حزب اختلاف کی 11جماعتوں کے رہنما اتوار کو اسلام آباد میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے، یوں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ جمعیت علماء اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن نے 26 نکات پر مشتمل اعلامیہ جاری کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے آخری لمحات میں فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں لندن میں مقیم میاں نواز شریف کی دھواں دار تقریرکی گونج سرحدوں کے پارگئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی حوصلہ مندی اور شائستگی سے میزبانی کی۔
پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی تاریخ خاصی پرانی ہے، مگر ان اتحادوں کے فوری نتائج نہیں نکلے، کبھی نتائج نکلنے میں برسوں لگ گئے اور بعض متحدہ محاذ بکھر گئے۔ جنرل ایوب خان کے خلاف مخالف سیاسی جماعتوں نے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی (C.O.P) اتحاد قائم کیا تھا۔
اس اتحاد میں بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی، صوبوں کے حقوق کی علمبردار عوامی لیگ اور جماعت اسلامی سمیت جمہوریت کی بحالی پر یقین رکھنے والی جماعتیں شامل تھیں۔ اس اتحاد نے صدارتی انتخابات میں پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔
بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان نے قیام پاکستان سے پہلے بانی مسلم لیگ کی مخالفت کے مؤقف کو تبدیل کر کے فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی، یوں صدارتی انتخابات میں گھمسان کا رن پڑا۔ جنرل ایوب خان نے دھاندلی کے ذریعہ فاطمہ جناح کو شکست دیدی تھی مگر یہاں سے ایوب حکومت کے زوال کا آغاز ہوا تھا۔
دوسرا مشہور اتحاد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف 1977ء کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے قائم ہوا تھا۔ نوابزادہ نصر اﷲ خان، پروفیسر غفور اور شیرباز مزاری وغیرہ نے پی این اے کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مارچ 1977ء کے انتخابات کے نتائج کو پی این اے نے تسلیم نہیں کیا اور انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔
اس دوران نظام مصطفی کا نعرہ مقبول ہوا۔ جب 4 جولائی کو آدھی رات سے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کی قیادت کے درمیان معاہدہ ہوا تو ایک گھنٹہ بعد 5 جولائی کی رات کے آغاز کے کچھ دیر بعد ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ انھوں نے 90 دن میں عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا مگر یہ وعدہ کبھی وفا نہیں ہوا۔ بعد میں ملنے والے حقائق سے ظاہر ہوا کہ پی این اے کے بعض رہنماؤں کا ضیاء الحق سے رابطہ تھا اور انھیں ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کے منصوبے کا علم تھا۔
1980ء میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو، نوابزادہ نصر اﷲ خان اور اصغر خان نے تحریک بحالی جمہوریت (M.R.D) کے قیام کا فیصلہ کیا۔ ایم آر ڈی نے 14اگست 1973ء کے آئین کی بحالی کی تحریک شروع کی۔ یہ تحریک پورے ملک میں چلی۔ پنجاب سے ہزاروں سیاسی کارکن گرفتار ہوئے۔ اندرون سندھ عوام نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ اس تحریک کی بناء پر جنرل ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے، یوں ان کی رخصت کے دروازے کھل گئے۔ 1988ء میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے خلاف غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا۔
بعض غیر عسکری شخصیات نے بعد میں اقرارکیا کہ ان لوگوں نے اس اتحاد کے قیام کے لیے کوششیں کی تھی۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی مگر یہ تحریک ناکام ہوگئی تھی۔
بعد میں صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن نے ایئرمارشل اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال کے ساتھ مل کر پاکستان ڈیموکریٹک الائنز قائم کیا تھا مگر جب صدر غلام اسحاق اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھے اور غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تو پیپلز پارٹی اپنے اتحادی تحریک استقلال کو چھوڑ کر سردار بلخ شیر مزاری کی عبوری حکومت میں شامل ہوگئی۔ نوابزادہ نصر اﷲ خان نے جنرل مشرف حکومت کے خلاف اے آر ڈی قائم کی تھی۔ اس اتحاد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن شامل تھیں۔
پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے درمیان 2005ء میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر بنے تو ججوں کی بحالی پر اختلاف کی بناء پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا لندن میں ہونے والا معاہدہ ختم ہوگیا مگر دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے باوجود 18 ویں ترمیم پر اتفاق رائے کیا۔
