قیامِ پاکستان کے بعد شروع کے تئیس برس تک احتساب کے نام پر صفائی میں ہر اسٹیبلشمنٹ مخالف گھوڑا گدھا ہدف ٹھہرا۔ حاکمِ وقت کی انا اور خوِ انتقام کی تسلی تو بخوبی ہو گئی مگر جسے لغوی و معنوی احتساب کہتے ہیں اس کی غیر جانبدارانہ تکمیل ادھوری ہی رہی۔
لیاقت دور کے پروڈا اور ایوبی دور کے ایبڈو کے ذریعے مرضی کا سیاسی منظرنامہ تشکیل دینے کی کوشش سے سدھار کم ہوا اور خلفشار زیادہ بڑھا اور مشرقی و مغربی بازو کے مابین سیاسی بیگانگی کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔
اسی طرح یحییٰ دور کے آغاز میں تین سو تیرہ ناپسندیدہ بیوروکریٹس کی احتسابی صفائی کے سبب گورننس تو خیر کیا بہتر ہوتی۔ انگریز دور کی نوآبادیاتی اصول پسندی کے سانچے میں ڈھلی آئی سی ایس کلاس کی بتدریج بے دخلی کے سبب جو خلا پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لیے قابلیت و اہلیت کو جی حضوری اور وفاداری کی سان پر چڑھا دیا گیا۔ درمیانے درجوں کی سویلین افسر شاہی بھی سیاسی و عسکری مفادات کے ماتحت ہوتی چلی گئی۔
ترقی و تنزلی کے پیمانے بدلے تو گڈ گورنننس کا تھوڑا بہت جذبہ اور دلیرانہ فیصلوں کی خواہش نوکری بچاؤ تحریک کی شکل میں افسر شاہی کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ ریاستی فیصلوں کا معیار گرتا چلا گیا اور تنظیم و ضبط کو منظم افراتفری نے معزول کر دیا۔
جب زمام کار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی تو ان کی پہلی کابینہ میں شامل چہروں کو دیکھ کے امید بندھی کہ اب گڈ گورننس کا زمانہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ چند ماہ بعد ہی یہ تاثر بکھرنا شروع ہو گیا۔ فیصلہ سازی میں میرٹ سے زیادہ انتقام و حساب چکتا کرنے کی خواہش جھلکنے لگی۔ نئی عوامی حکومت کو افسرشاہی کے ڈھانچے کو عوامی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کا شوق ضرور چرایا۔
البتہ لگ بھگ چودہ سو افسروں کی جو برطرفی فہرست بنی ان میں وہ افسر بھی شامل تھے جنھوں نے دورِ ایوبی میں بھٹو صاحب کو بلواسطہ یا بلاواسطہ زچ کیا یا ان کی شکل نئے حاکموں کو پسند نہیں تھی۔ فہرست میں وہ افسر بھی شامل تھے جو بھٹو صاحب کے کسی ساتھی یا جاننے والے کو رنجیدہ کر چکے ہوں گے۔ اور وہ افسر بھی شامل تھے جو واقعی اپنی بے اعتدالیوں کے سبب برطرفی و تنزلی کے مستحق تھے۔
لیکن گزشتہ تمام احتسابی فہرستوں کی طرح یہ فہرست بھی عجلت میں بنائی گئی اور پچھلی فہرستوں کی طرح اس میں بھی اہل نا اہل گدھے گھوڑے کرپٹ ایماندار کی کوئی خاص تمیز نہیں رکھی گئی۔
بھٹو دور شروع ہوتے ہی جو لگ بھگ ڈیڑھ ہزار افسر بنا شوکاز نکالے گئے ان میں سندھ واحد صوبہ تھا جہاں محکمہ تعلیم کو بھی اس تطہیری دائرے میں شامل کیا گیا اور یہ صفائی بھی ایک خاص تعصبی زاویے کے تحت کی گئی۔
مثلاً بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کے پہلے سیکریٹری مرزا عابد عباس کے بارے میں جس جس نے بھی سنا کہ وہ بھی لسٹ میں شامل ہیں بھونچکا رہ گیا۔ سیکریٹری بننے سے پہلے مرزا صاحب سٹی کالج حیدرآباد کے طویل عرصے تک پرنسپل رہے۔ اس دوران کالج کی پالیسی یہ تھی کہ کسی بھی قابل طالبِ علم کو محض اس لیے داخلہ دینے سے انکار نہیں کیا جائے گا کہ وہ فیس جمع کرانے کے قابل نہیں۔ اس فیصلے کے سبب معاشی طور پر کمزور سیکڑوں طلبا نہ صرف تعلیم حاصل کر پائے بلکہ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوئے۔
مرزا عابد عباس حیدرآباد کی ادبی زندگی کے بھی محور تھے۔ کمشنر نیاز صدیقی اور مرزا صاحب کی بدولت شہر کے ہر بڑے مشاعرے میں فیض، جوش، جگر سمیت صفِ اول کے بیشتر ادبی مشاہیر کی موجودگی ناگزیر ہوا کرتی تھی۔
ستم ظریفی یہ رہی کہ جس دن مرزا عابد عباس کو بے قاعدگی و اختیارات کے بے جا استعمال وغیرہ وغیرہ کے الزام میں برطرف کیا گیا۔ اگلے دن سٹی کالج کے بورڈ آف گورنرز نے انھیں پیش کش کی کہ وہ جب چاہیں کالج کے پرنسپل کی ذمے داریاں پھر سے سنبھال سکتے ہیں۔ ایک ہفتے بعد حکومت نے نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔ قومیائے گئے کالجوں میں سٹی کالج بھی شامل تھا۔
