مولانا فضل الرحمن حکومت مخالف محاذ کے واحد رہنما ہیں جو 2018کے انتخابات کے نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو گرانے کے مشن پر لگ گئے۔ پہلے انھوں نے مخالف جماعتوں کو تجویز دی کہ منتخب اراکین اسمبلی حلف نہ اٹھائیں اور اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائیں اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کی جائے۔
میاں نواز شریف اور آصف زرداری نے انھیں ٹھہرنے کا مشورہ دیا، پھرگزشتہ سال انھوں نے حکومت کے خاتمے کے لیے آزادی مارچ کا اعلان کیا۔ مولانا فضل الرحمن سخت سردی میں اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچے۔ کئی ہفتوں کے دھرنے کے بعد مولانا فضل الرحمن اور چوہدری پرویز الٰہی کی ملاقات ہوئی اور انھوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ دنوں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کے انعقاد کی گارنٹی دی گئی تھی مگر شاید مقتدرہ قوتیں اپنے وعدے کو بھول گئیں۔ جب میاں نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا تو تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ دھرنا چار حلقوں میں انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے مطالبہ کے لیے ہے مگر حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کئی ماہ تک جاری رہنے والے دھرنے میں اپنی تقاریر میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے، عوام سے حکومت کو ٹیکس نہ ادا کرنے اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی رقوم سرکاری چینل سے پاکستان نہ بھیجیں بلکہ حکومت کو ناکام بنانے کے لیے دیگر چینلز استعمال کریں۔ تحریک انصاف نے پورے ملک میں پہیہ جام کرنے کی اپیل کی تھی۔ صدر عارف علوی نے خود کراچی کی مرکزی شاہراہ شاہراہ فیصل پر رکاوٹیں کھڑی کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
دھرنے کے نتیجے میں آخرکار سپریم کورٹ کے کمیشن کے قیام پر اتفاق ہوا۔ اس عدالتی کمیشن نے 2013کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات مسترد کردیے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم وزیر فواد چوہدری نے مولانا فضل الرحمن کے بیان کو آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے کا اقرار کرنے پر مولانا فضل الرحمن کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔
اخبارات بینی کرنے والے بعض صاحبان کا خیال تھا کہ یہ محض فواد چوہدری کے ذہن کی اختراع ہے مگر پھر وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک بیان میں فواد چوہدری کے بیان کی توثیق کی اور کہا کہ مولانا فضل الرحمن یقینا غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں پر مقدمہ چلائے جانے کی تجویز پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مقدمہ چلے گا تو وہ کئی حقائق افشا کریں گے مگر فواد چوہدری اورعمران خان کے بیانات سے ایک طرف سیاسی محاذ پرگولہ باری کے لیے نیا محاذ کھل گیا تو دوسری طرف تاریخ کے نئے گوشے مل گئے۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999میں میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا اور ملک کا انتظام سنبھال لیا، آئین کو معطل کیا۔ پھر صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ایک ریفرنڈم کے ذریعے خود کو منتخب صدر قرار دلوایا۔ تحریک انصاف نے اس ریفرنڈم کی حمایت کی مگر 2003کے انتخابات میں عمران خان صدر پرویز مشرف کی حکومت کی مخالفت پرکمربستہ ہوگئے۔ جب جنرل مشرف نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معطل کیا تو عمران خان اس مہم کے سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی گئے تو جمعیت والوں نے ان پر تشدد کیا اور وکلاء نے مزاحمتی تحریک شروع کی تو تحریک انصاف نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔
جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی اور آئین کو ایک دفعہ پھر معطل کیا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔ عمران خان نے ایمرجنسی کے خلاف تحریک میں حصہ ڈالا۔ پرویز مشرف حکومت نے ڈیرہ غازی خان میں عمران خان کو گرفتار کیا اور کئی دنوں تک انھیں زندان خانے میں گزارنے پڑے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس نے ان کی گرفتاری کے لیے لاہور میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا، یہ وہ وقت تھا کہ ان کے والد سخت علیل تھے۔ عمران خان کا اسپورٹس مین ہونا کام آگیا۔
انھوں نے پولیس کو گرفتاری دینے کے بجائے مزاحمت کی اور دوڑ لگا دی۔ وہ پڑوسیوں کی دیوار پھلاند کر دور نکل گئے اور پنجاب پولیس کے جوان ان کا پیچھا نہیں کر پائے، مگر جب اس سال کے آغاز پر خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیا اور انھیں پھانسی کی سزا سنائی تو وفاقی کابینہ کے کئی وزراء چیخ پڑے۔ وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس داخل کرنے کا عندیہ دیا۔ فواد چوہدری نے فرمایا کہ پرویز مشرف غداری کے مرتکب نہیں ہوئے، ان کے خلاف اس مقدمہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عمران خان حکومت کا یہ نیا مؤقف تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے حیرت انگیز تھا۔
جن لوگوں نے برطانیہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جنرل کرامول کا شمار برطانیہ کے محسنوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے برطانیہ میں خانہ جنگی کے خاتمہ میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ فوج کو نئے طرز پر منظم کیا تھا۔ برطانیہ کے بلدیاتی نظام کا ابتدائی خاکہ کرامول نے تیار کیا تھا مگر جنرل کرامول نے پارلیمنٹ کو توڑ دیا تھا۔ یہ جرم برطانیہ میں جمہوریت کے خاتمے کے مترادف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل کرامول کو ان کی موت کے بعد پھانسی کی سزا دی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان جو ہمیشہ برطانیہ کی جمہوریت کی مثال دیتے ہیں برطانیہ کی جمہوریت کی تاریخ کا اتنا بڑا سبق بھول گئے۔
وہ مولانا فضل الرحمن پر وہی جرم عائد کر رہے ہیں جس کا مرتکب وہ خود ہوئے تھے۔ یوں ان کے چاہنے والوں کے ذہنوں میں ایک نئی الجھن پیدا ہوگئی۔ ابلاغیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری اور عمران خان کا مولانا فضل الرحمن کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ موجودہ صورتحال سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔ آئی ایم ایف سے نئے معاہدہ کے بعد حکومت بجلی، گیس اور پیٹرول پر سبسڈیز واپس لینے پر مجبور ہوگئی، یوں مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا۔ اس شوشہ کا مقصد مہنگائی کے مسئلہ سے توجہ اٹھانا ہے۔ ممکن ہے کہ ابلاغیات کے ماہرین کا یہ مفروضہ غلط ہو۔ موجودہ حکومت کے اکابرین کے ذہنوں میں یہ سب کچھ نہ ہو مگر اس مؤقف سے قیمتی سیاسی محاذ گرم ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کا نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنا اور حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف عدالتی کمیشن پر متفق ہوئی، اسی طرح مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا بھی آئینی اور قانونی طور پر کوئی جواز نہیں تھا۔ اس ملک میں سیاسی رہنماؤں کو ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کی روایت بہت پرانی ہے۔ مگر اس روایت سے ہمیشہ سیاست اور جمہوری نظام پر منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
آمریت کے دور میں عوام کی اسلام آباد کی حکومت سے دوری کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے رہنماؤں کی فریاد سننے کے بجائے غدار قرار دینے کا آسان راستہ اختیارکیا جاتا تھا۔ یہ تاریخ حسین شہید سہروردی سے شروع ہوتی ہے اور مولانا فضل الرحمن تک چلی آئی ہے۔ اب اس بات کو ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کا مؤقف غلط ہوسکتا ہے مگر انھیں غدار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا مکمل حق ہے۔ ہماری توجہ انتخابی اصلاحات کی طرف ہونی چاہیے تاکہ 2013کے انتخابات کے نتائج پرکوئی اعتراض نہ کرسکے۔