گزشتہ روز برطانیہ پر سات دہائیوں تک حکومت کرنے والی ملکہ کی آخری رسومات میں جتنے سربراہانِ حکومت و مملکت و ریاستی نمایندوں نے شرکت کی وہ معلوم تاریخ میں بے مثال ہے۔
روس، بیلا روس، شمالی کوریا اور برما کے سوا ہر ملک کو دعوت دی گئی۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اسے ایک گھٹیا سفارتی حرکت اور ملکہ کے بین الاقوامی شخصی وقار کی توہین قرار دیا۔ البتہ انسانی حقوق کے داعی کچھ برطانوی حلقوں نے سعودی صحافی جمال خشوگی کی موت کے پس منظر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی شرکت پر بھنویں بھی چڑھائیں۔
جاپانی شہنشاہ ناروہیٹو اور ملکہ مساکو نے بھی آخری رسومات میں شرکت کر کے پہلی بار یہ روایت توڑی کہ جاپانی بادشاہ بیرونِ ملک کسی سوگوار تقریب میں شرکت نہیں کرتا۔ دو ہزار انیس میں تخت سنبھالنے کے بعد شہنشاہ نارو ہیٹو نے پہلی بار ملک سے باہر قدم رکھا۔
آخری رسومات میں یورپ کے تمام شاہی خاندانوں کی نمایندگی تھی۔ ان خانوادوں کی برطانوی شاہی خاندان سے دور پرے کی پرانی رشتہ داریاں بھی ہیں، چند برطانوی شہری اس پر بھی چیں بہ جبیں تھے کہ ایسے دور میں جب برطانیہ کوویڈ کے بعد مسلسل اقتصادی بحران اور مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ اتنے طمطراق سے آخری رسومات ادا کرنے کے بجائے سادگی بھی اختیار ہو سکتی تھی۔ اتنے غیرملکی مہمانوں کی حفاظت کے لیے برطانوی تاریخ کے سب سے مہنگے پولیس آپریشن پر ہی کروڑوں پاؤنڈ لگ گئے۔
یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ پچھلے ستر برس میں برطانیہ نے انسانی حقوق پامال کرنے والی حکومتوں کے ساتھ جو اقتصادی و عسکری روابط رکھے اور اس سے پہلے پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں اپنی نوآبادیات میں آزادی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے جس طرح کے جبری ہتھکنڈے استعمال کیے وہ ملکہ کے علم میں بھی بخوبی تھے۔ مگر ان کے نام پر ہونے والی ان زیادتیوں پر شاہی محل کی جانب سے کبھی علامتی بے چینی بھی ظاہر نہیں کی گئی۔ کچھ حلقوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اکیسویں صدی میں ایک بے اختیار بادشاہت کی شان و شوکت دکھانے بلکہ خود بادشاہت کا ادارہ برقرار رکھنے کا کیا جواز ہے۔
مگر ملکہ کے آخری دیدار کے لیے میلوں لمبی لائن میں چوبیس گھنٹے تک ہزاروں شہریوں کے کھڑے رہنے کے مناظر بتاتے ہیں کہ اکثریت آج بھی بادشاہت برقرار رکھنے کی حمایتی ہے اور اس ادارے کو اتحاد اور قومی فخر کا نمایاں ترین استعارہ سمجھتی ہے۔
شاہ پرستوں کی دلیل ہے کہ بادشاہت صدیوں پرانے پرشکوہ تسلسل کی علامت ہے۔ بادشاہت ہی کے تحت برطانیہ ایک عام تجارتی ریاست سے ایسی عالمی سلطنت میں ڈھلا جس کے طول و عرض میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی کہ شاہی خاندان کے پروٹوکول، روایات اور سرکاری مصروفیات پر جو اخراجات ہوتے ہیں وہ دراصل انھی کی املاک سے حاصل ہونے والے پیسے سے ہوتے ہیں۔
یہ اثاثے محلات، زرعی رقبے، اصطبل، کمرشل منصوبوں، ڈاک ٹکٹ کے قیمتی کلیکشن، زیورات و جواہرات، رائیلٹی اور پینٹنگز کی شکل میں ہیں۔
ان ذرایع سے حاصل ہونے والی پچھتر فیصد آمدنی سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے اور پچیس فیصد آمدنی سوورن گرانٹ کے نام پر شاہی خاندان کے اخراجات کے لیے مختص ہے۔ سوورن گرانٹ کا حقدار بھی پورا شاہی خاندان نہیں بلکہ بادشاہ اور اس کے براہِ راست وارث ہیں۔ اس گرانٹ کا سالانہ تخمینہ ایک سو دس ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے، اگر اس گرانٹ کو برطانوی شہریوں پر تقسیم کیا جائے تو پینسٹھ پنس فی کس بنیں گے۔
البتہ ایک لاکھ تیس ہزار ایکڑ پر مشتمل ڈچی آف لنکاسٹر نامی زرعی اراضی اور املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی براہ راست شاہی خاندان کو ملتی ہے مگر قانون یہ ہے کہ شاہی اثاثوں کو کرائے پر تو دیا جا سکتا ہے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
ان مراعات کے عوض شاہی خاندان کی مختلف سرگرمیوں، خصوصی تقریبات اور غیر ملکی دوروں کے نتیجے میں برطانیہ کے لیے جو عالمی تشہیر اور خیر سگالی جنم لیتی ہے اور غیرملکی سیاحوں کی جتنی تعداد برطانیہ میں پیسے خرچ کرتی ہے۔ اس کا حساب کتاب کیا جائے تو شاہی خاندان پر جو اخراجات ہوتے ہیں ان کا چار سے پانچ گنا پیسہ برطانوی معیشت کو شاہی خاندان کی کشش اور سافٹ پاور کے سبب واپس حاصل ہو جاتا ہے۔ شاہی آمدنی روایتی طور پر ٹیکس سے مستثنٰی رہی ہے مگر انیس سو بانوے سے ملکہ نے اپنی ذاتی آمدنی پر انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس دینے کی روایت ڈالی۔
