مسلم لیگ ن کے پاس اس وقت کوئی اور انتخابی بیانیہ نہیں۔ پہلے ان کا بیانیہ ترقی اور خوشحالی ہوتا تھا، وہ اس بار کارگر نہیں۔ عوام کہتے ہیں کہ یہ پرانے دعوے ہیں اور سب کرتے ہیں۔ سیاست میں یا زور دار بیانیہ جگہ بناتا ہے یا تعزیت یا مظلومیت کا ووٹ چلتا ہے۔
بھٹو کی تعزیت بیٹی نے کمائی، بیٹی کی تعزیت اس کے شوہر نے کمائی اور اب عمران کی مظلومیت زور پکڑ چکی ہے۔ مسلم لیگ ن اس وقت نہ مظلوم سمجھی جاتی ہے نہ تعزیت کا ووٹ ہے نہ ہی کوئی ٹھوس ہلا دینے والا بیانیہ ہی ہاتھ لگا ہے۔ اسٹبلشمنٹ الیکشن جتوائے گی تو اس خوش فہمی سے بھی نکل آئیں۔ زرداری پنجاب میں زور لگا رہے ہیں اور وہ بھی اسٹبلشمنٹ کی چوکھٹ پر یہی آس لئے بیٹھے ہیں۔
ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب اسٹبلشمنٹ کوئی نیا تجربہ کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ نہ ہی کوئی اکثریت لے گا نہ ہی کوئی نئے پراجیکٹ کی توقع رکھے۔ ماضی میں بھی اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت نے کچھ جرنیلوں کی ساکھ کونقصان پہنچایا مگر عمرانی پراجیکٹ نے تو ملک وادارے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ باجوہ اور فیض کا احتساب خواہش تو ہو سکتی ہے بیانیہ نہیں۔
عمران باجوہ فیض اب عوام کا ٹارگٹ نہیں، عوام کے مسائل بجلی کے بل کمر توڑ مہنگائی اور بیروزگاری ہیں۔ جمہوریت گئی بھاڑ میں۔ اب تو لوگ جنرل پرویز مشرف کے دور کو بھی سنہرا دور کہنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ لوگ ریلیف مانگتے ہیں۔ وردی دے یا شیروانی ان کی بلا سے۔ نواز شریف صاحب وطن لوٹنے سے پہلے دو بیانئے بنایئں۔ اوّل خاندانی سیاست سے اجتناب۔ دوم کشمیری برادری اور قرابت داری کو نوازشوں کی روایت سے گریز۔۔
پرانے ساتھیوں کو واپس لائیں اور مزید ساتھیوں کو ناراضی سے بچایئں۔ ووٹ بینک بھلے نواز شریف کا ہے مگر بینک کی چابی شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ پارٹی شہباز شریف کی ذہانت حکمت اور محنت سے چل رہی ہے۔ نواز شریف دور اندیش ہیں، اندرونی سازشوں کے باوجود شہباز شریف سے بدگمان کبھی نہیں ہوئے اور بھائی کی پشت پر کھڑے رہے۔ اب سیاست بدل چکی ہے۔ گو کہ عمرانی پراجیکٹ بری طرح فلاپ ہو چکا ہے لیکن نواز شریف کی وطن واپسی قد آور زور آور بیانیہ کے بغیر پھیکی ثابت ہوگی۔
ڈالر اور سونے کی قیمت نیچے آنے کے باوجود مہنگائی اور بلوں میں ریلیف نہیں مل رہا۔ نواز شریف کے احتسابی بیانئے سے بجلی کے بل اور مہنگائی ایسے مسائل حل ہو جایئں گے؟ نواز شریف کے ساتھ ظلم ہوا، کوئی جرم ثابت نہ ہوا، عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ نے زیادتی کی وغیرہ بیانات پر خطابات تو کئے جا سکتے ہیں مگر الیکشن جیتنے کے لئے یہ بیانیہ کامیاب نہیں۔ اندرون بیرون ملک سرمایہ اکٹھا کرکے پوری ایمانداری سے ملک کی معشیت کو پٹری پر چڑھانے کو فوکس کیاجائے۔ بحالی معشیت کا ثواب نیچے غریب عوام تک پہنچے گا تو ووٹ پھر نوٹ یا بوٹ سے نہیں دل سے دئیے جاتے ہیں۔
الیکشن بیانیہ مانگتا ہے جبکہ بیانیہ سے متعلق پارٹی کے اندر بھی بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ احتسابی بیانیہ اب پرانا ہو چکا ہے، انقلابی بیانیہ بھی پٹ چکا ہے، روٹی کپڑا مکان بھی رج کے ذلیل ہوا۔ اب بس خاندان و برادری سے دو قدم آگے نکل کر عوام کے جھونپڑے میں جگہ بنانی ہوگی۔ ٹھاٹھ باٹھ لائف سٹائل سے نکل کر عوامی طرز زندگی کا پہناوا پہننا ہوگا۔ سیاست میں فنکار کمال دکھاتے ہیں۔
تبدیلی کے بیانئیے نے برسوں ان عوام کو الو بنائے رکھا، میاں صاحب آپ حقیقی تبدیلی لا کر دکھائیں۔ یہ تو طے ہے اب نہ یہ وہ پاکستان ہے نہ وہ عوام ہیں نہ ہی پرانی اسٹبلشمنٹ ہے۔ اب ووٹ لینے کے لئے کچھ وکھرا ہی فن دکھانا پڑے گا۔