فلسطین کی قسمت پر تقسیم کی پہلی مہر لارڈ ولیم پیل کی سربراہی میں نومبر انیس سو چھتیس میں لندن سے یروشلم آنے والے چھ رکنی رائل کمیشن نے لگائی۔ یہ کمیشن پچھلے کئی برس سے لگی آگ بجھانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر کمیشن کی آمد کے آٹھ ماہ بعد سات جولائی انیس سو سینتالیس کو اس کی حتمی سفارشات سامنے آئیں تو آگ مزید بھڑک اٹھی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو فلسطین کی جو عملداری امانتاً سونپی تھی اس کے مقاصد پورے نہ ہو سکے۔ فریقین (عرب اور یہودی) کے اختلافات ناقابلِ حل ہیں۔ ایک مشترکہ ریاست میں دونوں کا پرامن طریقے سے رہنا مشکل ہوگا۔ لہٰذا بہتر حل تقسیم ہے۔ (دس برس بعد ہندوستان کی تقسیم کے لیے بھی برطانیہ نے یہی دلیل دی)۔
کمیشن نے سفارش کی کہ یروشلم کو بین الاقوامی انتظام میں رکھا جائے اور اس شہر تک رسائی کے لیے جافا کے ساحل تک گزرگاہ بنائی جائے۔ باقی فلسطین کا ایک تہائی یہودی آبادکاروں کو الاٹ کر دیا جائے۔
(بظاہر اس تجویز کے تحت فلسطینیوں کو چھیاسٹھ فیصد علاقہ مل رہا تھا مگر بیشتر رقبہ بنجر تھا۔ البتہ یہودیوں کے لیے وادیِ گلیلی سمیت جو علاقے تجویز کیے گئے وہ رقبے میں کم ہونے کے باوجود زرخیز تھے اور فلسطین کے مشہور سنگتروں کی بیاسی فیصد پیداوار اسی زرخیز رقبے سے حاصل ہوتی تھی)۔
پیل کمیشن کی سفارشات کے مطابق یہودی آبادکار ریاست خود مختار علاقہ ہوگی جب کہ فلسطینی ریاست کی ٹرانس اردن کے ساتھ کنفیڈریشن بنے گی۔ جو علاقہ یہودیوں کو ملے گا اس میں آباد دو لاکھ پینتیس ہزار فلسطینیوں کو منتقل کرنا پڑے گا۔ جب کہ فلسطینیوں کو الاٹ ہونے والے علاقے سے بارہ سو پچاس یہودی آبادکاروں کو نکلنا پڑے گا۔
اردن کے شاہ عبداللہ اور بااثر فلسطینی نشیشیبی خاندان کے سوا ان تجاویز کو سب نے مسترد کر دیا۔ منصوبے کے کٹر مخالف مفتیِ اعظم امین الحسینی تھے جن کی اردن کے بادشاہ اور اسٹیبلشمنٹ نواز نشیشیبی خاندان سے کبھی نہیں بنی۔ اردن کے ساتھ مجوزہ کنفیڈریشن میں نشیشیبی خاندان کو اپنا سیاسی عروج اور الحسینی خاندان کو زوال نظر آ رہا تھا۔ جب کہ شاہ عبداللہ کو اضافی علاقہ مل رہا تھا۔
ان تجاویز کے شایع ہونے کے دو ماہ بعد آٹھ ستمبر کو شام کے شہر بلودان میں پہلی بین العرب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فلسطینی مندوبین کے علاوہ لبنان، شام، اردن، عراق، کویت، مصر، تیونس، الجزائر اور مراکش کے نمایندوں نے شرکت کی۔ اکثر نمایندوں کی حیثیت غیر سرکاری تھی۔ عرب کانفرنس نے پیل کمیشن کی سفارشات کو جھٹکتے ہوئے ایسی متحدہ فلسطینی مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا جس میں یہودی آبادکار ٹھوس دستوری ضمانتوں کے ساتھ مساوی شہری کے طور پر رہ سکیں۔
کانفرنس کے بعد فلسطینی تنظیموں کا بند کمرے کا اجلاس ہوا جس میں مزاحمتی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے تازہ حکمتِ عملی پر غور ہوا۔
پیل کمیشن کی سفارشات پر غور کے لیے بیس اگست انیس سو سینتیس کو منعقد ہونے والی بیسویں عالمی صیہونی کانفرنس نے برطانیہ کو یاد دلایا کہ بیس برس پہلے بالفور ڈیکلریشن کی شکل میں پورے فلسطین اور ٹرانس اردن پر مشتمل ایک یہودی قومی وطن کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب برطانیہ یہودیوں کو محض ایک چھوٹا سا علاقہ دے کر بہلانا چاہتا ہے۔
