انتخابات جمہوریت کاایک حصہ ہے اور جمہوریت اکثریت کی رائے، مشورے اورفیصلے کو قبول وتسلیم کرنے کانام ہے، جہاں اکثریت کے فیصلوں اوررائے کوتسلیم وقبول نہیں کیاجاتاوہاں پھرملک، معاشرہ اورقومیں پارٹیوں، گروہوں اورلشکروں میں بٹ جایاکرتی ہیں۔ اسی لئے ہرشخص اورفردکی یہ کوشش وخواہش ہے کہ یہاں جمہوریت پروان چڑھے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جس جمہوریت کے ذریعے لوگوں کو متحد، متفق اورایک کرنے کاکوئی موقع آتا ہے تو ہم اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے ایسے مواقع پر لوگوں کو تقسیم اور سیاست وجمہوریت سے متنفر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بھی اس ملک میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو ہمارے لیڈر اور سیاستدان عوامی جلسوں، جلوسوں، کارنر میٹنگز اور ریلیوں میں ایک دوسرے کے کپڑے دھونے کا کام سٹارٹ کرلیتے ہیں۔
اس وقت بھی جب ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور اکثر لیڈروں وسیاستدانوں نے اپنے الیکشن مہم کاآغاز کر دیا ہے۔ انتخابی مہم کے اس آغازکے ساتھ ہی کئی حلقوں وعلاقوں میں جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے ایک دوسرے کے کپڑے دھونے اور پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ ہمارے آبائی ضلع بٹگرام کے لیڈر اور سیاستدان اس کام میں بہت آگے ہیں۔ اورکوئی کام یہ جانتے ہوں یانہ لیکن دوسروں کے کپڑے دھونے کاجیسے ان کوکوئی سوسالہ پرانا تجربہ حاصل ہو۔
ہم توشروع سے لکھتے اور کہتے آئے ہیں کہ ایک انگلی کارخ دوسروں کی طرف موڑنے سے پہلے انسان کو باقی چار انگلیوں کو بھی ایک بار ضرور دیکھنا چاہئے لیکن ہمارے والے لیڈروں اور سیاستدانوں کو شائد چار انگلیاں دیکھنے اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوئی عادت نہیں۔ خود چاہے زندگی میں کوئی ایک کام بھی نہ کیا ہو، اپنا پورا وجود چاہے گندگی سے اٹکا اور بھرا ہو لیکن جلسے، جلوس، کارنر میٹنگز اور ریلیوں میں پھر بھی کپڑے انہوں نے دوسروں کے دھونے ہیں۔
دوسروں کی ذات پر تیر چلائے اور ان کی پگڑیاں اچھالے بغیر ان کی تقریریں ختم نہیں ہوتیں۔ ان کی تقریروں، رویوں اور طور طریقوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جس طرح سیاست، جمہوریت اور خدمت اسی بدزبانی، بداخلاقی، گالم گلوچ اوردوسروں کو برا بھلا کہنے کانام ہو۔ سیاسی جلسوں، جلوسوں اورریلیوں میں دوسروں کی ذات پرکیچڑاچھالنے والوں کو کیا پتہ؟ کہ الفاظ اور زبان کے زخم کتنے گہرے ہوتے ہیں۔ تیر اور بندوق کے زخم چاہے کتنے ہی گہرے اورخراب کیوں نہ ہوں ایک نہ ایک دن وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن الفاظ اورزبان کے زخم پھرکبھی ٹھیک نہیں ہوتے۔ انسان سب کچھ بھول سکتاہے لیکن کسی کی بدزبانی کوبھولنے کی کوشش کرکے بھی بھولنااس کے لئے آسان نہیں۔
تاریخ کے اوراق پر مولانا ابوالکلام آزاد سے منسوب ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا جس میں مولانا ابوالکلام آزادؒ فرماتے ہیں کہ ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔ میں والد کے ردعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شائدوہ غصّے کا اظہار کریں گے لیکن انہوں نے انتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں آپ کا دن کیسا گزرا۔
مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیالیکن اسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی۔ میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا۔ اس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے ان کے کمرے میں گیا تو ان سے اس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟ انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا۔ بیٹا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہیں۔ میرے بچے یہ دنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں معذرت اور پچھتاوئوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ زندگی کو شکر صبر کیساتھ خوشحال بنائیں۔ بیشک اللہ شکر کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔ واقعی جلی ہوئی روٹی انسان کو کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کوایسے مجروح کر دیتے ہیں کہ پھرغیرکیا؟
اسی بدزبانی اورتلخ ردعمل کی وجہ سے اپنوں میں بھی محبت، تعلق اوررشتے قائم وباقی نہیں رہتے۔ آپ لیڈر ہیں، سیاستدان یاپھرسیاسی کارکن۔ آپ اپنی زبان، سوچ، الفاظ اور رویوں کو درست اورٹھیک رکھیں۔ انتخابات کایہ موسم ہمیشہ نہیں رہنانہ ہی یہ جلسے، جلوس اورریلیاں آپ نے روز روز نکالنی ہیں، الیکشن کے چندہفتے یاچنددن ہوتے ہیں۔ اس کے بعدپھروہی عام موسم شروع ہوتاہے۔
انتخابات توگزرجاتے ہیں لیکن آپ کی زبان سے نکلے تلخ، سخت اور نامناسب الفاظ پھرلوگوں کے دل ودماغ میں ایسے پیوست ہو جاتے ہیں کہ جوپھرنکلنے اورگزرنے کانام بھی نہیں لیتے۔ لیڈرز، سیاستدان اورسیاسی کارکن ایک دوسرے پرتنقیدلازمی کریں اورکھل کرکریں لیکن اخلاق اورانسانیت کے دائرے کے اندر۔ جولوگ سیاسی مفادات کے حصول کے لئے اخلاق کے دائرے سے نکل جاتے ہیں ایسے لیڈر، سیاستدان اورسیاسی کارکن پھرلوگوں کے دلوں میں بھی نہیں رہتے، ایسوں کولوگ پھردل ودماغ سے بھی نکال دیتے ہیں۔ مانا کہ سیاست اور الیکشن یہ ہرشخص کاحق ہے لیکن جلسے، جلوس، ریلیوں اور کارنر میٹنگز میں دوسروں کے کپڑے تارتار کرنا یہ کسی کاحق نہیں۔
سیاست شرافت، امانت، دیانت اور خدمت کی بنیاد اور زورپرہونی چاہئے نہ کہ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے پر۔ جن لوگوں کو دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کاکچھ زیادہ شوق ہوتاہے ایسے لوگ انتخابات کیا؟ زندگی کے ہرمیدان میں پھر ناکام رہتے ہیں۔ ہم نے ایسے بے شماربدزبان دیکھے ہیں جوہزاروں جلسوں، جلوسوں اور بار بار کے انتخابات لڑنے کے باوجودمقابلے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔
دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اورکپڑے تارتار کرنے والوں کے جلسوں وجلوسوں میں ان کی تقریروں پرواہ واہ بہت ہوتی ہوں گی لیکن ایسوں کوووٹ کوئی نہیں دیتا۔ ووٹ لوگ خدمت اورشرافت پردیتے ہیں۔ اگرکوئی یہ سمجھتاہے کہ وہ دوسروں پرسنگ باری کرکے ووٹ حاصل کرلے گا تویہ اس کی بھول ہے۔