مرے ہوئے کومارناہماری عادت ہے اورنہ ہی زندہ لاشوں پرکنکریاں پھینکنے کاہمیں کوئی شوق۔ فرعون کے لہجے میں بولنے والاکوئی بھی شخص جب ڈی چوک سے صرف ڈی تک محدودہوجائے توسمجھ جاناچاہئے کہ معاملہ اب کنکریاں مارنے اوربرابھلاکہنے سے آگے کہیں بہت آگے نکل چکاہے۔ ایسے اوقات اورلمحات میں پھرکنکریاں اورپتھرنہیں مارے جاتے بلکہ "میں میں" کی رٹ لگانے والوں کی بے بسی، بے کسی اورکمزوری کو دیکھ کر رب کے نظام اورقدرت پر کچھ غور کرنا چاہئے۔ ایسے واقعات اورلمحات میں ہمارے جیسے بے بس اورکمزورانسانوں کے لئے عبرت کے کئی نشان ہوتے ہیں۔ اللہ بچائے۔
بڑے بول یہ انسان کیا؟ بستیوں کی بستیاں، نسلوں کی نسلیں اورشہروں کے شہربھی ویرانے کردیتے ہیں۔ بڑے بول کی مارآج تک جن کوبھی پڑی ہے وہ پھرجگہ پرنہیں آئے۔ انسان یہ مزاجاًجاہل ہے، کوئی تھوڑی سی طاقت، شان وشوکت، دولت اوراقتداریہ دیکھتاہے تویہ اپنی اصلیت اورحیثیت کیا؟ اپنے رب کوبھی پھربھول جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا۔ کہ اللہ کسی گنجے کوناخن نہ دے۔ اصل میں یہ انسان سارے ہی طبیعت ومزاج میں گنجے ہی ہیں انہیں جب بھی کوئی ناخن ملتاہے تویہ پھردوسروں کونوچنااورکاٹناشروع کردیتے ہیں۔
دوسروں کونوچتے اورکاٹتے ہوئے انہیں پھریہ بھی یادنہیں رہتاکہ اوپربھی کوئی ہے۔ اوپر والاجب ذرہ سی رسی کھینچتاہے تو پھر ان کی ساری طاقتیں، عہدیں، شان وشوکت، رتبے اوردبدبے ایک لمحے میں ڈھیرہوجاتے ہیں۔ بہت پہلے کی بات ہے ہمارے آبائی گاؤں کے قریب دوسرے ایک گاؤں میں کسی بات، رنجش اوردشمنی پر اسلحہ سے لیس ایک بندے نے دوسرے ایک بندے کونیچے گراکراس کے سینے پربندوق رکھی اورگرج دار آواز میں بولا۔ اب آپ کومجھ سے کون بچائے گا؟ بچانے والے نے پھرایسے بچایاکہ وہ گرج دار آواز والااپنی ہی بندوق کی گولیاں کھاکردنیاسے گیا۔ کپتان کے ڈی چوک سے صرف ڈی تک پہنچنے اور دنیاکے سامنے بے بسی کاتماشابننے کے
بارے میں لوگوں کاخیال اورگمان چاہے جوبھی ہولیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کپتان کے اس حال اورانجام تک پہنچنے میں"میں" کابڑاکردارہے۔ ڈی چوک کی طرح وزیراعظم بننے کے بعدبھی کالی شیروانی میں چوکوں اورچوراہوں پرعمران خان "میں میں" کرکے سیاسی مخالفین بالخصوص میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اورمولانافضل الرحمن کو للکارتے اورلتاڑتے رہے۔
کپتان اٹھتے بیٹھتے بڑے فخریہ اور طنزیہ اندازمیں یہ کہتے کہ نواز، زرداری اورمولاناکی سیاست میں نے ختم کر دی ہے، کپتان کے نادان کھلاڑی بھی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ نواز، زرداری اورمولاناکواب عمران خان سے کوئی بچاکے دکھائیں، اس ملک میں ایساکوئی سیاستدان جمانہیں جوہمارے کپتان کی سیاست تک پہنچے۔ لگتاہے کپتان کی وہ "میں" اور یوتھیوں کی وہ بڑھکیں اب گلے پڑگئی ہیں۔ مولاناکوتوخان صاحب نے بارہواں کھلاڑی ڈکلیئرکردیاتھا۔
