صحت انصاف کارڈکے تخلیق کاروں اوراس پروگرام کے رنگ میں رنگ بھرنے والوں کی سوچ اورکوشش پرنہ کوئی شک ہے اورنہ کوئی شبہ۔ بلاکسی شک وشبہ کے جس نے صحت کارڈکاآئیڈیادیاوہ ملک وقوم کاخیرخواہ ہی ہے کیونکہ ایسے منصوبے اورکام وہی لوگ شروع کرواتے ہیں جن کوعوام کے دکھ، درد، تکلیف اورپریشانیوں کااندازہ ہو۔
بینظیرانکم سپورٹ پروگرام ہویاصحت انصاف کارڈجیسے دیگرعوامی وفلاحی منصوبے اورپروگرامز۔ سب کامقصدایک اورنیک ہی توہے۔ ایسے منصوبے تخلیق اورپروگرام شروع کروانے والوں کابس ایک ہی مقصدتوہوتاہے کہ کس طرح اللہ کی لاچار، غریب اورمجبورمخلوق کی خدمت کی جائے۔ آگے پھراگرکسی پروگرام اورمنصوبے میں کوئی نقص اورخامی نکل آئے یاکوئی مفادپرست لوگ اس طرح کے پروگراموں اورمنصوبوں میں گھس جائیں تواس میں پروگرام اورمنصوبے شروع و تخلیق کروانے والوں کاکیا جرم اورگناہ؟ تخلیق کاروں کے دل ونیت توصاف اورمقاصدنیک ہوتے ہیں۔ آگے اگر وہ پروگرام اورمنصوبہ کسی مفادپرست ٹولے کی بھینٹ چڑھ جائے تواس میں ان خداترس تخلیق کاروں اوررنگ سازوں کاکوئی قصوراورگناہ نہیں ہوتا۔
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بھی پیلی ٹیکسی سمیت عوام کے لئے اس طرح کے کئی تاریخی پروگرام اورمنصوبے شروع کئے تھے جس سے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ مستفیدہوئے۔ انہی تاریخ سازمنصوبوں کی وجہ سے لوگ آج بھی میاں نوازشریف کانہ صرف اچھے الفاظ میں ذکرخیرکرتے ہیں بلکہ انہیں اپنی دعاؤں میں بھی یادرکھتے ہیں۔
صحت انصاف کارڈیہ میاں نوازشریف کی تخلیق ہے یاسابق وزیراعظم عمران خان کی سوچ۔ لوگ اس پروگرام اورمنصوبے کوبھی انشاء اللہ اسی طرح ہمیشہ اچھے الفاظ میں یادکریں گے۔ ویسے اچھے اوربرے لوگ، خوبیاں وخامیاں تقریباہرجگہ اورہرپروگرام ومنصوبے میں ہوتی ہیں۔ خیبرپختونخوامیں صحت انصاف کارڈپروگرام بھی خوبیوں کے ساتھ خامیوں سے خالی نہیں۔ اس پروگرام میں جہاں ایک طرف بہت سی خوبیاں ہیں وہیں اس پروگرام میں بے شمارخامیاں بھی ہیں۔ ماناکہ صحت کارڈپراب تک ہزاروں نہیں لاکھوں وکروڑوں غریبوں نے اپناعلاج کرایاہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کارڈپرعلاج کی غرض سے ہسپتال آنے والے درجنوں اور سینکڑوں افرادکوروزانہ کئی طرح کے مسائل اورمشکلات کابھی سامنا کرناپڑتاہے۔
اس کارڈمیں لاکھوں روپے موجودہونے کے باوجودلوگ من پسندڈاکٹرزاورہسپتال سے اپناعلاج نہیں کراسکتے۔ دردوتکلیف سے کراہنے وتڑپنے والے غریب کواسی ڈاکٹراورہسپتال سے علاج کراناپڑتاہے جوصحت انصاف کارڈکی فہرست میں شامل ہو۔ یہ مریض کی قسمت ہے کہ کس ڈاکٹراورکون سے ہسپتال والوں سے اس کاواسطہ پڑتاہے۔ پھرہرمرض کاعلاج بھی صحت کارڈپرنہیں ہوتا۔
صوبے کے جن ہسپتالوں میں صحت کارڈچلتاہے وہاں اکثرمیں مریضوں کوایسے ڈیل کیاجاتاہے جیسے گلی محلے کے دکاندارادھارمانگنے والوں یاکھاتہ داروں کوڈیل کرتے ہیں اوریہ توبچہ بچہ جانتاہے کہ دکاندارکارویہ اورسلوک نقدپیسے دینے والے کے ساتھ کیساہوتاہے اورادھارمانگنے والوں کے ساتھ کیسا؟ صحت کارڈپرچلنے والے ہسپتال اورڈاکٹرزغریبوں کے ساتھ ایسارویہ اپناتے اورسلوک روارکھتے ہیں کہ جیسے ان کایہ علاج سرکارکے پیسوں پرنہیں ان کے باپ داداکی جاگیرسے کہیں ہوتاہو۔ ایساہی سلوک اوررویہ کسی زمانے میں یوٹیلٹی سٹورزوالے بھی آٹا، چینی اورگھی لینے کے لئے سٹورزپرآنے والوں کے ساتھ روارکھتے تھے۔ اسی وجہ سے یوٹیلٹی سٹورزکاآج جوحال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
