یہ رات کاکوئی نودس بجے کاٹائم ہوگا، آس پاس اکثردکانیں بند، مارکیٹیں سنسان اورہرطرف تقریباً اندھیراچھایاہواتھاالبتہ سامنے مین روڈپرگاڑیوں کی آنیاں جانیاں عروج پرتھیں، ہرمنٹ دومنٹ بعدسامنے سے جب بھی کوئی گاڑی گزرتی تواس کی لائٹ سے وہ معصوم چہرہ کچھ لمحوں کے لئے روشن ہوجاتامگرپھرفوراًاندھیراچھاجاتا۔
سائیڈپرپڑے ٹافیوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹس کے درمیان وہ فٹ پاتھ پردیوارکے ساتھ ٹیک لگائے نہ جانے کب سے سورہی تھی۔ یہ کسی غریب گھرانے کی کوئی پانچ چھ سالہ بچی تھی جوغالباًٹافیوں اورببل گم کے پیکٹس اٹھائے معاش کی تلاش میں صبح گھرسے نکلی ہوگی۔ کشمیری دانوں، ٹافیوں اورببل گم کے کچھ پیکٹس اس کے پاس پڑے ہوئے تھے لیکن نیندکے غلبے کی وجہ سے وہ معصوم دنیاومافیھاسے بے خبرہوکرفٹ پاتھ پرآنکھیں بندکئے ہچکولے کھارہی تھی۔ نہ جانے ان جیسی اورکتنی معصوم بچیوں اوربچوں کی زندگیاں اس طرح فٹ پاتھوں، چوکوں اورچوراہوں پرکٹ رہی ہوں گی؟
کہنے کی حدتک ہم سے بڑے مہذب، درددل اورانسانیت دوست اورکوئی نہیں لیکن عملی طورپرہمارایہ حال ہے کہ ہمارے ہرچوک، ہرچوراہے اورہرفٹ پاتھ سے روزانسانیت کے جنازوں پرجنازے اٹھ اورنکل رہے ہیں۔ اپنے ناتواں کندھوں پرمعاشرے کابوجھ اٹھائے یہ کوئی غریب بچی نہیں بلکہ بحیثیت قوم یہ ہماراوہ جنازہ تھاجس پراب فاتحہ پڑھنے کے بجائے روزلعنت بھیجنے کودل کرتاہے۔ کیامہذب معاشروں میں پھول جیسے وہ بچے جن کے کھیل کوداورپڑھنے وکچھ سیکھنے کے دن ہوں وہ اس طرح چوکوں، چوراہوں اورفٹ پاتھوں پررلتے اورتڑپتے ہیں؟ پانچ چھ سال کیا؟ ہمارے تودس اورپندرہ سال کے بچے بھی مغرب کے بعدگھروں سے باہرنہیں نکلتے۔
رات کی تاریکیوں میں گرم وسردموسم کی پرواہ کئے بغیرچوکوں، چوراہوں اورفٹ پاتھوں پرراتیں گزارنے والے یہ چھوٹے چھوٹے بچے واقعی کوئی انسان یایہ کسی کے بچے نہیں؟ بچے توسب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ پھرچوکوں، چوراہوں اورفٹ پاتھوں پررلنے اورتڑپنے والے یہ پھول ہمیں کیوں نظرنہیں آتے؟ آپ نے دیکھاہوگا ہمارے بچے گھروں میں کھیلتے کھیلتے جب تھک جاتے ہیں تووہ پھربستر، چارپائی اوربیڈدیکھے بغیر اکثرفرش پربھی سوجاتے ہیں۔ یہی حال ان غریب بچوں کابھی ہے۔ ٹافیوں کی پڑیاں ہاتھ میں لئے صبح سویرے جب معاش کی تلاش میں یہ گھروں سے نکلتے ہیں توسامان بیچنے کی خاطردن بھرایک ایک گاڑی اورایک ایک بندے کے پیچھے بھاگ دوڑکی وجہ سے یہ اتنے تھک جاتے ہیں کہ پھرچوک ہو، چوراہاہویاپھرکوئی فٹ پاٹھ یہ بیٹھے بیٹھے سوجاتے ہیں۔ یہ بچی بھی اسی طرح تھکاوٹ کی وجہ سے نیندکے آغوش میں چلی گئی تھی۔
اس ملک میں بچوں کے لئے قوانین ہیں لیکن ان قوانین پرعمل کون کروائے گا؟ ویسے ایسے قوانین پرعمل تب ہی ہوگاجب ہرطرف غربت اورفاقوں کے ڈیرے نہیں ہوں گے۔ بچے کس ظالم کوبرے لگتے ہیں؟ کون چاہتاہے کہ ان کے بچے سودوسوروپے کے لئے دن بھرچوکوں، چوراہوں اورفٹ پاتھوں پرخاک آلودہوں۔ یہ جومائیں، بہنیں اوربیٹیاں اپنے پھول جیسے بچے چندپیسے کمانے کی خاطرچوکوں، چوراہوں اورسڑکوں پربھیجتی ہیں آپ یقین کریں وہ ان کوبھیجنے سے پہلے اپنے دلوں پربھاری پتھررکھتی ہوں گی۔ کوئی بھی ماں، بہن اوربیٹی یہ نہیں چاہتی کہ ان کے لخت جگر دنیاکے سامنے تماشابنے۔