اگرچہ ملکہ برطانیہ پانچ سو ملین ڈالر کے ذاتی اثاثے رکھتے ہوئے ملک کی سب سے امیر خاتون تھیں۔ اور شاہی خاندان کی مجموعی اثاثہ جاتی دولت کا تخمینہ تقریباً اٹھائیس ارب ڈالر ہے۔ لیکن دنیا میں اس وقت قائم دس امیر ترین بادشاہتوں کی فہرست میں برطانوی شاہی خاندان کہیں پانچویں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔
مثلاً پندرہ ہزار ارکان پر مشتمل سعودی شاہی خاندان کی مجموعی دولت کا اندازہ ایک اعشاریہ چار کھرب ڈالر لگایا جاتا ہے۔ یہ دولت اسپین یا آسٹریلیا کی سالانہ قومی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ شاہ سلیمان بن عبدالعزیز تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کے ذاتی اثاثوں کے مالک ہیں۔ جب کہ شہزادہ ولید بن طلال کے اثاثوں کی مالیت سولہ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
کویت کا ایک ہزار افراد پر مشتمل الصباح خاندان تین سو ساٹھ ارب ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے۔ قطر کے آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل التہانی خاندان کے مجموعی اثاثوں کی مالیت لگ بھگ تین سو پینتیس ارب ڈالر ہے۔ امیرِ قطر شیخ تمیم بن حماد کی ذاتی دولت کا اندازہ تقریباً دو ارب ڈالر ہے۔ مغربی ممالک میں مختلف تعمیراتی و خدماتی شعبوں میں قطر کی اچھی خاصی سرمایہ کاری ہے۔
اسی طرح ابوظہبی کے النہیان خاندان کے اثاثوں کی مالیت ڈیڑھ سو ارب ڈالر اور دبئی کے المکتوم خاندان کے اثاثوں کی مالیت اٹھارہ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ ان خاندانوں نے بھی برطانوی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ دنیا کے دس امیر ترین شاہی خاندان مجموعی طور پر دو اعشاریہ چار کھرب ڈالر مالیت کے اثاثوں کے وارث ہیں۔
برطانیہ چونکہ طویل عرصے تک سب سے بڑی نوآبادیاتی سلطنت کا مالک رہا لہٰذا اس تسلط کے طفیل کئی ایسے نوادرات بھی ہاتھ لگے جو جدید تعریف کے مطابق غصب شدہ دولت کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً برطانوی بادشاہ کے عصا میں پانچ سو تیس قیراط وزن کا ہیرا اسٹار آف افریقہ جڑا ہوا ہے۔ یہ ہیرا جنوبی افریقہ سے لندن منتقل کیا گیا۔ اسی طرح تاجِ برطانیہ میں جو کوہِ نور جگمگا رہا ہے وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس سے پہلے کابل کے تخت پر براجمان شاہ شجاع اور اس سے پہلے کئی راجاؤں کی پگڑی کی زینت رہا۔ انگریزوں کے ہاتھ یہ ہیرا اٹھارہ سو انچاس میں پنجاب کی فتح کے بعد لگا۔ آج بھی بھارت، پاکستان اور افغانستان کا کوہِ نور پر دعوی برقرار ہے۔
مگر اسی دنیا میں ایسی بھی بادشاہتیں ہیں جو سرکاری امداد کے بغیر گزارہ کرتی ہیں۔ مثلاً لکٹینسٹائین کے شاہی خاندان کو حکومت سے کوئی پیسہ نہیں ملتا۔ اس کا گزارہ باپ دادا کے اثاثوں پر ہے۔ لکسمبرگ کے بادشاہ، ملکہ اور ان کے دو بچے ہی سرکاری وظیفہ حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ جب کہ ہالینڈ کا شاہی خاندان خود کماتا اور کھاتا ہے اور ملک کے لیے سفارتی خدمات کی صورت میں اسے بس ٹی اے ڈی اے ملتا ہے، حالانکہ تینوں یورپی ریاستیں ہر اعتبار سے خوشحال ہیں۔
بادشاہت کوئی آسان پیشہ نہیں۔ کبھی کبھی شاہی میزبان کی فرمائش کی لاج رکھنے کے لیے مہمان کو بھی اپنی روایات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً ستمبر انیس سو اٹھانوے میں سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ ملکہ برطانیہ کی بیس ہزار ایکڑ پر مشتمل بالمورل اسٹیٹ میں خصوصی مہمان بنے تو ظہرانے کے بعد ملکہ نے انھیں اپنی زمینوں کی سیر کرانے کا فیصلہ کیا۔ ملکہ نے خود لینڈ روور کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ شہزادہ عبداللہ کچھ لمحے کو ٹھٹھکے اور پھر بادلِ نخواستہ ملکہ کے برابر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئے۔
اس شاہی ڈرائیونگ کے اکیس برس بعد سعودی خواتین کو بھی گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی، مگر یہ اجازت شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ان کے وارثِ تخت شاہ سلیمان کے ولی عہد محمد بن سلیمان کی مرہونِ منت ہے۔