اگست انیس سو انتیس کے یہود عرب خونی بلوے سے کم ازکم یہ ثابت ہوگیا کہ فلسطین میں مشکوک برطانوی نوآبادیاتی عزائم کے سبب ایک بڑا آتش فشاں پھٹنے کو تیار ہے۔ انیس سو انتیس اور چھتیس کے درمیانی سات برس میں برطانوی نو آبادیاتی انتظامیہ سے تعلقات بگاڑے بغیر سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والی روائیتی فلسطینی اشرافیہ کے ہوتے ہوئے اچانک سے ایک چھلاوہ نمودار ہوتا ہے اور سست الوجود جدوجہد کے جسد میں بجلیاں بھر کے غائب ہو جاتا ہے۔ اس چھلاوے کا نام تھا عزالدین القسام۔
القسام کی پیدائش دسمبر اٹھارہ سو اکیاسی میں شامی صوبے جابلے میں ہوئی۔ ان کے والد کا تعلق قادریہ صوفی سلسلے سے تھا۔ عزالدین القسام قاہرہ کی جامعہ الازہر میں اپنے وقت کے ممتاز مذہبی علما محمد عبدہ اور راشد ردہ کے شاگرد رہے۔ انیس سو نو میں القسام آبائی صوبے جابلے لوٹے اور وہاں سلسلہِ قادریہ کے مدرسے میں پڑھانا شروع کیا۔ ستمبر انیس سو گیارہ میں جب اٹلی نے عثمانی صوبے لیبیا پر فوج کشی کی تو القسام نے لیبیائی فدائین کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا اور لگ بھگ ڈھائی سو رضاکاروں کی عسکری تربیت کا انتظام کیا۔ مگر کچھ ہی ماہ میں عثمانی سپاہ لیبیا سے پسپا ہوگئی اور القسام کے رضاکاروں کو وہاں پہنچنے کا موقع نہ مل سکا۔
چنانچہ جو چندہ جمع ہوا اس سے ایک نئے مدرسے کی بنیاد رکھی گئی اور باقی رقم لگ بھگ ایک عشرے کے بعد انیس سو انیس میں شام پر قابض ہونے والی فرانسیسی فوج کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں میں صرف ہوئی۔ تاہم بھرپور فرانسیسی قوت کے سامنے چند سو نفوس پر مشتمل مزاحمتی گروہ کی نہ چل سکی۔ القسام اور ان کے حامیوں نے کوہِ سیہیون کی پہاڑیوں سے چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں۔ مگر فرانس نے مقامی طفیلی ملیشیاؤں کی مدد سے شام پر اپنی گرفت مضبوط تر کر لی تو عزالدین نے براستہ بیروت حیفہ پہنچ کے تدریس شروع کر دی۔
انھوں نے حیفہ کی دو مساجد کو اپنا تعلیمی مرکز بنایا۔ غریب کسانوں اور مزدوروں کے بچوں کے لیے نائیٹ اسکول قائم کرنے کا تجربہ کیا۔ وہ اسکول میں داخلے کے لیے سڑکوں پر لاوارث بچے، قحبہ گر عورتوں کے بچے اور نشے کے عادی بچوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لاتے تھے۔
انیس سو بیس اور تیس کے عشرے میں جب جیوش نیشنل فنڈ نے شمالی گلیلی کے علاقے میں عرب کسانوں سے منہ مانگی قیمت پر زمینیں خریدنی شروع کیں تو بے زمین کسان شہروں کا رخ کرنے لگے جہاں روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود تھے۔ لہٰذا جمع پونجی چند ماہ میں ختم ہو جاتی اور یہ کسان بطور دہاڑی مزدور شہروں میں مارے مارے پھرتے۔
عزالدین نسبتاً خوشحال فلسطینی خاندانوں کی مدد سے ان بے زمینوں کی ہنرکاری اور تعلیم کا بندوبست کرتے۔ شمالی گلیلی کے کسانوں کو عزالدین نے ترغیب دی کہ چھوٹے چھوٹے قطعات بیچنے کے بجائے یکجا کرکے کوآپریٹو سوسائٹیاں بنائیں تاکہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ مگر برطانوی انتظامیہ کی بدنئیتی اور یہودیوں کی جانب سے زمین کی جارحانہ خریداری جاری رہی۔ چنانچہ عزالدین نے مقامی کسانوں کو دوطرفہ خطرے کے مقابلے پر قائل کرنے کے لیے دمشق کے مفتی بدرالدین التاجی الحسنی سے رجوع کیا۔ مفتی بدرالدین نے فتوی دیا کہ موجودہ حالات میں برطانوی استعماری پالیسیوں اور یہودی آبادکاروں کے خلاف جدوجہد جائز ہے۔
عزالدین نے انیس سو تینتیس میں مفتیِ اعظم فلسطین امین الحسینی کو مشورہ دیا کہ جب تک سیاسی جدوجہد کو مسلح طاقت نہیں ملے گی تب تک قابضین سے کچھ نہیں منوایا جا سکتا۔ یہودی آبادکاری تب ہی رک سکتی ہے جب فلسطین کا برطانوی انتظام گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مگر القسام مفتی امین الحسینی کو مسلح جدوجہد کی افادیت پر قائل نہ کر سکے۔
