تحریک انصاف کی حکومت طلبہ یونین کی بحالی کے لیے تیار نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کی وفاقی اور وزارت تعلیم کی قائمہ کمیٹی کے گزشتہ ہفتہ ہونے والے اجلاس میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ طلبہ یونین کی بحالی کے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ یہ مسئلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں زیر غور ہوگا، اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ممکن ہے۔
وفاقی وزیر تعلیم نے اجلاس میں شریک قومی اسمبلی کے منتخب اراکین کو یہ بات نہیں بتائی کہ وفاقی کابینہ کب اس بارے میں غور و خوض کرے گی۔ شفقت محمود نے مزید کہا کہ طلبہ یونین کی بناء پر تعلیمی اداروں میں بد امنی پیدا ہوتی تھی۔ اس بارے میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر حضرات سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ گزشتہ ہفتہ مردان یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم مشال کی برسی تھی۔
یہاں کبھی طلبہ یونین قائم نہیں ہوئی تھی۔ ضیاء الحق نے 1977 میں اقتدار میں آتے ہی جمہوری اداروں کو ختم کرنا شروع کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلے 1973 کا آئین معطل کیا اور انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیے۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی، مزدور تنظیموں پر بندش عائد کی اور عوام کو اطلاعات حاصل کرنے کے حق سے محروم کرنے کے لیے اخبارات پر سنسرشپ عائد کردی اور مخالف اخبارات کو بند کردیا گیا۔
اندرون سندھ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بڑھ گیا تو اندرون سندھ کے کالجوں اور سندھ یونیورسٹی کے طلبہ یونین کو معطل کیا گیا۔ تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) نے 14 اگست 1983 کو 1973 کے آئین کی بحالی کے لیے تحریک شروع کی۔ یہ تحریک ملک بھر میں ایک سال تک چلتی رہی۔ جنرل ضیاء الحق کو اپنے اقتدارکے سمٹ جانے کا خطرہ بڑھا تو پھر 1984 میں ملک بھر میں طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس وقت ملک بھر میں طلبہ تنظیموں نے جن میں دائیں اور بائیں بازوکی تنظیمیں شامل تھیں، احتجاجی تحریک چلائی تھی۔
یہ تحریک ملک کے تمام شہروں میں زور و شور سے چلی مگر پھر اسلامی جمعیت طلبہ اس تحریک سے علیحدہ ہوگئی، یوں طلبہ کی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچا۔ دائیں بازوکی طلبہ تنظیموں کو کام کرنے کی آزاد ی ملی۔ اس دوران کلاشنکوف کلچر شہروں اور دیہات میں پھیل گیا اور کلاشنکوف اور بندوقوں کی گونج یونیورسٹیوں میں سنائی دی جانے لگی۔
1990 میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رکن نے طلبہ یونین پر پابندی کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ ابتدائی سماعت کے دوران عارضی حکم جاری کیا گیا جس کے تحت طلبہ یونین پر پابندی کے فیصلہ کو قانونی قرار دیا گیا مگر تفصیلی فیصلہ میں مناسب پابندیوں کے ساتھ طلبہ یونین پر پابندی ختم کر دی گئی۔ یہ گزشتہ صدی کا ایک اور المیہ ہے کہ کسی فرد نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی اور نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر حاصل بزنجو کا تعلق بائیں بازوکی طلبہ تحریک سے رہا ہے۔ جب رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین تھے تو حاصل بزنجو نے سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کے معاملہ پر بحث کا آغاز کیا۔
ایک موقعے پر معزز اٹارنی جنرل نے اس بحث کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس افضل ظلہ کے تفصیلی فیصلہ میں طلبہ یونین پر پابندی ختم کی گئی۔ معزز جج صاحب نے اس فیصلہ میں تحریرکیا تھا کہ مناسب پابندیوں کے ساتھ طلبہ یونین کا ادارہ بحال ہو سکتا ہے، یوں ایوان بالا یعنی سینیٹ نے طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد منظورکی مگر اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس قرارداد پر توجہ نہیں دی۔ بائیں بازوکی طلبہ تنظیموں کے اکابرین ہمیشہ سے اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ نوجوانوں کی تربیت کا سب سے اہم ادارہ طلبہ یونین ہے۔