برطرفی کے بعد ایک سرکردہ اردو اخبار میں مرزا صاحب کا خط چھپا جس میں انھوں نے چیلنج کیا کہ اگر گورنر سندھ (میر رسول بخش تالپور) جو کہ مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں صرف یہ گواہی دے دیں کہ میں نے اپنے منصب پر رہتے ہوئے ایک روپے کی بھی بے قاعدگی کی ہے تو اس کے بعد ریاست مجھے برسرِ عام پھانسی دے دے۔ میں یہ سزا بلا حجت قبول کر لوں گا۔
حکومت کی جانب سے اس چیلنج کا جواب خاموشی کی صورت میں آیا۔ مرزا صاحب نے اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا۔ انیس سو اٹہترمیں وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے اور انسپکٹر آف کالجز سندھ کے عہدے پر تعینات کیے گئے اور پھر ریٹائرمنٹ لی (مگر نہ جانے ایسے کتنے ہوں گے جنھوں نے مزاحمت کے بجائے گوشہ نشینی کا انتخاب کیا)
گیہوں کے ساتھ گھن پس جانے کی یہ مثال مجھے اس لیے دینا پڑی کیونکہ نوکری سے برطرفی اور بحالی کے درمیانی برسوں میں مرزا عابد عباس کے پانچ بچے زیرِ تعلیم تھے۔ شدید معاشی تنگی کے باوجود انھوں نے کسی در پر دستک نہیں دی اور کسی بھی قیمت پر بچوں کی تعلیم کا حرج نہیں ہونے دیا۔
ان میں سے ایک بچہ میجر جنرل (ریٹائرڈ) اطہر عباس ہے، دوسرا بچہ ڈان کا ایڈیٹر ظفر عباس ہے، تیسرا بچہ مظہر عباس چوٹی کے صحافیوں میں ہے، چوتھا اظہر عباس ایک نجی ٹی وی چینل کا ایم ڈی ہے اور پانچواں انور عباس امریکا میں ایک آئی ٹی کمپنی سے منسلک ہے۔ (چند برس پہلے مرزا عابد عباس کا ذہن پر کوئی بھی داغ لیے انتقال ہو گیا)۔
بھٹو صاحب کا ایک تاریخی کارنامہ انیس سو تہتر کے متفقہ آئین کا نفاذ ہے۔ اس آئین کے تحت دیہی علاقوں کو شہری علاقوں کے برابر ترقی دینے کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کو آئینی شکل دی گئی اور اس کی ابتدائی مدت دس برس طے کی گئی۔ اگرچہ اس سسٹم کو بھی طاقتور سیاسی خاندانوں نے اپنوں اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے کے لیے استعمال کیا مگر بہت سے ایسے دیہی نوجوانوں کا بھی بھلا ہوا جو نامساعد سماجی و تعلیمی حالات کے سبب بہتر مواقعوں میں پھلنے پھولنے والے نوجوانوں سے کھلے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے تھے۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ مگر بھٹو حکومت نے ایک اور اقدام بھی کیا جس کے دوررس اثرات ہوئے۔ یعنی وہ سرکاری آسامیاں جو مقابلے کے امتحانات یا سلیکشن کے طے شدہ معیار کی کسوٹی کے ذریعے پر کی جاتی تھیں۔ اس کے متوازی لیٹرل انٹری سسٹم متعارف کروا دیا گیا۔ یعنی سیاسی و سفارشی بنیاد پر اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی۔ (بعد ازاں اس میں پیسہ بھی شامل ہوتا گیا)۔
سلیکشن کے مروجہ اور نسبتاً شفاف نظام کے ہوتے لیٹرل انٹری متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔ البتہ لیٹرل انٹری سسٹم کے سبب پبلک سروس کمیشن اور پراونشنل سروس کمیشن جیسے اداروں کی توقیر ختم ہو گئی۔ اعلیٰ عہدوں پر پیراشوٹ کے ذریعے اترنے والے امیدوار براجمان ہونے لگے اور یہ تقرریاں عدلیہ، پولیس، کسٹمز، ریونیو سمیت ہر اس کلیدی محکمے میں ہوئیں جنھیں گورننس کا ستون سمجھا جاتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جو افسر سلیکشن کے طے شدہ راستے سے میرٹ کے بل بوتے پر آئے تھے ان میں مایوسی، غصہ اور کام سے عدم دلچسپی بڑھی۔ لیٹرل انٹری والے کئی افسر ترقی کرتے کرتے فیصلہ سازی کے مجاز کلیدی عہدوں تک جا پہنچے اور پھر انھوں نے بھی ایسے ماتحتوں کو بھرتی کرنے کے لیے اختیارات استعمال کیے جو ان کے لیے خطرہ نہ بنیں یا ان سے آگے نہ نکل جائیں۔
لیٹرل انٹری نے اس کلاس کو جنم دیا جو اہلِ اقتدار کی نہ صرف احسان مند تھی بلکہ ان کے لیے جائز و ناجائز سے قطع نظر ہر کام کرنے پر آمادہ تھی۔ ان کے لیے اوپر سے آنے والا یہ حکم کافی تھا کہ " یہ کام ہر صورت میں کرنا ہے۔ یہ کیسے ہوگا، قانونی راستہ تم خود تلاش کر لینا "۔
یہ وہ سانحہ ہے جس نے گڈ گورننس کے تصور اور معیاری فیصلہ سازی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ اس کے بعد بھی احتساب کا سرکس جاری رہا۔ (قصہ جاری ہے)۔