عزالدین القسام نہ صرف فلسطینی کسانوں اور مزدوروں کو منظم کرنے کے لیے کوشاں تھے بلکہ وائی ایم سی اے کی طرز پر انھوں نے حیفہ میں ینگ مینز مسلم ایسویسی ایشن (وائی ایم ایم اے) کو بھی فروغ دیا تاکہ مڈل کلاس فلسطینی نوجوانوں کو جدوجہد کا حصہ بننے پر آمادہ کیا جا سکے۔ وائی ایم ایم اے دراصل سیکولر اور مذہبی جھکاؤ رکھنے والے فلسطینیوں کے درمیان ایک رابطہ پل تھا۔ جو مخیر فلسطینی سیکولر بورژوا استقلال پارٹی کی مدد کرتے تھے وہی فلسطینی کاز سے مخلصانہ وابستگی کے اعتراف میں القسام کی بھی مدد کر رہے تھے۔
القسام کا نظریہ یہ تھا کہ بندوق وہ اٹھائے جس کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہو۔ جب بھی ضرورت پڑے بندوق بردار کمزور طبقات کی معاشی و سماجی مدد کے لیے بھی کمر بستہ رہے۔ اسے اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ ان بنیادی اوصاف کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ لوگ حصولِ آزادی کے جھنڈے تلے جمع کیے جا سکیں۔
عزالدین القسام نے ان معیارات پر پورے اترنے والوں کی جدوجہد کو موثر رخ دینے کے لیے الکف ال اسود (بلیک ہینڈ) کے نام سے مسلح تنظیم تشکیل دی۔ عزالدین اگرچہ سیاست اور مسلح تحریک کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے۔ مگر اسی تحریک میں شامل کچھ لوگ جن کی قیادت ابو ابراہیم الکبیر کے ہاتھ میں تھی محض فوری مسلح کارروائیوں کے قائل تھے۔ الکبیر خود کو تنظیمی ڈسپلن سے بھی بالا سمجھتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے مرکزی قیادت کی تائید کے بغیر شمالی گلیلی اور یروشلم میں یہودی آبادکاروں کو نشانہ بنایا۔
ابراہیم الکبیر کی غیر منصوبہ بند اتاولی کارروائیوں کے برعکس عزالدین نے اپنے لگ بھگ آٹھ سو فدائین کی جدید مسلح و نظریاتی تربیت پر وقت صرف کیا تاکہ انھیں بڑی لڑائی کے لیے تیار کیا جا سکے۔ ان کی ملیشیا نے عام یہودی شہریوں کے بجائے یہودی ملیشیاؤں اور برطانوی عسکری تنصیبات و عمارات کو ہدف بنانا شروع کیا۔ ان کارروائیوں سے فلسطینی اشرافیہ سخت گھبرائی جو یہودی آبادکاروں کی تو مخالف تھی مگر برطانوی انتظامیہ سے بھی بنا کے رکھنا چاہتی تھی۔
اکتوبر انیس سو پینتیس میں جافا کی بندرگاہ پر اسلحے کی بھاری کھیپ (پچیس مشین گنیں، آٹھ سو رائفلیں، چالیس ہزار گولیاں ) پکڑی گئی۔ یہ اسلحہ صیہونی دہشت گرد تنظیم ہگانہ نے بلجئیم سے اسمگل کروایا تھا۔ یہ خبر اونٹ کی کمر پر آخری تنکہ ثابت ہوئی۔ فلسطینی قومی قیادت نے اس واردات پر برطانوی انتظامیہ کی چشم پوشی کے خلاف قومی ہڑتال کی اپیل کی۔
آٹھ نومبر کو عین ہرود کے مقام پر فلسطینی پولیس کے ایک یہودی کانسٹیبل موشے روزن فیلڈ کی لاش ملی۔ حکام نے اس قتل کا ذمے دار عزالدین قسام کے گروہ کو قرار دیا۔ قسام اپنے نو ساتھیوں کے ہمراہ حیفہ چھوڑ کر جنین اور نابلس کے درمیان واقع پہاڑیوں میں روپوش ہو گئے۔ بیس نومبر کو ایک پولیس ٹکڑی نے انھیں شیخ زید نامی گاؤں کے قریب گھیر لیا۔ قسام اور ان کے تین ساتھی لڑتے ہوئے شہید ہو گئے جب کہ پانچ دیگر زخمی حالت میں گرفتار ہو گئے۔
امریکی مورخ عبداللہ شلیفر کے مطابق قسام جس طرح لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اس کہانی کی شکل میں فلسطینیوں کو اپنا پہلا حقیقی ہیرو مل گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ تب تک کی فلسطینی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ ہر سوچ کا عرب وہاں موجود تھا۔ تابوتوں پر عراق، سعودی عرب اور یمن کے پرچم ڈالے گئے۔ کیونکہ تب تک یہی تین عرب ریاستیں آزاد تھیں۔
فلسطینی مورخ رشید خالدی لکھتے ہیں کہ قسام پہلا شخص تھا جس نے فلسطینیوں کو موقع پرست روائیتی قیادت کے متبادل کے طور پر مسلح سیاسی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔
جب انیس سو انسٹھ میں ایک نئی فلسطینی مسلح سیاسی تنظیم تشکیل دی جا رہی تھی تو اس کا نام القسامون تجویز ہوا۔ مگر پھر تمام فلسطینیوں کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے الفتح کے نام پر کثرتِ رائے سے اتفاق کر لیا گیا۔ قسام کا نام مختلف شکلوں میں آج تک زندہ ہے۔ حماس کے فوجی بازو کا نام قسام بریگیڈ ہے۔ اسرائیل پر غزہ سے جو راکٹ برستے رہے ہیں انھیں قسام راکٹ کہا جاتا ہے۔
جاری ہے۔۔