سکندراعظم نے کہا "گرو میں تمھارا شاگرد ہوں اور دنیا فتح کرکے آیا ہوں! تو ارسطو مسکرایا اور کہنے لگا "تم ہوس کے پجاری بن چکے ہو، تم زمین کیا آسمان بھی فتح کرلو تمہاری ہوس کبھی بھی نہیں بھرے گی"۔ یہ ارسطور کے وہ تاریخی الفاظ تھے جس نے سکندر اعظم کی زندگی بدل کررکھ دی تھی۔ اور سکندر نے وصیت کی تھی کہ مرے جنازے کو دفنانے سے پہلے میر ے دونوں ہاتھ باہر رکھ دینا تاکہ دنیا کو یہ باور ہو سکے کہ وہ جو دنیا کا فاتح تھا آخری وقت میں اس دنیا سے خالی ہاتھ چلا گیا۔۔
جنرل مشرف فضا میں مکے گھما گھما کر اپنی پاور شو کیا کرتے تھے۔ وہ بھی پاکستان کے طاقتور صدر تھے۔ لیکن اب کہاں ہیں؟ جنرل ایوب خان کہاں گئے؟ جنرل ضیا الحق، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹوِکا کیا انجام ہوا؟ الطاف حسین، نواز شریف اور عمران خان بھی خالی ہاتھ جائیں گے۔ تاریخ دنیا میں بڑے بڑے سکندر خاک ہو گئے۔ یہ بیچارے تو چیونٹی کے برابر بھی نہیں۔ ان سب میں ایک بھی نظریاتی نہیں۔ نظریہ تو پاکستان کا تھا۔
پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے جس کو طاقت کے نشہ نے بد دیانتی کی چکی میں پیس ڈالا۔ پاکستان کا وجود نظریۂ کی بنیاد پر عمل میں آیاتھا۔ موجودہ پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار نہیں دیاجا سکتا۔ جو آیا اس نے سب سے پہلے پاکستان کے نظریۂ کا سودا کیا۔ اصل نظریاتی لوگ قبروں میں چلے گئے۔ چند ایک دیے ٹمٹما رہے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے یہ ٹمٹماتے چراغ حلفیہ کہتے ہیں کہ موجودہ پاکستان میں نہ کوئی لیڈر ہے نہ قائد نہ نظریہ نہ جذبات نہ جوش و ولولہ والے عوام۔ اب جو حالات بن رہے ہیں اس کے تناظر میں مسئلہ کشمیر بھی دفن ہو جائے گا۔
پاکستان میں فقط ایک ہی نظریہ متحرک ہے اور وہ ہے " نظریۂ طاقت? ساری لڑائی طاقت کے حصول کی ہے۔ سارا رولا پاور کا ہے۔ نظریۂ اقتدار کے علاوہ کوئی نظریۂ نہیں۔ سب کا نظریہ بھی طاقت تھا۔ وردی اور سوٹ والے سب کا نظریۂ حصول پاور رہا ہے۔ دولت کے ساتھ طاقت نہ ملے وہ دولت بغیر نشہ کے شراب ہے۔ جو نشہ پاور میں ہے دولت میں کہاں۔ اور جب دولت اور طاقت یکجا ہو جائیں تو زمین پر خدائی کا نشہ ہی کچھ اور ہے۔ ایک صوبائی وزیر کے چوکیدار کا غرور مان نہیں تو وزیر کا نشہ کیا ہو گا۔
وفاقی وزیر کا نشہ اس سے بڑ ھ کر، وزیر اعلیٰ کی طاقت کا نشہ مت پوچھو اور وزیر اعظم کی پاور کا نشہ خدا کی پناہ? نظریہ بھٹو پھانسی چڑھا دیاگیا۔ نظریۂ ضیاء فضا میں اڑا دیا گیا۔ نظریہ بی بی گولی سے بجھا دیا گیا۔ نظریہ مشرف ملک سے بھگا دیا گیا اور نظریۂ نواز شریف دوسری بار بھاگ گیا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کے بعد نہ مسلم لیگ رہی نہ نظریہ باقی رہا۔ یہ سب نظریۂ ضرورت کی پیداوار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے چوزے جب انڈے دینے کے قابل ہو جاتے ہیں تو بڑی بڑی چھوڑنے لگتے ہیں۔ کسی کے آنے یا جانے سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
پاکستان نے سب کو بہت عیش کرائے ہیں۔ اب حساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ پاکستان کرپشن کی جس سطح تک پہنچ چکا ہے اس سے آگے اور کہاں تک جائے گا۔ جب تک عدلیہ آزادانہ اور جراتمندانہ فیصلے نہیں کرے گی پاکستان ڈوبتا چلا جائے گا۔ تمام اداروں میں جھاڑو پھیرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام اداروں میں کرپشن کے پرانے پاپی کوکیفر کردار تک نہیں پہنچا دئیے جاتے اس ملک کا نظام پاک نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کسی کا محتاج نہیں۔ ان لوگوں کا اقتدار کا نشہ ٹوٹ رہا ہے۔ پاور جاتی نظر آرہی ہے۔ جمہوریت بچانے کا ڈھونگ کس کے ساتھ؟ پاکستان میں جمہوریت آئی کب تھی؟ سب نظریۂ طاقت کے پجاری ہیں۔ بہت سے گزر گئے بہت سے گزر رہے ہیں۔ حاکم وقت کے سامنے حق وانصاف کی بات کہنا ایک بڑا جہاد!جوحکومت عوامی جذبات کو نہیں سمجھ سکتی وہ بہت جلد زوال پذیر ہوجاتی ہے۔