Wednesday, 26 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Umar Khan Jozvi
    4. Zameen Kha Gayi Aasman Kaise Kaise

    Zameen Kha Gayi Aasman Kaise Kaise

    زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے۔ اس زمین نے بڑے بڑے آسمان نماانسان لمحوں میں کیسے کھائے یہ سوچ کربھی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسے ایسے انسان جن کے ماتھے اور دامن پرمٹی نہیں بلکہ ہلکی اورمعمولی سی دھول بھی ہم گوارہ نہیں کرتے تھے وہ بھی زمین نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس طرح مٹی میں مٹی کردیئے کہ آج اکثرکانام ونشان تک نہیں۔ استادمحترم قاری محمدحسنؒ کے بعدہمارے علاقے کی جان اورشان عطاء اللہ استادبھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔

    عطاء اللہ استادہماری آبائی یونین کونسل بٹہ موڑی کے ویلج کونسل راجمیرہ کی مرکزی جامع مسجدکے امام وخطیب اورگورنمنٹ مڈل سکول کے اسلامک ٹیچرتھے۔ مرحوم عطاء اللہ استادمولانااورقاری ہونے کے ساتھ ایک رہبرورہنماء بھی تھے لیکن علاقے کے لوگ پیارومحبت سے اسے عطاء اللہ استادکے نام سے یادکرتے تھے۔ ہمارے علاقے میں مولاناعطاء اللہ استاداورقاری محمدحسن مرحوم یہی دوافرادہی ایسے ہیرے تھے کہ جنہیں دیکھ کرچھوٹے شیطان کیا؟

    باطل کے بڑے بڑے پہلوان بھی کانپنے لگتے تھے۔ ان دونوں کارعب اوردبدبہ ہی ایساتھاکہ جس راستے سے یہ دونوں گزرتے تولوگ عزت واحترام اورادب کی وجہ سے وہ راستہ ہی بدل دیتے تھے۔ اللہ کے یہ دونوں نیک بندے مساجدومدارس میں منبرومحراب سنبھالنے کے ساتھ علاقے کے سرکاری سکولوں میں بھی مورچے اورمحاذسنبھالے ہوئے تھے۔ اللہ بخشے ہمارے استادمحترم قاری محمدحسن مرحوم جوجوزگاؤں کے امام وخطیب تھے وہ بھی عطاء اللہ استادکی طرح امامت وخطابت کے ساتھ ہائی سکول جوزمیں قوم کے بچوں کواسلامیات کی کلاس پڑھاتے تھے۔

    ہمارے وقت میں سکول اورمدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے جوزاورراجمیرہ کے سارے بچے اورجوان اس وقت صبح سے شام تک قاری صاحب کے کنٹرول میں رہتے کیونکہ مدرسے سے چھٹی ہوتے ہی سکول کاٹائم شروع ہوتا۔ پھرجب سکول سے چھٹی ہوتی تومدرسے کاٹائم سرپرآن پہنچتا۔ آج کے بچے تومارنہیں پیارکے سلوگن تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن ہم نے تو پیارنہیں مارکے سائے میں بیٹھ کرسب کچھ پڑھا۔ اسی وجہ سے قاری محمدحسن صاحب اورعطاء اللہ استاد سے جس نے بھی کچھ پڑھاوہ پھرکبھی اسے بھولانہیں۔

    قاری حسن صاحب کودنیاسے گئے سال نہیں سالوں ہوگئے ہیں۔ غالباانیس بیس سال قبل قاری صاحب اپنے ہزاروں شاگردوں، عقیدت مندوں اورمحبین کوسوگوارچھوڑکردنیاسے رخصت ہوئے لیکن قاری صاحب کاوہ پڑھنااورپڑھاناان کے شاگردوں کوآج بھی یادہے۔ گاؤں کے بچوں کی قاری صاحب نے ایسی تربیت کی تھی کہ ایسی تربیت ماں باپ نے بھی نہ کی ہوگی۔ آج بچے گھر، گلی اورمحلے کیا؟ سکول اورمدرسے میں بھی نہیں ڈرتے لیکن اس وقت بچے نہ صرف سکول ومدرسے بلکہ گلی اورمحلے میں گھومتے، پھرتے اورکھیلتے ہوئے بھی استادوقاری صاحب کانام سن کرکانپ جایاکرتے تھے۔