صیہونی کانفرنس کو اطمینان دلاتے ہوئے فلسطین کی جیوش ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے کہا کہ پیل کمیشن کی سفارشات مستقبل کی ریاست کی جانب پہلا قدم ہے۔ بن گوریان اور خائم ویزمین نے بلاواسطہ انداز میں یقین دلایا کہ پیل کمیشن نے اپنی سفارشات میں ایک خود مختار ریاست کے لیے جو سرحدات متعین کی ہیں انھیں" عارضی طور پر " تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
مارچ انیس سو اڑتیس میں برطانوی حکومت نے فلسطینیوں اور یہودیوں کے مابین علاقائی حدبندی کی ذمے داری وڈ ہیڈ کمیشن کے سپرد کی۔ مگر اس کمیشن نے پیل کمیشن کی سفارشات کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔ کیونکہ پیل منصوبے کے تحت قائم ہونے والی فلسطینی ریاست معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے علاوہ آبادی کی بڑے پیمانے پر جبری منتقلی خون خرابے کے بغیر ممکن نہ تھی۔
برطانوی حکومت نے بالآخر پیل کمیشن کے پارٹیشن منصوبے کو اس خدشے کے پیشِ نظر سردخانے میں ڈال دیا کہ ایسے وقت جب کہ ہٹلر کی وجہ سے یورپ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں عرب دنیا کی دشمنی مول لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
مگر تب تک تیر بدزنی کی کمان سے نکل چکا تھا۔ فلسطینیوں کا اپنے مستقبل کے بارے میں برطانیہ پر رہا سہا اعتماد بھی جاتا رہا۔ جب کہ صیہونیوں کو برطانیہ اس لیے برا لگنے لگا کہ ان کے خیال میں برطانیہ اپنے علاقائی مفادات کی قیمت پر کبھی بھی وہ یہودی ریاست نہیں دے گا جس کا بالفور ڈیکلریشن میں وعدہ تھا۔
نوآبادیاتی انتظامیہ بھی بھانپ چکی تھی کہ دوغلی پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔ چنانچہ ممکنہ تشدد پر قابو پانے کے لیے بطور حفطِ ماتقدم نوآبادیاتی انتظامی قوانین کو سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
چھبیس ستمبر کو تشدد کی تازہ لہر اٹھی جب مسلح فلسطینیوں نے ضلع گلیلی کے یہود نواز کمشنر لوئس اینڈریو کو قتل کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے حاجی امین الحسینی سے مفتیِ اعظم کا خطاب اور بیت المقدس وقف کمیٹی کی رکینت چھین لی۔ سیاسی جماعتوں کے اتحاد عرب ہائر کمیٹی کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے امین الحسینی اور ان کے بڑے بھائی جمال الحسینی علی الترتیب شام اور لبنان فرار ہو گئے۔ جب کہ عرب ہائر کمیٹی کے پانچ دیگر رہنماؤں کو ملک بدر کرکے بحرِ ہند کے جزیرے سیشلز پہنچا دیا گیا۔
فلسطین کی سرحدیں بند کر دی گئیں۔ بین الاقوامی ٹیلی فون رابطے منقطع ہو گئے۔ میڈیا سنسرشپ لاگو ہوگئی اور ایکرکے ضلع میں ایک نیا نظربندی کیمپ کھول دیا گیا۔ فوجی عدالتیں قائم ہوگئیں۔ مصر سے اضافی برطانوی فوجی کمک منگوائی گئی۔ پولیس کا کنٹرول فوجی کمانڈروں کے حوالے کر دیا گیا۔
شہروں پر تو کسی نہ کسی طور بظاہر قابو پالیا گیا البتہ دیہی علاقوں کو لگام دینا خاصا مشکل ثابت ہوا۔ دیہات کنٹرول کرنے کے لیے کیا کیا انتہائی متشدد حربے استعمال ہوئے۔ ان کی تفصیلات اگلے مضمون میں۔
جاری ہے۔۔