جب پانچ جولائی انیس سو ستتر کو جنرل ضیا الحق نے آئین معطل کر کے قومی تاریخ کا تیسرا مارشل لا نافذ کیا تو پہلی تقریر میں ہی یہ تاثر دیا کہ یہ اقدام انتہائی مجبوری میں اٹھایا گیا ہے۔
مقصد نوے دن کے اندر اندر انتخابات کروا کے ملک کو دوبارہ جمہوریت کی پٹڑی پر ڈال کر اقتدار منتخب نمایندوں کے حوالے کرنا ہے۔ مارشل لا حکومت ضرورت سے ایک دن زیادہ نہیں ٹھہرے گی۔ چنانچہ جماعتی بنیادوں پر اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔
بھٹو دور میں ریاست سے بغاوت اور غداری کی فردِ جرم کے تحت صوبہ سرحد(خیبر پختون خوا)اور بلوچستان کی قوم پرست کالعدم قیادت پر مقدمہ چلانے والے حیدر آباد ٹریبونل کو ختم کر دیا گیا۔ بلوچستان میں چار برس سے جاری فوجی آپریشن رک گیا اور جلاوطن بلوچ اور پختون قیادت کو وطن واپسی کی دعوت دی گئی۔ رہائی کے بعد کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے قائد خان عبدالولی خان کی جنرل ضیا الحق سے ملاقات ہوئی۔ پھر یہ نعرہ بلند ہوا کہ احتساب کے بغیر انتخابات بے معنی ہیں۔
چنانچہ اکتوبر میں ہونے والے مجوزہ انتخابات پہلے احتساب پھر انتخاب کے اصول کی روشنی میں غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیے گئے۔ اس کے بعد پی این اے کی جماعتوں پر مشتمل عبوری حکومت سے بھٹو مخالف معروف چہرے الگ کرنے اور پچھلے ادوار کے آزمودہ حب الوطنی و وفاداری کی ریاستی کسوٹی پر پورے اترنے والے سویلین چہرے متعارف کروانے کا عمل شروع ہوا۔
بھٹو حکومت کی "انتظامی، اقتصادی اور انتقامی بے اعتدالیوں "کو قوم کے سامنے رکھنے کے لیے ہزار ہزار سے زائد صفحات کے چار جلدوں پر مشتمل قرطاسِ ابیض سیریز شایع کی گئی۔ مگر بھٹو کے خلاف ذاتی مالی کرپشن کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل سکا۔ ضیا حکومت نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کے جذبے کے تحت مارشل لا ریگولیشن نمبر سولہ اور سترہ کو اپنا رہنما بنایا۔
انیس سو اناسی میں بھٹو کی پھانسی کے بعد پہلی بار غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس غیر جماعتی تجربے کے پسِ پردہ یہ خواہش تھی کہ برادری ازم کو زندہ کر کے ایک ایسی متبادل شکر گذار قیادت ابھاری جائے جس کی آبیاری سے پیپلز پارٹی کا سیاسی زور توڑا جا سکے۔
غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کی اس نرسری سے ان پودوں کا انتخاب ہوا جنھیں آگے چل کر صوبائی اور قومی سطح تک " گروم " کرنا تھا۔ اس نرسری کے بطن سے جو قیادت پھوٹی وہ پہلے نامزد مجلس شوریٰ کا حصہ بنی، بعدازاں انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں تک پہنچی۔ ریاست نے نئی ابھرنے والی قیادت کی نہ صرف سیاسی رہنمائی کی بلکہ معاشی پشت پناہی بھی کی۔
سرکاری بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول آسان ہوا تو وسطی پنجاب میں نئی نئی ابھرنے والی متوسط اور تاریخی طور پر وفادار کاروباری کلاس کو اپنا دائرہ وسیع کرنے اور اس سے پیدا ہونے والی منفعت کی سیڑھی کے ذریعے سیاست میں سرمایہ کاری کے راستے دکھائی دینے لگے۔ یوں پاکستانی جسدِ سیاست میں روایتی سیاسی جاگیری اثر و رسوخ اور سفارش کے کلچر کو کاروباری پیسے کی طاقت نے پسپا کرنا شروع کیا۔ افغان جنگ کے سبب کالے دھن کے بہاؤ کا رخ بھی سیاسی ندی کی جانب ہوتا چلا گیا۔ اس رجحان کو لگام دینے کے بجائے ریاست نے نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنائی۔
ماضی میں منتخب نمایندوں کو اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی نشان دہی کرنے اور سفارشات کا حق توحاصل تھا۔ مگر ان سفارشات کی روشنی میں ترقیاتی بجٹ بیوروکریسی ہی خرچ کرنے کی مجاز تھی۔
انیس سو پچاسی کی غیر جماعتی اسمبلیوں میں پہلی بار یہ روایت پڑی کہ قومی ارکان کو پانچ ملین روپے اور صوبائی ارکان کو تین تین ملین روپے حلقہ جاتی ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بانٹے گئے۔ اس رقم کے استعمال کا آڈٹ کبھی ہوا یا نہیں؟ بوجھو تو جانیں۔ اس رواج نے ہر آنے والی اسمبلی کے ساتھ دن دونی ترقی کی۔ پانچ ملین روپے پانچ کروڑ فی کس سے ہوتے ہوتے آج پچاس کروڑ روپے فی کس تک جا پہنچے ہیں۔ (اس بابت وزیرِ اعظم نے پچھلے ہفتے ہی اعلان کیا ہے۔ مگر یہ وضاحت نہیں کی کہ اس کا اطلاق صرف حکمران جماعت کے ارکانِ اسمبلی پر ہی ہوگا یا حزبِ اختلاف کو بھی نوازا جائے گا۔)
