آلات پیداوار کی تبدیلی سے معاشرے تبدیل ہوتے ہیں۔ بھاپ کے انجن کی ایجاد نے یورپ میں تبدیلی کا آغاز کیا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے ابلاغِ عامہ Mass Communicationکا تصور واضح ہوا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اورہالینڈ وغیرہ میں صنعتیں لگنی شروع ہوئیں۔ کسانوں نے دیہاتوں سے فرار ہو کر کارخانوں میں کام کرنا شروع کیا۔
ایسی ہی صورتحال امریکا میں بھی ہوئی۔ اب صنعتیں لگنے سے نئے شہر آباد ہوئے۔ تعلیم عام ہوئی اور مزدور طبقہ وجود میں آیا۔ تعلیم اور سائنس سے تعلق کی بناء پر مزدور طبقہ کسانوں سے زیادہ باشعور تھا مگر سرمایہ داروں کے پاس مزدوروں سے مسلسل کام اور انتہائی کم اجرت دینے کے علاوہ کوئی اور تصور نہیں تھا۔ اب سرمایہ داری نئی منڈیاں تلاش کررہی تھی۔ یورپی ممالک افریقہ اور ایشیائی ممالک کو اپنی نوآبادیات میں تبدیل کررہے تھے، مگر سرمایہ دار مزدوروں کو کچھ دینے کو تیار نہیں تھے۔ مزدوروں میں تنظیم سازی کا شعور پیدا ہوا اور مزدوروں نے منظم جدوجہد کا راستہ تلاش کرلیا۔ شکاگو کے مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام کے اصول کو منوانے کے لیے تاریخی جدوجہد شروع کی مگر سرمایہ دار مزدوروں کے خون کو نچوڑنے کے فلسفہ کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کے بنیادی زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کرنے پر یہ سرمایہ دار کسی صورت تیار نہیں تھے۔
شکاگو کے مزدوروں نے اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے ہڑتال کا ہتھیار استعمال کیا۔ مزدوروں نے جلوس نکالا، سرمایہ داروں کی متوالی حکومت کی پولیس نے اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ کئی مزدور شہید ہوئے۔ شکاگو کی عدالت نے مزدوروں کی تحریک کو منظم کرنے والے رہنماؤں کو پھانسی دی۔ ان رہنماؤں میں سے ایک نے پھانسی کے پھندہ پر کہا تھا کہ" تم ہمیں پھانسی دے سکتے ہو مگر ہماری آواز کو نہیں دبا سکتے" شکاگو کے مزدوروں کی قربانی رائیگاں نہیں گئیں۔ امریکا میں آٹھ گھنٹے کام اور ہفتہ میں ایک چھٹی کا قانون نافذ ہوا۔ یورپی ممالک نے اس بنیادی حق کو تسلیم کیا، مگر تنخواہوں، مراعات اور ریاست کی بنیادی ذمے داریوں کے بارے میں سرمایہ دار ریاستیں خاموش رہیں۔
کال مارکس کے سوشل ازم نظریہ نے مزدور طبقہ کو ایک نئی قوت دی۔ 19ویں صدی اور 20ویں صدی میں مزدور طبقہ ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر کر آیا۔ روس میں لینن نے مزدوروں کی پہلی حکومت قائم کی اور سوویت یونین وجود میں آیا۔ سوویت یونین کے آئین میں ہر قسم کے استحصال پر پابندی عائد کردی گئی۔ ریاست نے تعلیم، صحت اور روزگار کو اپنی بنیادی ذمے داری قرار دیا۔
دنیا میں پہلی دفعہ سوویت یونین کے آئین میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے گئے۔ یورپی ممالک نے افریقہ اور ایشیائی ممالک کی نوآبادیات سے وسائل کی لوٹ مار کے ذریعہ اپنے اپنے ممالک کے انفرااسٹرکچر کو ترقی دی۔ برطانیہ نے سوشلسٹ انقلاب کوروکنے کے لیے سوشل سیکیورٹی نافذ کیا۔ اسکنڈی نیون ممالک پہلے ہی سوشل سیکیورٹی کے نظام کو اپنا چکے تھے۔ برصغیر میں بیرسٹر محمد علی جناح نے سب سے پہلے مزدوروں کے حقوق کے لیے قانون کی تیاری میں بنیادی کردار ادا کیا، پھر کئی اور قوانین نافذ ہوئے۔
پاکستان بننے کے بعد مزدوروں نے طویل جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں لیبر پالیسیاں نافذ ہوئیں۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں ایئر مارشل نور خان کی لیبر پالیسی سے مزدوروں کو بنیادی حقوق ملے۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں جامع لیبر پالیسی آئی مگر یہ سب کچھ مزدوروں کی تحریکوں کے دباؤ پر ہوا۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد دنیا تبدیل ہوئی۔ فری مارکیٹ اکانومی نے ہر محنت کش کو "جنس" بنادیا۔ تعلیم، صحت اور ہاؤسنگ ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل نہیں رہے۔ 90ء کی دہائی میں ٹھیکیداری نظام نافذ ہوا۔ Third Party Contract کے ذریعہ مزدوروں کو بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ یہ نظام صرف کارخانوں میں نہیں آیا بلکہ سروس فراہم کرنے والے اداروں مثلاً بینک، ٹرانسپورٹ، میڈیا، نجی شعبہ کے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی نافذ ہوا، یوں کسی بھی فرد کی ملازمت کی گارنٹی ختم ہوگئی۔ ایک عام مزدور سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہر قسم کی مراعات سے محروم ہوگیا۔