مہنگائی، غربت اوربیروزگاری نے اس ملک کابراحال کردیاہے۔ آج ہرشخص اورفردپریشان ہے۔ موجودہ حالات نے غریبوں کی آزمائش اورامتحان میں مزیداضافہ کردیاہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان غریبوں کی کسی کوکوئی فکرنہیں۔ اقتداراورمفادکی جنگ توسب لڑرہے ہیں مگران غریبوں کی جنگ لڑنے کے لئے کوئی تیارنہیں۔ اس ملک میں غربت اورمہنگائی کے باعث چوکوں، چوراہوں اورفٹ پاتھوں پرروزکتنے معصوم رل رہے ہیں شائدنہیں یقینناً ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کواس کاعلم نہیں ہوگا۔
ہمارے حکمرانوں کوایئرکنڈیشن رومزاورسیاستدانوں کوبلٹ پروف گاڑیوں سے باہرنکلنے واترنے کی فرصت نہیں، جولوگ ہواوفضاء میں ترقی وخوشحالی کے باغ بناتے ہوں ان کوکیاعلم وخبر کہ زمین پررہنے والے غریبوں اوران کے بچوں پرکیابیت رہی ہے؟ ہمارے حکمرانوں کو اس ملک کے غریبوں کے لئے کچھ کرگزرناچاہئیے۔ ان غریبوں کوکچھ زیادہ کی لالچ اورحرص نہیں ہوتی۔ یہ نہ وزارتیں مانگتے ہیں اورنہ اقتدار۔ انہیں توبس بچوں کاپیٹ پالنے کے لئے باعزت روزگاراورآرام سے دووقت کی روٹی چاہیئے ہوتی ہے۔ ان کی کہانی دال اورچاول سے شروع ہوکرآٹا، چینی اورگھی پرختم ہوتی ہے، ان کے مطالبات کچھ زیادہ ہوتے ہیں اورنہ ہی ان کے ارمان ایسے کہ جوپورے کرنے مشکل ہوں۔ اس ملک میں وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم اورطبقاتی نظام نے ہمیں تباہ کرکے رکھ دیاہے۔
غریبوں کے بچے اگرروٹی کے چندناولوں کی خاطرراتوں کوچوکوں، چوراہوں اورفٹ پاتھوں پرہچکولے کھائیں گے توپھرچین، سکون اورآرام سے امیراورکبیربھی نہیں رہیں گے، زلزلوں کے یہ جھٹکے، یہ بے موسمیاتی تبدیلیاں اوریہ معاشی بحران یہ پتہ دے رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑضرورہے جس کی وجہ سے ہم روزآزمائش وامتحانوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ گڑبڑکہیں فٹ پاتھوں پرہچکولے کھانے والے غریبوں کے یہی معصوم بچے تونہیں۔ ہمیں غریبوں کے لئے نہیں اپنے لئے ایک ہاں صرف ایک باران رلنے وتڑپنے والے بچوں کوگلے لگادیناچاہئیے شائدکہ ان کی برکت سے ہم ان آزمائشوں، امتحان اورپریشانیوں سے نکل آئیں۔
یہ توقدرت کابھی قانون ہے کہ جودوسروں پررحم کرتے ہیں ان پربھی پھررحم کیاجاتاہے اورجودوسروں کوبے رحم چھوڑکرمنہ موڑدیتے ہیں وقت آنے پرپھران کے ساتھ بھی وہی ہوتاہے۔ سب کچھ پاس ہونے کے باوجودآج ہماری جوحالت ہے اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے دوسروں پررحم کرناچھوڑدیاہے اسی وجہ سے آسمان والے نے ہم پربھی رحم کرناچھوڑدیاہے۔ جب تک ہم دوسروں کے معاملات کے بارے میں خودٹھیک نہیں ہوتے تب تک ہمارے معاملات اورحالات بھی کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔
اس لئے اگرہم چاہتے ہیں کہ اس دنیااوراس ملک کے اندرہم آرام وسکون اورچین سے رہیں توپھراس مقصدکے لئے ہمیں اس ملک کے ہرغریب کوگلے لگاناہوگا، جب تک غریبوں کے یہ معصوم اورپھول جیسے بچے رات کی تاریکیوں میں چوکوں اورچوراہوں پرنیندکے غلبے سے جھولے کھاتے رہیں گے تب تک ہماری بھی پریشانیوں وتکلیفوں کے جھولوں پرجھولنے سے جان نہیں چھوٹے گی۔