ضیا دور میں ہی بینکوں سے لیے قرضے معاف کروانے کے رجحان میں تیزی آئی۔ اگر پچھلے چالیس برس کے دوران قرضے رائٹ آف کرنے کے سرکاری اور میڈیائی ریکارڈ اور پارلیمنٹ میں اس بابت پوچھے گئے سوالات کے جواب میں دستیاب اعداد و شمار کو یکجا کر کے چھانا جائے تو پچھلی چار دہائیوں میں درجہ اول و دوم کے سیاستدانوں، چار سو سے زائد کاروباریوں اور نجی شعبے کے اداروں کے جو قرضے رائٹ آف ہوئے ان کی مالیت پانچ سو ارب روپے سے زائد ہے۔ مگر اس بارے میں پورا ریکارڈ شائد کبھی بھی طشت از بام نہ ہو پائے۔
اس سارے شخشخے کے نتیجے میں ایک نیم سیاسی ذہنی متبادل تیار ہوتا گیا۔ ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کی طرز پر انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی پارلیمانی میٹرنٹی ہوم میں تجربہ کار دائیوں کی نگرانی میں ایک نئی مسلم لیگ کی پیدائش ہوئی۔ یوں پیپلز پارٹی سمیت جدوجہدی سیاست پر یقین رکھنے والوں کی سرگرمیوں پر بند باندھنے کا پروجیکٹ کامیابی سے مکمل ہوا۔ مگر اس پروجیکٹ کے معمار کامیابی کا پھل دیکھنے سے پہلے بالا ہی بالا عالمِ بالا سدھار گئے۔
چونکہ متبادل قیادت ابھارنے کے تجربے کی کامرانی کے بعد جب کوئی کھٹکا نہ رہا تو جماعتی انتخابی نظامِ سیاست پھر سے بحال کر دیا گیا۔ سولہ نومبر انیس سو اٹھاسی کو گیارہ برس کے وقفے سے پہلی بار جو عام انتخابات اس اطمینان کے ساتھ ہوا کہ اگر کوئی جماعت (یعنی پیپلز پارٹی) دو تہائی اکثریت حاصل کر بھی لے تو آٹھویں آئینی ترمیم کے تحت بااختیار صدر کو اپنی بقا کے لیے خوش کرنے میں ہی اپنی مدت گذار دے گی۔
مگر پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت بھی نہیں ملی اور پیپلز پارٹی کا سیاسی دف مارنے کے لیے آئی جے آئی کے " نسخہِ حمیدیہ " کی شکل میں ایک متبادل سیاسی قوت نے بھی پلڑے کو دوسری جانب جھکنے سے روکے رکھا۔ (ایک احتیاطی انتباہ: نسخہِ حمیدیہ کی اصطلاح کا مرحوم حمیدگل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ان کی آمد و برخواست سے کئی سو برس پہلے سے زیرِ استعمال ہے)۔
یوں پیپلز پارٹی کو دو سو پانچ جنرل سیٹوں میں سے ترانوے نشستوں کے ساتھ بندھی ہوئی وفاقی سرکار اور سندھ اور آئی جے آئی کو چون سیٹیں اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کی باگ تھما دی گئی۔ البتہ خزانے، دفاع اور خارجہ پالیسی کی کنجیاں بادشاہ گروں نے اپنے نیفے میں اڑس لیں۔ گویا عوام کے ہاتھ میں وہ جمہوری چھنکنا تھما دیا گیا جس کا وزن ہلکا مگر شور زیادہ تھا۔
نئی نویلی حکومت پر صرف پانچ ماہ بعد ہی اپریل انیس سو نواسی میں تحریکِ عدم اعتماد کی شکل میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے پہلا حملہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ اس ناکام گھوڑا بدل یلغار(ہارس ٹریڈنگ) پر لگ بھگ ایک کروڑ ڈالر کے اخراجات ہوئے جس میں مبینہ طور پر نجی برادر غیرملکی پیسہ بھی شامل تھا۔ مگر آج تک ڈرائنگ رومز کی حد تک اس شبخونی اسکینڈل کا ذکر ضرور ہوتا ہے لیکن احتسابی تحقیق کا کسی میں یارا نہیں۔
البتہ وزیرِ اعظم اور ان کے مسٹر ٹین پرسنٹ کے خلاف ضرور وسیع کرپشن کی کہانیاں مشتہر ہوئیں۔ جب ان کہانیوں سے فضا ہموار ہو گئی تو اگست انیس سو نوے میں ڈھائی برس کے اقتدار کے بعد ہی صدرِ مملکت نے اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے بے نظیر حکومت کو برخواست کر دیا اور کرپشن کے ریفرینسز فائل کر دیے گئے۔ آصف زرداری گرفتار ہوئے۔ غلام مصطفی جتوئی کی نگراں حکومت نے انتخابات کروائے اور پچھلی بار ترانوے نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی کو اس بار پینتالیس اور چون سیٹیں جیتنے والی آئی جے آئی کو ایک سو گیارہ سیٹیں بانٹ دی گئیں۔
توقع تھی کہ اگر واقعی بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر نے پہلی بار حکومت ملنے پر صرف ڈھائی برس میں ملک لوٹ کھایا ہے تو آیندہ انھیں پھر سے اقتدار کی غلام گردشوں میں پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ مگر جب ڈھائی برس بعد نواز شریف کرپٹ قرار پائے تو دوبارہ پچھلے کرپٹوں سے رجوع کیا گیا۔ یوں احتساب کی دیوی کو ٹکیائی بنا کر مستقبلِ قریب کے تماش بینوں کے منتخب استعمال کے لیے رکھ چھوڑا گیا (قصہ جاری ہے)۔