صحت کارڈیہ عوام کے لئے تواے ٹی ایم نہیں لیکن یہ بعض ہسپتالوں اورڈاکٹروں کے لئے کسی اے ٹی ایم سے کم بھی نہیں۔ جس ملک میں بینظیرانکم سپورٹ پروگرام سے منسلک بیواؤں، یتیموں، غریبوں اورمسکینوں کے حق کومعاف نہ کیاجارہاہووہاں صحت انصاف کارڈکوکیسابخشاجائے گایایہ کارڈاورسسٹم عوام کاخون چوسنے والے ظالموں سے کیسے بچے گا؟ ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ صحت انصاف کارڈکانظام مؤثرسے مؤثرتربناناہوگانہیں توپھراس صوبے میں صحت انصاف کارڈکابھی وہی حال ہوگاجوحال عوامی دسترخوان اورلنگرخانوں کاہوا۔ کیاکسی نے غورکیاکہ بھوکے کوکھاناکھلانے والاعوامی دسترخوان اورسایہ فراہم کرنے والے لنگرخانوں کانظام کیسے اورکیونکردرہم برہم ہوا؟
پروگرام اورمنصوبے کانظام اگربینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی طرح مربوط اورمنظم نہ ہوتوپھراس کاحشرایساہی ہوتاہے۔ پروگرام اورمنصوبہ چھوٹاہویابڑا، چیک اینڈبیلنس اورمانیٹرنگ کاسخت سے سخت نظام توسب کاضروری ہے۔ صحت کارڈمیں موجودپیسے اگرعوام کے ہی ہیں توپھران پیسوں کومرضی سے اپنی صحت، علاج ومعالجے پر استعمال کرنے کاحق بھی عوام کاہوناچاہئیے نہ کہ کسی ہسپتال اورکسی ڈاکٹرکا۔ یہ پیسے اگرنہ حکومت کے ہیں اورنہ عوام کے۔ کسی ختم وخیرات اورزکوٰۃ کے پیسے ہیں توپھرٹھیک ہے۔
ڈاکٹرزاورہسپتالوں والے جس طرح چاہیں اسے کاعذوں میں اڑاتے رہیں لیکن یہ پیسے اگرسرکارکی طرف سے عوام کے لئے ہی جاری ہوتے ہیں توپھرعوام کومالک مان کرہسپتالوں میں بھکاری نہیں مالک اورسیٹھ کی نظرسے دیکھناچاہئیے۔ یہ کونساطریقہ اورکیسانظام ہے کہ عوام کے صحت کارڈسے پیسے تو ڈاکٹروں اورہسپتالوں کی مرضی، ڈیمانڈاورخواہش کے مطابق کٹے لیکن سلوک اورعلاج ان کابھکاریوں کی طرح ہو۔ ان ہسپتالوں میں جہاں عوام اپنی جیب اورہاتھ سے پیسے دیتے ہیں کیاان ہسپتالوں میں عوام کے ساتھ ایساسلوک ہوتاہے؟ نہیں ہرگزنہیں۔ وہاں ڈاکٹروں اورنرسزسے لیکرہسپتال کی انتظامیہ تک ایک ایک فردعوام کوجی جی کرتاپھرتاہے اورساراعلاج مریض کی مرضی سے ہوتاہے لیکن صحت کارڈپرعلاج کرانے والے غریب اپنے کارڈسے بھاری اخراجات کٹنے ونکلنے کے باوجودان ہسپتالوں میں علاج کے لئے نہ صرف دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں بلکہ الگ سے ذلیل ورسوابھی ہوتے ہیں۔
صحت کارڈپرعلاج کراتے ہوئے ہسپتال اورڈاکٹروں کے رویے اورسلوک سے غریبوں کویوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے یہ غریب لوگ مفت میں یاخیرات کے پیسوں پرکہیں اپناعلاج کروارہے ہوں۔ صحت کارڈتوغریبوں کااستعمال ہوتاہے پراس پرڈان باقی لوگ بنے ہوتے ہیں۔ ہسپتال اورڈاکٹروں سے پہلے صحت انصاف کارڈبنانے والے لوگ بھی غریبوں کوہسپتالوں کے اتنے چکرلگواتے ہیں کہ مریض کے ساتھ ہسپتال آنے والوں کولمحوں میں خدایادآجاتاہے۔
مریض کوسہارادینے کے لئے آنے والااٹینڈنٹ پھردن بھرصحت کارڈبنانے اوربندکرانے کے پیچھے دوڑتارہتاہے۔ صحت انصاف کارڈکی مدمیں خزانے سے بھاری سرمایہ نکلنے کے باوجودغریب عوام کو صحت سہولیات اورعلاج معالجے کے لئے اس طرح ٹھوکریں کھانایہ فقط ظلم نہیں بہت بڑاظلم ہے۔ حکومت کواس سسٹم میں موجودخامیوں اورخامیاں پیداکرنے والوں کامکمل طورپرصفایاکرناچاہئیے تاکہ یہ تاریخی پروگرام تسلسل اورکامیابی کے ساتھ جاری رہے۔