ایک معروف وکیل خالد نواز گھمن لکھتے ہیں آج ایک کلائنٹ بیت المال پاکستان کے متعلق کیس ڈسکس کرنے آیا جس میں کچھ حقائق عیاں ہوئے کہ ہمارے پیارے پاکستان میں زکوٰۃ کی مد میں سالانہ تقریباً آٹھ ارب روپے کی گرانٹ آتی ہے جو کہ تقریباً پونے چھ ارب روپے بیت المال کے ملازمین کی تنخواہیں ہیں اور باقی رقم زکوٰۃ دی جاتی ہے۔
جن ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں ان میں چار چار لاکھ روپے ماہانہ والے افراد بھی ہیں جو تنخواہ کے ساتھ ساتھ قیمتی گاڑیاں، ان کے پٹرول، ڈرائیور، خدمت گزار وغیرہ بھی رکھتے ہیں۔ مطلب عام عوام کے بجائے اِن خواص کو زکوٰۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور میں حیران ہوں حکومت پاکستان میں جو جو لوگ آج تک آئے اور گئے کسی نے بھی محکمہ زکوٰۃ میں چیک اینڈ بیلنس کا مستقل نظام نہ بنایا؟
ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ویران جگہ سے گزرا تو اْس نے وہاں پہ ایک پانی کا مٹکا بھروا کر رکھ دیا کہ کوئی اور پیاسا پانی پی لے گا۔ وزیر صاحب نے وہاں پہ مٹکا بھرنے کے لئے ملازم مقرر کر دیا۔ وقت گزرا تو اْس مٹکے میں پانی بھرنے کے لئے دو ملازم رکھ لیئے گئے۔ پھر مٹکے کی حفاظت کے لئے ایک چوکیدار رکھ لیا۔ پھر انکی تنخواہ جاری کرنے کے لئے ایک اکاؤنٹنٹ رکھا گیا، اس طرح اس مٹکے کے لئے ایک سو ملازم اور ایک بہت بڑی بلڈنگ بن گئی۔
ایک دن بادشاہ کا گزر ہوا تو اس نے پوچھا یہ کون سی جگہ اور عمارت ہے تو کسی کو بھی اس بات کا علم نہ تھا بس یہ مشہور تھا مٹکا گاہ ہے۔ جب زیادہ تفصیل میں گئے تو دیکھا کہ وہ مٹکا ہی عرصہ دراز سے ٹوٹا پڑا ہے اور لاکھوں روپے مٹکے کی مد میں جا رہے ہیں۔ ہمارا بیت المال بھی کچھ ایسے ہی حالات کا شکارہے۔۔
پاکستان میں زکوٰۃ اور عْشر کا قانون سابق صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں سنہ 1980 میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں نافذ کیا گیا۔ زکوٰۃ کاٹنے کے موجودہ نظام پر پاکستان میں کئی لوگوں کو اعتماد نہیں ہے اور ایسے لوگوں کی اس ضمن میں یہ رائے ہے کہ ان کے کھاتوں سے زکوٰۃ کی مد میں کاٹی گئی رقم مستحقین کو نہیں ملتی۔
عاملینِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کے مال میں سے اجرت یا معاوضہ دیا جاسکتاہے، یہ واحد مصرفِ زکوٰۃ ہے، جس کا فقیر ومسکین ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی اجر ت متوازن ہو۔ لیکن "عاملینِ زکوٰۃ" سے مراد بیت المال کا نگراں عملہ نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ ہیں جو دوردراز جاکر زرعی پیداوار کا عْشر اور مویشیوں کی زکوٰۃ وصول کرتے تھے اور اسے حفاظت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچاتے تھے، ظاہر ہے یہ ایک ذمے داری اور مَشقت کا عمل تھا، لہٰذا اس پر وہ اجرت کے حق دار قرار دیئے گئے۔
عہدِ رسالت مآبﷺ اور عہدِ خلافتِ راشدہؓ میں عاملینِ زکوٰۃ، سائمہ (چرنے والے مویشیوں یعنی بھیڑ بکری، گائے بیل، اونٹ وغیرہ)کی زکوٰۃ کی وصولی اور زرعی پیداوارپر عْشر کی وصولی، نقل وحمل اور حفاظت پر مامور تھے، اب تو زیادہ تر نقد رقوم کی زکوٰٰٰۃ کا سلسلہ چل رہاہے، اس میں بہتر ہے کہ حکومت محکمہ زکوٰۃ کے عملے کو عام ملازمین کے معیار کے مطابق اپنے خزانے سے تنخواہ دے، جیسے ایف بی آر کے محکمے والے حکومت کے محصولات جمع کرتے ہیں اورعام معیار کے مطابق قومی خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں۔
موجودہ نظام کے مطابق زکوٰۃ کی بینکوں سے براہ راست کٹوتی ہوتی ہے، وصولی پر حکومت کے کوئی اخراجات نہیں آتے، بلکہ بینک اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی کرکے حکومت کے خزانے میں جمع کریں اور محکمہ زکوٰۃ کا عملہ حکومت کا ملازم ہوتاہے، ان کا کام زکوٰۃ کی رقوم کاحساب کتاب رکھنا اورحکومت کے مجاز ادارے کی منظوری سے متعلقہ ذیلی اداروں یا افراد کو وہ رقوم اداکرنا اور اس کے بعد ان کے حسابات چیک کرنا ہوتا ہے، وہ قومی خزانے سے تنخواہ پاتاہے، انتظامی اخراجات بھی حکومت کو اپنے ذمے لینے چاہییں۔
پاکستان کے نظام زکوٰۃ سے متعلق بہت تشویش اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ مستحقین تک زکوٰۃ پہنچانے کے لئے غیر ضروری اور اضافی اخراجات کا سلسلہ روکنا ہوگا۔ کرپشن کا ناگ زکوات بھی معاف نہیں کرتا۔