پنجاب میں انٹرمیڈیٹ سال دوئم کے امتحانات کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے جس کے مطابق ملتان، لاہور، گوجرانوالہ اورفیصل آباد بورڈز کے 98 فیصد سے زائد طلبہ پاس ہوگئے۔
ملتان بورڈ میں 48 ایسے طلبہ ہیں جنہوں نے 100 فیصد نمبر حاصل کیے۔ اس کے علاوہ 7265 طلبہ ایسے ہیں جنہوں نے ملتان بورڈ میں ایک ہزار سے زائد نمبرز حاصل کیے۔ ملتان بورڈ میں کامیابی کا تناسب 98.64 فیصد رہا، صرف وہ 2461 طلبہ فیل ہوئے ہیں جنہوں نے امتحان میں شرکت نہیں کی تھی۔ دوسری لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملتان بورڈ میں امتحان دینے والے طلبہ کی کامیابی کا تناسب 100 فیصد رہا۔ لاہور بورڈ میں کامیابی کا تناسب 98.71 فیصد رہا۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ بورڈ میں کامیابی کا تناسب 98.81 فیصد رہا۔ یہاں ایک لاکھ 50 ہزار 353 میں سے ایک لاکھ 48 ہزار 560 طلبہ پاس ہوئے۔
فیصل آباد بورڈ میں ایک لاکھ 11 ہزار 547 میں سے ایک لاکھ نو ہزار 970 طلبہ پاس ہوئے اور یہاں کامیابی کا تناسب 98.59 فیصد رہا۔ جس طرح اور جیسی تعلیم گزشتہ ایک سال میں آن لائن دی گئی وہ اپنی جگہ لیکن نتائج نے تو چودہ طبق روشن کر دئیے ہیں۔ گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر لینے والے طلبا کی تعداد حیرتناک ہے۔ بھلے زمانوں میں 800 میں سے 500سے اوپر نمبر لینے والے خوش نصیب تصور کئے جاتے تھے اور 600 سے اوپر نمبر لینے والا قابل ذہین سٹوڈنٹ سمجھا جاتا تھا اور آج جنہیں صحیح طور پر اردو انگریزی لکھنی پڑھنی نہیں آتی گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر لئے بیٹھے ہیں۔ ہم لوگ شیٹس بھر بھر کے مر جاتے تھے لیکن پھر بھی 20 میں سے مر کے 12، 13 نمبر ملتے تھے اور آج جس کو سنو اس کے بچے کا رزلٹ 1100 میں 1100 آیا ہے اور والدین بغلیں بجا رہے ہیں۔
آن لائن کلاسز کا فراڈ با کمال رہا درسگاہوں کو تالہ اور کرپٹ نظام کو جلا دینا چاہئے۔ حساب میں سو بٹّہ سو نمبر تو سنے ہیں پر اردو انگریزی میں سو بٹّہ سو تو مولوی عبدالحق اور شیکسپیئر بھی پورے نمبرنہیں لے سکے۔ ملتان انٹر میڈیٹ نے فراڈ میں تمام حدود ہی پار کر دی ہیں کہ اب یہ عالم ہے ملتان بورڈ کے باہر سے گزر رہی تھی بورڈ والوں نے 1100 نمبرز مجھے بھی راہ جاتے تھما دئیے۔ اچھا ہے آج قائد اعظم اس دنیا میں نہیں؟
نہیں تو ہر ادارے اور پاکستان کی وینٹی لیٹر پر یہ حالت دیکھ کر انہیں کتنا دکھ ہوتا کہ پاکستان کتنا خون بہا کر کتنی عصمتیں لٹا کتنی تکلیفوں کے بعد بنا آج اگرقائداعظم زندہ ہوتے تودکھی ضرورہوتے۔ نئے پاکستان میں نا قابل یقین حد تک گھٹیا معیار تعلیم پر۔ اے خدا رحم کر میرے ملک پرمیرا ملک اب مکمل تباہی کی طرف جارہا ہے کہتے ہیں کہ اگر کسی قوم کو مکمل تباہ کرنا ہو تو وہاں کی تعلیم نظام بگاڑ دو۔ نجی کالجز کا تو نام ہی کافی ہے۔
2006 میں پاکستانی امتحانی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کروائیں گئیں جو نجی تعلیمی اداروں کے مفادات کے مطابق تھیں . پہلے میٹرک اور انٹر کا رزلٹ 25سے 35 فیصد کے درمیان آتاتھا. جب 2006میں اسے معروضی طرز پرڈالا گیا رزلٹ80 تک چلاگیا. تاکہ نجی کالجز کا پیٹ بھرا جاسکے. اس کے ساتھ نقل کو آسان بنادیاگیا اور امتحان سو فیصد یاداشت کوجانچنے کی طرز پر تھا.جس میں تخلیقی سوالات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نمبرز بھی ڈالرکے ریٹ کی طرح بڑھ رہے ہیں پورا ملک ہی مصنوعی نظام پر کھڑا ہے۔ یہ کون سے امتحان ہیں اور امتحان دینے والی یہ کونسی خلائی مخلوق ہے کہ بچے 1100 / 1100 نمبر لے رہے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹس نے بچوں کے نتائج کو شاندار بنانے کے لیے اپنا پیسہ لگایا تاکہ ان کے اداروں کا کاروبار پھل پھول سکے۔