میاں نوازشریف اورآصف زرداری کوتوکپتان نے سیاست سے ہی نکال دیاتھا۔ ویسے اس وقت کپتان کی باتوں، لب ولہجے سے ایسا لگتاتھاکہ نوازشریف اورزرداری پاکستانی سیاست میں اب کبھی سراٹھانہیں سکیں گے اور مولانا بارہویں کھلاڑی ہی رہیں گے۔ لیکن "میں" کی ماردیکھیں کہ آج وہی کپتان خودبارہویں کھلاڑی بھی نہیں رہے۔ پی ٹی آئی کی باگ ڈور اس وقت کپتان کے ہاتھ میں نہیں۔ جو عمران خان تکبر، انا اور غرور کی کشتی پر سوار ہو کر میاں نوازشریف، آصف زرداری اورمولانافضل الرحمن کی سیاست ختم کرنے نکلے تھے تکبر، غرور اور انا نے اس کپتان کی اپنی ہی کشتی ڈبودی ہے۔
دوسروں کودنیاکے سامنے چورچور اور ڈاکو کہہ کر پکارنے والا خان اب اپنے ماتھے پرگھڑی چورکے داغ لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہاتھ مل رہاہے۔ کپتان کی حکمرانی اورنگرانی میں جن عدالتوں اورکچہریوں میں کل تک میاں نوازشریف اوردیگرسیاسی مخالفین کوچوروڈاکوبناکرپیش کیاجاتارہاآج انہی عدالتوں اور کچہریوں میں خودکپتان پیش ہورہے ہیں۔ ایسا بھی ہوگا؟ یہ توکپتان نے کبھی سوچابھی نہیں ہوگا۔ کاش کہ کپتان "میں" کے نشے میں دوسروں پرسنگ باری کرنے سے پہلے "میں" کے انجام کوسامنے رکھتے توآج انہیں یہ دن دیکھنا نہ پڑتے۔
ہم پہلے بھی کہتے اورلکھتے رہے ہیں اب بھی کہتے اورلکھتے ہیں کہ ہوامیں اڑتے ہوئے بھی نظرزمین پر ہونی چاہئے۔ مال، دولت، اقتداراور طاقت سب کچھ پاس ہونے کے باوجودبھی انسان کمزوربہت کمزور ہے۔ انسان جو چاہتا ہے وہ نہیں ہوتا، ہوتا تو ہمیشہ وہی ہے جو خدا چاہتا ہے۔ انسان کیا ہوگا اور اس کی چاہت کیا ہوگی؟ یہ مال، دولت، اولاد، طاقت، اقتدار اور شہرت یہ توفقط انسانوں کوآزمانے کے لئے ہیں۔ جولوگ مال، دولت، طاقت اور اقتدارملنے کے بعد زمین پرخدابننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ کاسبق یہی ہے کہ ایسوں کاانجام پھر کبھی اچھانہیں ہوا۔ زندگی کاایک سبق تویہ بھی ہے کہ جیسا کرو گے ویسا پھر بھرو گے۔ تکبرو غرور کا سر تو ہمیشہ نیچے ہوتا ہے۔
دوسروں کے لئے کنواں کھودنے والے آج تک خودکبھی کنویں میں منہ کے بل گرنے سے بچ نہیں سکے۔ ہرواقعے میں دوسروں کے لئے بڑی نشانیاں ہوتی ہیں، کپتان کی کہانی میں بھی اہل عقل ودانش کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ صرف عمران خان نہیں میاں نوازشریف، آصف زرداری، مولانافضل الرحمن یااورکوئی بھی لیڈر، سیاستدان بلکہ کوئی بھی انسان "میں" کی کشتی پر سوار ہو کر دوسروں کوروندنے کی کوشش کرے گاتواس کا انجام بھی آخریہی ہوگا۔
کپتان کے بارے میں بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ انہیں اس مقام تک کس نے پہنچایا؟ ہمارے پاس تواس کاایک ہی جواب ہے کہ کپتان اپنے "میں" کی وجہ سے اس مقام تک پہنچے۔ اس ایک "میں" نے توکپتان سے بھی بڑے بڑے زمین بوس کئے۔ اس لئے کپتان ہو یا کھلاڑی۔ عاجزی وانکساری دامن میں ہونی چاہئے۔ نہیں توپھرہرایک کایہی انجام ہوگا۔ تکبرو غرور یہ ہمارے اللہ کوپسندنہیں اورجوچیزاللہ کوپسندنہ ہواس کاانجام ہمیشہ عبرت ناک اور دردناک ہوتا ہے۔
کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں کو رب کے حضوراپنی اکڑ، انا، تکبروغرورکی معافی مانگنی چاہئے، وہ رحیم، کریم اورغفورذات ہے، رب کے درسے آج تک کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ کپتان اورکپتان کے کھلاڑی سچے دل سے معافی مانگیں توامیدہے کہ یہ بھی رب کے درسے خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے۔