یہ ادارہ طلبہ میں جمہوری رویہ کو تقویت دیتا ہے، بائیں بازو کی گیارہ سے زائد طلبہ تنظیموں نے طلبہ ایکشن کمیٹی قائم کی۔ اس ایکشن کمیٹی کو متحرک کرنے میں پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے بنیادی کردار ادا کیا، یوں پورے ملک میں طلبہ نے جلوس نکالے۔ اساتذہ، وکلاء، صحافیوں اور خواتین کی تنظیموں اور سیاسی کارکنوں نے ان جلوسوں میں شرکت کی روایتی ذرایع ابلاغ کے علاوہ سوشل میڈیا پر طلبہ یونین کی بحالی کے بیانیہ کو خوب کوریج ملی۔ بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے فوری طور پر طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اس بیانیہ کی گونج قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی گئی۔ اس پورے ماحول میں وزیر اعظم عمران خان بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کا عزم کیا۔
جب 2008میں پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا وعدہ کیا تھا مگر اس وقت کی وفاقی حکومت نے اپنے وزیر اعظم کے اعلان پر توجہ نہیں دی تھی۔ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کے اس ٹویٹ کو ان کی وفاقی حکومت نے توجہ کے قابل نہیں سمجھا مگر پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون کا مسودہ تیار کیا۔
یہ مسودہ سندھ اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل ہوا اور اسمبلی کے قوائد وضوابط کے تحت اس مسودہ کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور طلبہ ایکشن کمیٹی نے اس قانون کے مسودہ کو بہتر بنانے کے لیے دس سے زائد تجاویزتیارکیں۔ ان نکات میں تمام کالج اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے انتخابات کا انعقاد، کالج اور یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں طلبہ یونین کی نمایندگی اور طلبہ یونین کے لیے فنڈز مختص کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ مارچ میں COVID-19کی وباء کی بناء پر سب کچھ معطل ہوا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس معاملے کو پس پشت ڈال دیا۔ سندھ اسمبلی کی تعلیمی قائمہ کمیٹی کے ارکان نے طلبہ تنظیموں اور سول سوسائٹی کے اکابرین کی تجاویز کو سنا مگر بات آگے ہی نہ بڑھ سکی۔ سندھ حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ایک قانون کا مسودہ تیار کیا مگر وفاقی حکومت کے علاوہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔
1983 تک جو طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے وہ تو طلبہ یونین کے تجربہ سے گزرے اور وہ طلبہ یونین کے کلچر سے آگاہ تھے مگر 1984 سے 2019 تک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ یونینز کے تجربہ سے نہیں گزرے ہیں۔ ان میں سے بہت سے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں استاد بن گئے۔ اس عرصے کے دوران ان اساتذہ میں سے کچھ چیئرمین، ڈین اور حتیٰ کہ وائس چانسلر کے عہدہ تک پہنچ گئے۔
یہ لوگ طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم کے فرق کو محسوس نہیں کرتے، یہ حضرات جمہوری رویہ کے ارتقاء اور جمہوری نظام کی ریاست پر بالادستی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے اور ان میں سے بیشتر لوگ اس بات پر خوفزدہ ہیں کہ طلبہ یونین کی بحالی سے ان کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
1973 کے آئین کے تحت ہر شہری کو تنظیم سازی کی آزادی ہے، یوں طلبہ کو اپنی منتخب یونین بنانے کا حق ہے۔ طلبہ یونین کا منتخب ادارہ طلبہ میں جمہوری رویہ کا شعور پیدا کرتا ہے۔ طلبہ کو رائے عامہ کو اپنے حق میں کرنے کے طریقہ سیکھنے پڑتے ہیں۔ منتخب عہدیداروں کو انتظامی امورکا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کامیابی اور ناکامی کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ تقاریرکرنے، مخالف کے اعتراضات کے جوابات کو معتوب انداز میں دینے کی تربیت ہوتی ہے۔
طلبہ یونین کے ذریعے ہر دور میں منظم قیادت پیدا ہوئی ہے۔ طلبہ یونین کے عہدیدار آج بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں شامل ہیں اور ان رہنماؤں نے جمہوری نظام کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جمہوری نظام کو ختم کرنے والی طالع آزما قوتیں طلبہ یونین کی بحالی کی راہ میں حائل ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے۔