    مرحوم قاری محمدحسن کی طرح عطاء اللہ استادنے بھی دین اورتعلیمی میدان میں اس ملک وقوم کی بہت خدمت کی۔ چنددن پہلے عطاء اللہ استادجب اچانک دنیاسے رخصت ہوئے توپوراعلاقہ سوگ میں ڈوب گیا۔ استادجی کی جدائی پراپنے اوربیگانے دھاڑیں مارمارکررورہے تھے یوں محسوس ہورہاتھاکہ جیسے پوراعلاقہ یتیم ہوگیاہو۔ وہ جولوگ دین، امن، ترقی اورمحبت کی طرف لوگوں کوبلایاکرتے تھے وہ ایک ایک کرکے ہم سے جداہوگئے یارخصت ہورہے ہیں۔ عطاء اللہ استادنے علاقے میں دین کی سربلندی، ملک کی خوشحالی، امن اوربھائی چارے کے لئے گراں قدرخدمات سرانجام دیں۔

    مرحوم کی ساری زندگی قال اللہ اورقال رسول اللہ کی صدائیں بلندکرتے گزریں۔ ایسے ہی عظیم لوگوں کی جدائی پرشاعرنے کہاتھاکہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔۔ بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیداورپیدا۔ قاری محمدحسن مرحوم اورعطاء استادجیسے عظیم لوگ واقعی صدیوں بعدپیداہوتے ہیں۔ ان دونوں کی جدائی سے دینی اورتعلیمی میدان میں جوخلاپیداہواہے وہ اب صدیوں بعدبھی کبھی پرنہیں ہوسکے گا۔ ان دونوں نے اپنے عمل اورکردارسے جوتاریخ رقم کی اسے فراموش کرناہرگزممکن نہیں۔ جہاں بھی امن، ترقی، خوشحالی، پیار، محبت اوربھائی چارے کی بات ہوگی وہاں قاری محمدحسن اورعطاء اللہ استادجیسے قوم کے حقیقی محسنوں کاذکرضرورہوگا۔ ان دونوں نے مرتے دم تک امن اوربھائی چارے کاعلم بلندکئے رکھا۔ ان دونوں کی برکت سے ہماراپوراعلاقہ آج تک جھوٹ، فریب، دھوکہ، چوری، بے ایمانی، شراورفسادسے محفوظ رہا۔ افسوس اچھے اورنیک لوگوں کی زندگیاں کچھ زیادہ ہی مختصرہوتی ہیں یہ وقت سے بھی پہلے بہت پہلے چلے جاتے ہیں۔

    قاری حسنؒ بھی عطاء اللہ استادکی طرح اچانک اوروقت سے پہلے چلے گئے تھے۔ جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن ان کی یادیں رہ جاتی ہیں پھرجن کی ساری زندگیاں دین کی سربلندی، ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کے لئے گزریں ان کی یادتوپھرہرلمحہ تڑپاتی اوررلاتی رہتی ہے۔ ہمارے علاقے میں گنتی کے چندلوگ ہی ایسے تھے کہ جنہوں نے وہ وہ کام کئے جوان پرفرض بھی نہیں تھے۔ شہرسے گاؤں جاتے ہوئے آج بھی جب گاؤں کی سڑک پرقدم بلکہ دورسے پہلی نظرپڑتی ہے تواللہ بخشش فرمائے حاجی محمد ذرین اورعبدالقادرمولافوراًیادآجاتے ہیں۔

    اس سڑک کانام ونشان نہیں تھا، سڑک کے لئے اس وقت جولکیرسی کھینچی گئی تھی اس پرگدھے اورگھوڑے بھی مشکل سے چلاکرتے تھے یہ توعبدالقادرمولااورحاجی ذرین مرحوم کی ہمت اورکوشش تھی کہ انہوں نے شب وروزکی محنت سے ناممکن کوممکن بناکرعوام کاایک دیرینہ مسئلہ حل کردیا۔

    قاری محمدحسن اورعطاء اللہ استادبھی بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ مخلوق خدکے لئے بھلائی اورنیکی کے ہرکام میں نفس نفیس شریک ہوتے۔ امن، ترقی، خوشخالی اوردین کی سربلندی کی بات ہواوروہاں قاری محمد حسن یاعطاء اللہ استادنہ ہوں ایساکبھی نہیں ہوا۔ یہ دونوں عوام کے دکھ، درد، غم اورخوشی میں ہمیشہ شریک رہتے۔ اسی وجہ سے توقاری محمدحسن کے بعدعطاء اللہ استادکاجنازہ بھی جب اٹھاتواستادکی اس جدائی پرلوگ ایسے دھاڑیں مارکررو رہے تھے کہ جیسے ان کاکوئی سب کچھ چھن گیاہو۔