ظل شاہ کی ماں منع کرتی رہی پتر نہ جایا کر یہ سیاستدان اقتدار کے سگے ہیں، یہ بے انصاف اور ظالم لوگ ہیں، اپنے مفاد کی خاطر ماؤں کے لال چھین لیتے ہیں، پتر نہ جایا کر۔۔ مگر اس کا جوان جذباتی خون بھی شعبدہ بازی کا شکار ہوگیا۔ ان شعبدہ بازوں کے اپنے پتر لندن میں موجیں مار رہے ہیں۔
خدارا اپنے گھروں بال بچوں روزگار کو توجہ دو ان شعبدہ بازوں نے تمہارے گھر نہیں بھرنے نہ تمہارے بچوں کو تعلیم دلانی ہے نہ بوڑھے والدین کا مفت علاج± کرانا ہے نہ تمہاری بیٹی بہنوں کی شادی کے اخراجات اٹھانے ہیں نہ تمہارا کچن چلانا ہے پھر کیوں ان اقتدار کے حریصوں کو اپنا مائی باپ مرشد لیڈر سمجھتے ہو؟ کیوں ان کی خاطر اپنے گھر رشتے دوست یار گنوا رہے ہو؟ ان میں ہے کوئی حق پہ؟ ان کی ذاتی زندگیاں اعمال کردار اور خطابات میں نفاق ہے۔
ووٹ دو مگر ان کے باڈی گارڈ اور اندھے عاشق مت بنو۔۔ ظلم اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرو مگرظالموں اور منافقوں کی چمچہ گیری سے بچو۔ سیاست مفاہمت کا نام ہے۔ دنیا کے مقبول سیاسی رہنماؤں نے ہمیشہ قوم کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ امن مخالف عناصر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک اچھا سیاستدان لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے لیکن پاور پولیٹکس میں سیاستدانوں کو جان لیوا خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بڑا سیاستدان یا قائد مارا جائے تو انٹر نیشنل بریکنگ نیوز ہوتی ہے، اس کا کوئی عام ورکر مارا جائے تو عمران خان جیسا مرشد مقتول کے باپ کو گھر بلا کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اس سے تعزیت کرتا ہے۔ قاتل ہمیشہ نا معلوم ہوتا ہے۔ لاشوں پر سیاست پرانا کلچر ہے۔ توشہ خانہ گھڑی چور تو بہت ہیں لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی یہ ادراک کسی بد نصیب کو نہیں، سدانہ راج ایک ہے نہ تاج ایک ہے، اندھے بہرے عوام انہی لیڈران کے مستحق ہیں۔ اگر دو صوبوں میں ہی الیکشن ہیں تو عمران نے اسمبلیاں توڑنے کی حماقت کیوں کی؟
ماناالیکشن والوں کے پاس حرام مال کی کمی نہیں حلال کمائی والا توآجکل رکشہ کرانے کی حیثیت تک نہیں رکھتا۔ ہاتھوں کی دی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں گی۔ لاڈلی پارٹی جنونی کلٹ بن چکی ہے زمان پارک ٹریفک جام عوام پریشان اور بیساکھیاں اب غیر سیاسی بن گئیں؟ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے کارکن ظل شاہ کے والد کو زمان پارک بلا کر اظہارِ تعزیت کیا گیا۔ مرشد کو جنازے پڑھنے اور تعزیت کے لئے لواحقین کے گھروں کوجانے کی روحانی بندش لگی ہوئی ہے۔
شیخ النِسا عوام کو مرواتااور اپنی حفاظت زنانیوں سے کرواتا ہے۔ طاہر القادری کا ہمزاد معلوم ہوتا ہے۔ ہر بے ایمان اور جھوٹا انسان اپنی لفاظی اور فنکاری سے لوگوں کو بےوقوف بنا سکتا ہے لیکن خیر الماکرین کو دھوکہ نہیں دے سکتا اس کی چالیں بڑی زبردست ہوتی ہیں۔ سیاسی دنگل میں ملک تباہ ہو رہا ہے۔ کسی کو غریب عوام کا احساس نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی میں تنخواہ دار پس چکا ہے۔
ملک سے مال لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے میں ہر ادارے اور شعبے کے امرا برابر کے شریک ہیں۔ ناجائز طریقوں سے مال بنانے والوں کو مہنگائی سے کبھی فرق نہیں پڑتا، ہمیشہ غریب سفید پوش مارا گیا ہے۔ منشیات اور فحاشی بھی شرمناک سطح کو چھو رہی ہے۔ منشیات کے عادی افراد کے لئے جیل کی سزا از خود موت ہوتی ہے۔ ان سے نشہ چھین لو چند ماہ میں مر جاتے ہیں۔
پنڈی آزادی مارچ کی طرح جیل بھرو تحریک بھی بری طرح فلاپ ہوگئی۔ سب سوشل میڈیا رومانس ہے۔ زمینی حقائق مختلف ہیں۔ پرانی آنٹیاں اور ان کی نئی نسلیں اندھے عشق میں مبتلا رات دن سڑکوں پر پڑی رہتی ہیں۔ ایم کیو ایم ٹو اس کلٹ کو بنانے والے کہاں چھپ گئے ہیں؟ الیکشن ہو بھی جائیں اس طوفانی مہنگائی اور فحاشی سے واپسی میں برسوں درکار ہیں۔ جلسوں جلوسوں دھرنوں میں منشیات بیچی خریدی جاتی ہے۔
دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک دو بارنشہ استعمال کرنے والا فرد کچھ عرصے بعد یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اسے نشہ ہر حال میں استعمال کرنا ہے پھر وہ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس کی تلاش، خرید اور استعمال میں صرف کردیتا ہے اور چاہ کر بھی اس عمل کو روک نہیں سکتا۔ عورت مرد آزادی کی آڑ میں ہوس نفس سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں۔ شراب اوردیگر نشہ آور چیزوں کی بہتات کا ایک سبب ٹی وی پر دکھائے جانے والے مخرب اخلاق پروگرام اور فواحش و منکرات پر مبنی فلمیں ہیں۔
شراب نوشی اور کسی نہ کسی شکل میں نشہ خوری کے مناظر تمام فلموں میں پائے جاتے ہیں، یہی چیز نوجوانوں میں منشیات کی لت پیداکرنے میں بنیادی کردار اداکرتی ہے۔ لیڈران کی شخصیت پرستی برین واشنگ نے اولادوں کو تباہی کی طرف گامزن کر دیا ہے۔ جو بچ جاتے ہیں وہ سیاستدانوں کے عشق میں بے موت مارے جاتے ہیں۔
ظل شاہ کی ماں کی بازگشت "پتر نہ جایا کر" نے قاتلوں کی نشاندہی کر دی ہے۔ تحریک انصاف اپنا نام تبدیل کر کے "تحریک بے انصاف " رکھ لے۔ کسی بھی سیاسی و مذہبی کلٹ سے اندھا عشق دنیا و آخرت تباہ کر دیتا ہے۔