اس ترمیم کی بناء پر صوبوں کو حقوق ملے، این ایف سی ایوارڈ کا نیا فارمولہ تیار ہوا اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا، یوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، مگر سپریم کورٹ نے پہلے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور پھر مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں منظم انداز میں دھاندلی ہوئی۔ اس دھاندلی کا آغاز پہلے بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی سے ہوا۔ سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی پارٹی کم ووٹوں کے باوجود کامیاب ہوئی۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انتخابات والے دن شام کو ریٹرننگ افسر کو نتائج فوری طور پر فراہم کرنے والا نظام معطل ہوا، یوں الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج مرتب کرنے میں کئی دن لگ گئے۔
جب 2018ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی تو قومی اسمبلی حکومت اور حزب اختلاف کے منتخب اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اس کمیٹی کو فعال ہونے نہیں دیا تو R.T.S کے نظام کی معطلی کی آزادانہ تحقیقات نہ ہوسکیں۔
حزب اختلاف کے رہنما اسی بنیاد پر تحریک انصاف کے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف لاہور سے اسلام آباد مارچ کیا تھا اورتقریباً چار مہینے تک پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا جاری رکھا تھا اور سپریم کورٹ کے جج کی قیادت میں اس معاملے کی تحقیقات کرنے پر آمادگی کی بناء پر دھرنا کے خاتمہ کا فیصلہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنی رپورٹ میں انتخابات میں دھاندلی کے الزام کو رد کر دیا تھا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں کی تقاریر اور 26 نکات پر مشتمل اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قائدین اس دفعہ تحریک منظم کرنے میں انتہائی سنجیدہ ہیں اور مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے قبل ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تاکہ تحریک انصاف سینیٹ میں اکثریت حاصل کر کے مضبوط حکومت کی شکل اختیار نہ کرسکے۔ ان 26نکات میں ایک اہم ٹروتھ کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔ یہ ٹروتھ کمیشن (انتخابی کمیشن) کا نظریہ جنوبی افریقہ کے عظیم صدر نیلسن منڈیلا نے پیش کیا تھا۔
انھوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ جن افراد نے نسلی امتیاز کے خلاف تاریخی جدوجہد کے دوران جرائم کیے ہیں وہ کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنی غلطیوں کا اقرارکریں۔ اس کمیشن کے سامنے سفید فام اہلکاروں کی اکثریت پیش ہوئی اور سیاہ فام افراد کے خلاف جرائم کا اقرار کیا تھا۔ پاکستان میں ایسے کمیشن کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے 18ویں ترمیم کے خاتمہ کی باتیں ہورہی ہیں۔ 18ویں ترمیم ملک کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ اس دفعہ سیاسی منظر نامہ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے واقعات سے مختلف ہے۔ نیب کے مولانا فضل الرحمن اور دیگر رہنماؤں کو ملنے والے نوٹسوں سے ثابت ہورہا ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل نہیں ہوا ہے۔
چوہدری پرویز الٰہی میاں نواز شریف پر تنقید کررہے ہیں مگر سب سے پہلے تو انھوں نے ہی اپنی جماعت کو چھوڑ جانے والے اور تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اراکین کا پس منظر بیان کیا تھا۔ اس کانفرنس میں میثاق جمہوریت کی طرح ایک نئے میثاق پاکستان کی ضرورت پر زور دیا گیا اور اس میثاق کی تیاری کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کا عندیہ دیا گیا۔
اس میثاق میں عبوری حکومت کی انتظامیہ پر گرفت اور اقتصادی امور پر میثاق کے علاوہ طلبہ یونین کی بحالی اور نچلی سطح تک بلدیاتی نظام کے قیام اور انتخابی اخلاقیات کا عہد نامہ شامل ہونا چاہیے تاکہ جمہوری ادارے ترتیب وار مکمل ہوں اور ترقی کا ثمر عوام تک پہنچے۔ ڈیموکریٹک موومنٹ نے پرامن قانونی جدوجہد کا عہد کیا ہے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ ہے۔
ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ حزب اختلاف وزیر اعظم عمران خان کو استعفیٰ پر مجبور کرے گی، مگر یہ حقیقت واضح ہے کہ اگر تمام جماعتیں ایک دوسرے سے مخلص رہیں اور طالع آزما قوتوں کی ڈکٹیشن قبول نہ کریں تو منزل بہت زیادہ دور نہیں۔