دل کو بیمار کرنے والی بیماریوں کے کئی نام ہیں مگر ان میں ایک بیماری کا نام "بدگمانی" ہے۔ اس بیماری سے بہت خوف آتا ہے کیوں کہ یہ مرض مردوں اور خواتین میں برابر کی سطح پر پایا جاتا ہے البتہ خواتین اس مرض کے ہاتھوں اس قدر استعمال ہو جاتی ہیں کہ دل برباد ہو جاتے ہیں، گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ملکی سیاست میں بھی بد گمانی کا بڑا عمل دخل ہے، ملکی سیاست کا دوسرا نام چونکہ "بے ایمانی" سمجھا جاتاہے لہٰذا بے ایمانی کے سامنے تمام امراض حقیر ہیں۔ تمام نفسیاتی امراض کا"شیک" بنایا جائے تو پاکستان میں ایک سیاستدان تیار ہوتا ہے۔
سورۃ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے بچوکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اورتجسس نہ کرو"۔ بعض گمان اچھے ہوتے ہیں اور بعض برے جنہیں عرف عام میں بدگمانی کہا جاتا ہے۔ نیک گمان بندے کو اللہ سبحان تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں جبکہ برے گمان اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "میں تمہارے گمان کے مطابق ہوں "۔ اس گمان سے مراد ہے کہ بندہ اللہ کو جس صورت اور کیفیت میں محسوس کرتا ہے اللہ اس کے لئے ویسا ہی ہے۔ کوئی شخص یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ دل میں ہے تو اللہ اسے اپنی دھڑکنوں میں محسوس ہو تا ہے اور اگر کسی کا یہ گمان ہے کہ اللہ کعبہ میں ہے یا آسمانوں سے اوپر کسی اور جہان میں ہے تو اللہ اس کی محسوسات کے مطابق ہے۔
انسان سے اچھا گمان حسن ظن کہلاتا ہے۔ اللہ نے انسانوں کو ایکدوسرے سے حسن ظن کی تاکید فرمائی ہے۔ ایک شخص کا کردار برا ہے یا نقصان دہ ہے، اس کے بارے میں حسن ظن یا اچھی رائے قائم کرنا مشکل ہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ احتیاط اچھی چیز ہے۔ بنا ثبوت اور ٹھوس شواہد کے گمان کو گواہی نہ سمجھا جائے۔ ہمارے معاشرے میں گمان کی جو قسم عام پائی جاتی ہے وہ بلا سبب اور بلاجواز دوسروں کے بارے میں منفی رائے قائم کرنا ہے۔ بے بنیاد الزام تراشی ہے۔ بدگمانی ہے۔ مثال کے طور پر مسجد یا کسی محفل سے اٹھتے ہوئے اپنے جوتے کی بجائے کسی اور کا جوتا اٹھا لے اور اس کے بارے میں یہ رائے قائم کرلی جائے کہ اس نے جوتا چرانے کے لئے کسی اور کا جوتا اٹھایا ہے۔
دوران گفتگو فون بند ہو جائے تو گمان ہونے لگے کہ فون قصداً بند کیا گیا ہے۔ مذاقََا کوئی بات کہہ دی اور گمان ہو نے لگاکہ بات بطور طنز کہی گئی تھی یا کسی کے کہنے پر سنائی گئی۔ کسی سے اپنے بارے میں رائے سنی تو سمجھا کہ اسے فلاں نے اکسایا ہو گا یافلاں نے چغل خوری کی ہو گی یا فلاں اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے یا فلاں نے اس کی بچی کا رشتہ روکا ہے یا فلاں نے تعویذ کر رکھے ہیں یا فلاں نے شکایت لگائی ہے یا فلاں نے ملازمت سے نکلوایا ہے یا فلاں شرابی ہے فلاں زانی ہے فلاں حرام کماتا ہے فلاں عیاش ہے فلاں چور ہے فلاں جھوٹا ہے وغیرہ۔ روز مرہ بے شمار گمان حملہ آور ہوتے ہیں جو نہ صرف ایکدوسرے میں دوری کا سبب بنتے ہیں بلکہ کئی لوگوں کے دل اور گھر برباد کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
زبان کو فتنہ اسی لئے کہا گیا ہے کہ زبان سے نکلی بات تیر اور آگ کا کام کرتی ہے۔ زبان سے وہ برے الفاظ جس سے کسی کا نقصان مقصودنہیں گناہ نہیں مگر ایسے کلمات جو خواہ اچھے لفظوں میں کہے گئے ہوں مگر فتنہ یا فساد کا باعث بنیں قاتل کی تلوار سے بھی زیادہ تیز دھار ہوتے ہیں، اسی لئے کہا گیا ہے کہ کسی کے بارے میں رائے یا گواہی دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو۔ کسی کے خلاف بے بنیاد کلمہ ادا کر نا، تمام نیکیوں کو غارت کر سکتا ہے۔ حسد اور دشمنی بندے کو وحشی بنا سکتی ہے لہٰذا دل کو کدورتوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ برے گمان صرف سوچ تک محدود رہیں تو گناہ نہیں مگر جب زبان یا عمل سے ظاہرہو نے لگیں تو گناہ بن جاتے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بہت زیادہ گمان سے بچو یعنی گمان بری چیز نہیں مگر بد گمانی بری اور خطرناک چیز ہے۔ بدگمانی کبھی کبھار تہمت کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ کسی کے کردار کے بارے میں بدگمانی اور پھر اس پر بہتان تراشی سنگین گناہ ہے۔
ان تمام برایئوں کی جڑ حسد اور کینہ ہے۔ دوسروں کی زندگیوں کی کھوج لگانا یا معاملات کی ٹوہ رکھنا بھی بد گمانی کے سبب ہے۔ دوسروں کے عیب تلاش کرنا، خواہ بدگمانی کی بنا پر کیا جائے یا بد نیتی سے، گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرما ئی ہے کہ جو شخص دوسروں کے ذاتی معاملات یا کردار میں عیب تلاش کرتا ہے اسے پہلے اپنے گھر پر نظر ڈال لینی چاہئے۔ اپنے دامن کی گندگی دیکھ لینی چاہئے۔ ا پنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے۔ آپ ؐ نے فرمایا، جب کسی شخص کے بارے میں برا گمان ہو تو اس کی تحقیق نہ کرو،۔ یعنی ٹوہ لگانے کی جستجو سے بچو وگرنہ یہ ایک ایسی دلدل ہے جس سے باہر آنا مشکل ہے۔