بدقسمتی سے گزشتہ صدی کے آخری عشرہ سے مزدور تحریک کمزور ہونا شروع ہوئی اور اس صدی میں یہ تحریک انتہائی کمزور ہوگئی۔ یوں سیاسی جماعتوں نے ہر انتخاب کے موقع پر اپنے منشور میں مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ اور مراعات بڑھانے کے وعدے کیے مگر اقتدار میں آنے کے بعد ان جماعتوں نے اپنے وعدؤں پر عملدرآمد نہیں کیا۔
کورونا وائرس نے دنیا کو ایک نئی صورتحال میں مبتلا کردیا۔ تمام ممالک کے پاس لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا۔ لاک ڈاؤن کے ذریعہ لوگوں کو اپنے گھروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ یوں کارخانہ یا بازار زندگی کا ہر شعبہ بند ہوگیا۔ روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدور کمانے سے گئے۔ نجی شعبہ میں کام کرنے والا ہر فرد عدم تحفظ کا شکار ہوا۔ کارخانوں اور دیگر اداروں نے اپنے عملے کی چھانٹی شروع کردی۔ صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ نجی شعبہ میں کام کرنے والے اسپتالوں نے پہلے ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کی تنخواہیں آدھی کیں اور پھر بہت سے افراد کو ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا۔
تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکسٹائل سمیت کئی شعبے بند ہوگئے ہیں اور لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ملک میں معیشت گزشتہ دو برسوں سے پہلے ہی شدید تر بحران کا شکار ہے اب بحران مزید شدید ہوگیا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس بحران کے نتیجہ میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد میں مزید لاکھوں افراد شامل ہوجائیں گے۔ خوراک کی عالمی تنظیم W.F.P کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا میں 135 ملین افراد خوراک کی کمی کا شکار ہوئے تھے۔ اب اگلے سال اس میں مزید 183 ملین افراد کا اضافہ ہوگا۔ عالمی اداروں کا تخمینہ ہے کہ پاکستان میں بھی یہ بحران شدید ہوگا۔ بھوک کے خاتمہ کے بحران سے بچنے کے لیے ریاست کی ہیت میں تبدیلی ضروری ہے۔ دنیا میں جو ریاستیں سوشل ویلفیئر اسٹیٹ ہیں ان کا اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات پورا کرنے کا انفرااسٹرکچر موجودہے۔
امریکا ایک سرمایہ دار ملک ہے جس میں صحت کا نظام انشورنس کمپنیوں کے ذریعہ چلتا ہے۔ امریکی حکومت جی ڈی پی کا 17 فیصد صحت کے لیے مختص کرتی ہے مگر یہ رقم انشورنس کمپنیوں کے پاس چلی جاتی ہے۔ عام آدمی کے لیے صحت کی سہولتوں کا حصول خاصا مشکل ہے۔ اس امریکی ریاست نے فیصلہ کیا کہ ہر امریکی شہری کو کم از کم 400 ڈالر رقم اس بناء پر ادا کی جائے گی کہ لاک ڈاؤن کی بناء پر اس کی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں اس رقم کی شرح مختلف رہی۔ ایسا ہی وظیفہ یورپی ممالک میں عوام کو دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ممالک اس بناء پر اپنے عوام کی مدد کے لیے آگئے آئے کہ ان ممالک کی سوشل ویلفیئر ریاستیں قائم ہیں۔ سوشل ویلفیئر ریاست میں بنیادی ترجیح عوام ہوتے ہیں۔ اس بناء پر عوام کی دادرسی کے لیے اقدامات ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں لاک ڈاؤن کے دوران کسی فردکے بھوک سے مرنے کا خدشہ پیدا نہیں ہوتا۔
پاکستان ایک نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ پاکستان میں عام آدمی ریاست کی بنیادی ترجیح نہیں ہے۔ پاکستانی ریاست عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کا حق دینے کی پابند نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں سخت لاک ڈاؤن اس لیے نافذ نہیں ہوسکتا کیونکہ ریاست ہر فرد کو کھانا نہیں فراہم کرسکتی۔ یہ بات اس بناء پر درست ہے کہ ہماری ریاست سوشل ویلفیئر ریاست نہیں ہے۔ اس سال کا یوم مئی یہ پیغام دے گیا ہے کہ پاکستان کو سوشل ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کے لیے جدوجہد تیز کی جائے تاکہ ریاست ہر شہری کو بنیادی سہولت فراہم کرے۔ چین نے ووہان میں اسی لیے کورونا پر قابو پایا کہ وہاں کی حکومت ہر فرد کی کفالت کرسکتی ہے۔ پاکستان اپنے بجٹ کا 70فیصد حصہ تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی اور وسائل کی ترقی پر خرچ کرے تو ایک دن یہ ملک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ میں تبدیل ہو جائے گا۔