کے بے ہنگم جھنڈ ہیں مگر مینگروز کے جنگلات آبی مخلوق کی پیداوار اور ماحولیات کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ ان جنگلات میں اعلیٰ قسم کے جھینگے اور عالمی مارکٹ میں فروخت ہونے والی مچھلیاں انڈے دیتی ہیں، یوں یہ جزائر اور اس کے جنگل مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پ
ھر سمندر میں آنے والے طوفانوں، تباہی مچانے والی لہروں اور سمندر میں پیدا ہونے والے مدوجذر کو قابو کرنے میں ان مینگروز کے جنگلا ت کا اہم کردار ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کو بحیرہ ٔ عرب میں اٹھنے والے طوفانوں میں بچانے میں یہ درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
صدر عارف علوی نے گزشتہ دنوں پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس (Pakistan Islands Development Authority Ordinance) نافذ کیا۔ اس کے تحت سندھ اور بلوچستان کے تمام جزائر وفاقی حکومت کے کنٹرول میں چلے گئے، یوں بڈو اوربنڈل پر بھی وفاقی حکومت کا کنٹرول ہو گیا۔ صدر علوی نے اس آرڈیننس پر دستخط کرنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کو یہ مشورہ کیوں نہ دیا کہ اس قانون کے مسودہ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔
اس بارے میں کوئی وضاحت ریکارڈ پر دستیاب نہیں ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ان جزائر کے حوالے سے وفاقی حکومت پر سخت تنقید کی۔ پھر سمندری امور کے وفاقی وزیر علی زیدی نے سندھ حکومت کا چند ماہ قبل وفاقی حکومت کو بھیجا جانے والا خط سوشل میڈیا پر جاری کیا۔ اس خط میں حکومت سندھ کے متعلقہ افسر نے وفاقی حکومت کو ان جزائر کے بارے میں عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ (N.O.C) دیا تھا۔
اب حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے وضاحت کی ہے کہ حکومت سندھ نے یہ خط واپس لے لیا ہے۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ جب بڈو اور بنڈل آئی لینڈ کے حوالہ سے آرڈیننس آیا تو صدر علوی نے وزیر اعظم اور وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم سے رابطہ کیا۔
ان سے پوچھا کہ اس آرڈیننس میں ماحول کے حوالہ سے کچھ نہیں ہے تو وزیر قانون نے کہا کہ مینگروز پلانٹیشن کی جائے گی۔ صدر کا مؤقف ہے کہ آرٹیکل 172 کے تحت اگر کسی زمین کا کوئی مالک نہیں ہے تو وہ صوبہ کی ملکیت ہے مگر ان دو جزائر کے مالکان موجود ہیں۔ 1994 میں پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے اپنی اہلیہ کو 342 ایکڑ زمین مائننگ کے لیے دی۔ پھر سندھ بورڈ آف ریونیو نے اس زمین کو ہاؤسنگ انڈسٹرلائزیشن کمرشلائزیشن کے لیے کھول دیااور وہ زمین آج بھی پانی کے اندر ہے۔
1996 میں انھوں نے یہ زمین فروخت کر دی اور پھر معاملہ عدالت میں ہے۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور بحری امور کے وزیر علی زیدی کا کہنا ہے کہ جزائر پر قبضہ کا تاثر غلط ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سے مل کر تحفظات دور کریں گے۔ اسی صورتحال کی بناء پر حیدرآباد میں سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے ایک اجلاس میں الزام لگایا کہ حکومت سندھ نے خفیہ طور پر جولائی میں کراچی کے 2 جزائر کے لیے وفاق کو این او سی جاری کیا تھا، اب عوامی دباؤ پر یہ خط واپس لے لیا گیا ہے۔
ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کو اس بارے میں فوری قانون سازی کرنی چاہیے۔ اخبارات میں شایع ہونے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ان جزائر پر ایک شہر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تھا۔ مگر پرویز مشرف حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی یہ منصوبہ ختم ہوا۔ پھر حکومت سندھ نے 2013ء میں ان جزائر پر ایک شہر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی مگر عوامی احتجاج کے بعد یہ منصوبہ فائلوں میں محدود ہوگیا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1973کے آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت وفاق کو کسی صوبہ کی زمین اس کے N.O.C کے بغیر حاصل کرنے کا حق نہیں ہے۔ پھر اگر کوئی صوبہ تیار بھی ہو تو یہ معاملہ مشترکہ مفاد کونسل کے ایجنڈا میں شامل ہونا چاہیے اور وفاق اور صوبوں کے منتخب نمایندوں پر مشتمل یہ کونسل ہی ان جزائر کے بارے میں فیصلہ کی مجاز ہے۔
پھر معاملہ محض قانون موشگافیوں کا نہیں بلکہ ساحل سمندر پر آباد لاکھوں افراد کی زندگیوں کا ہے۔ ان جزائر پر اگر ہزاروں عمارتیں تعمیر ہوں گی تو اس کے ماحولیات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر علوی نے اپنے وزیر قانون سے یہ یقین دہانی حاصل کرلی کہ مینگروز کے فارم قائم کریں گی مگر انھوں نے سمندر کے امور کے ماہرین کی رائے نہیں لی کہ یہاں درختوں کے جھنڈ کا مستقبل کیا ہوگا۔ جھینگوں اور مچھلیوں کی افزائش متاثر ہوگی یا نہیں۔
کراچی کے ساحل کا شمار دنیا کے گندے ترین ساحلوں میں ہوتا ہے۔ سیکڑوں فیکٹریوں کا تیزابی فضلہ، انسانی آبادیوں سے آنے والے سیوریج کے پانی اور ساحل پر آنے والے سیاحوں کے پھینکے ہوئے ڈبوں، کین، ٹشو پیپر اور پلاسٹک کی اشیاء مچھلیوں کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کے ساحلی علاقہ میں مچھلیوں کی افزائش بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ اب ساحل کے قریب مچھلی دستیاب نہیں ہوتی۔ ماہی گیر ایک طرف ہیوی ٹرالرز کے جدید جالوں اور بھارت کی بحریہ کی چیرہ دستیوں سے پریشان رہتے ہیں تو دوسری طرف اب ماحولیات کی بناء پر ان کی روزی کم ہورہی ہے۔ مائی کلاچی سے دو دریا تک سمندر ی علاقہ کی ماحولیات پہلے ہی متاثر ہوچکی ہے۔ اس کا نتیجہ کراچی میں 27 اگست کو خوفناک بارش کے پانی کی پوش ایریا میں تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔ کراچی کے قدیم باشندے اور سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ کہتے ہیں کہ ہمالیہ کے دھانے سے نکلنے والے دریاؤں کا پانی ہزاروں سال سے بحیرۂ عرب سے گزرتا ہے۔ اس پانی میں مخصوص نوعیت کی ریت بہہ کر آتی ہے۔
اس ریت سے سمندر کے درمیان جزائر بنتے ہیں اور یہ جزائر مچھلیوں کی افزائش اور ماحولیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس بناء پر ان جزائر میں کمرشلائزیشن خطرناک ہے۔ بحیرۂ عرب کے امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان جزائر پر زوردار ہوائیں چلتی ہیں۔ ان جزائر پر پن چکی کا نظام قائم کرکے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہ بجلی کراچی میں بجلی کی قلت ختم کر سکتی ہے۔ پھر چھوٹے چھوٹے تفریحی مراکز قائم ہو سکتے ہیں۔ لہذا وفاق اور حکومت سندھ ساحلی علاقہ کو گندگی اور فضلہ سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کرے۔