ایک ہفتے قبل ہم نے برصغیر کے تناظر میں یہ جائزہ لیا تھا کہ اگر آج صیہونیت کی مخالفت اور یہود دشمنی کو الگ الگ پلڑوں میں رکھنے کے بجائے ایک ہی بات سمجھنے کا نظریہ دنیا پر تھوپا جا رہا ہے اور اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کو یہودی قوم کی مجموعی مخالفت بتایا جا رہا ہے تو پھر اس دنیا پر اثرانداز ہونے والے بڑے بڑے نام آج اپنے اپنے عہدوں اور شعبوں میں فعال رہتے یا زندہ ہوتے تو بیشتر مغربی ذرایع ابلاغ اور ادارے ان کے پیچھے بھی لٹھ لے کے پڑ جاتے۔
حیرت ہے کہ ایک " یہود دشمن " جمی کارٹر کیسے بچے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے دورِ صدارت میں مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی آبادکاری کے سخت خلاف تھے بلکہ صدارت سے سبکدوشی کے بعد ان کے خیالات اور کھلتے چلے گئے۔
"امریکی ارکانِ کانگریس کے لیے یہ سیاسی خود کشی کے برابر ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں کوئی متوازن موقف اپنائیں یا فلسطینیوں کے انسانی حقوق یاد دلائیں یا اسرائیل سے بین الاقوامی قوانین کے احترام کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو پھر کانگریس کے لیے دوبارہ منتخب ہونا بہت مشکل ہو جائے گا "۔
آج فیدل کاسترو زندہ ہوتے تو کھلے یہود دشمن کہلاتے۔ حالانکہ انھوں نے بس اتنا کہا تھا۔ "فلسطینیوں نے جارحانہ سامراجیت کے خلاف اپنی مزاحمتی صلاحیتیں ثابت کر دی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت، نوآبادیاتی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور رجعت پسند عرب حکومتوں کی دھوکا دہی والی پالیسیوں سے جلد یا بدیر بخوبی نپٹ لیں گے"۔
بیسویں صدی کے ایک بڑے برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے بقول " فلسطینیوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی زمین ایک غیر ملکی طاقت نے ایک اور قوم کو اپنی ریاست بنانے کے لیے دے دی۔ اس زیادتی کی قیمت لاکھوں بے گناہ مقامی لوگوں کو مستقل دربدری کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے اور ان کی تعداد ہر نئے بحران کے ساتھ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کب تک ان لوگوں پر جانے بوجھے نازل ظلم کا تماشا کرے گی"۔
"کوئی بتائے گا کہ دنیا کے کون کون سے خطے کے لوگ اپنی دھرتی سے جبراً بے دخلی پسند کریں گے؟ اگر آپ کو یہ برداشت نہیں تو پھر فلسطینیوں کو کیوں ہو؟"۔
مارچ انیس سو پینسٹھ میں فلسطینی طلبا کے ایک وفدسے چیئرمین ماؤزے تنگ کی ملاقات ہوئی۔ انھوں نے انیس سو تیس اور چالیس کے عشرے میں چین جاپان لڑائی سے متعلق اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ "میں مروجہ عسکری منطق سے نابلد ہوں لہٰذا ضروری نہیں کہ میرا لڑنے کا وہی طریقہ ہو جس طریقے سے دشمن لڑ رہا ہے۔
میں اس انداز سے لڑوں گا جو خود کو آزاد کروانے کے لیے ٹھیک لگے گا۔ تم لوگوں کو میری نصیحت ہے کہ اپنی قوت بڑھانے کے لیے عوام کو اپنے اچھے رویے سے ساتھ ملانے کی کوشش کرو۔ لڑائی کا طریقہ اپنی جگہ اہم ضرور ہے مگر مقصد کا حصول زیادہ اہم ہے "۔
جب جب جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی تاریخ کا ذکر ہوگا۔ آرچ بشپ ڈیسمنڈ توتو کا نام لیا جائے گا۔
" جب بھی آپ غربِ اردن میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جائیں تو دیکھیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ فوجی چیک پوسٹوں پر کیا سلوک ہو رہا ہے۔ آپ کو بے ساختہ پرانا جنوب افریقہ یاد آ جائے گا "۔
دو ہزار سولہ میں غربِ اردن کے شہر رام اللہ کے مرکزی چوک میں جوہانسبرگ کے شہریوں کی جانب سے بطور تحفہ دیا گیا نیلسن منڈیلا کا مجسمہ ایستادہ کیا گیا۔ مقبوضہ فلسطین میں کسی عالمی شخصیت کا یہ واحد مجسمہ ہے۔
نسل پرستی کیا ہوتی ہے؟ اس بارے میں سمجھنے کے لیے ستائیس برس تک نسل پرستوں کی قید میں رہنے والے نیلسن منڈیلا کی گواہی سے معتبر اور کیا ہو سکتا ہے۔ جب انیس سو بانوے میں جنوبی افریقہ سے نسلی امتیاز پر مبنی سفید فام برتری کا نظام باضابطہ طور پر لپیٹا گیا تو منڈیلا نے کہا کہ ہماری آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔
انیس سو ننانوے میں منڈیلا نے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا۔ غزہ میں انھوں نے کہا کہ میں خود کو اپنے ساتھیوں کے درمیان محسوس کر رہا ہوں۔ اسرائیل کو تصادم اور امن میں سے امن چن لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح بند باندھنے پر پانی اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے۔ اسی طرح آزادی کی امید کے سب دروازے بند ہو جائیں تو تشدد اپنا راستہ خود تلاش کر لیتا ہے"
البرٹ آئن اسٹائن اسرائیل کے قیام سے پہلے کٹر صیہونی اور فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے پرزور حامی تھے۔ انیس سو چوبیس میں وہ فلسطین گئے تو انھیں وہاں سوشلسٹ طرز پر یہودی آبادکاروں کے اجتماعی کمیون سسٹم (کبوتز) کا رہن سہن بہت پسند آیا۔ آئن اسٹائن کو بھی انیس سو تینتیس میں ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد جان کے خوف سے پہلے برطانیہ اور پھر امریکا میں پناہ لینا پڑی۔ جہاں وہ پرنسٹن یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔
جب آئن اسٹائن نے انیس سو چالیس کے عشرے میں فلسطین میں برطانوی پشت پناہی میں فلسطینیوں کو کھدیڑنے والی مسلح صیہونی تنظیموں کے کارناموں کے بارے میں سنا تو ان کا دل صیہونیت کے قول اور عمل میں تضاد کے سبب اچاٹ ہوتا چلا گیا۔
انھوں نے کھلم کھلا دائیں بازو کی انتہاپسند تنظیم ارگون کے لیڈر مینہم بیگن اور سٹیرن گینگ کے گینگسٹر آئزک شمیر کو دہشت گرد اور فاشسٹ قرار دیا۔ بعد میں دونوں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنے۔ (موجودہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی لیخود پارٹی دراصل چالیس کے عشرے کی انھی دہشت گرد صیہونی تنظیموں ارگون اور سٹیرن گینگ کی نظریاتی و عملی وارث ہے)۔
جب آئن اسٹائن کو اسرائیل کے قیام سے ایک ماہ پہلے دیریاسین کے فلسطینی گاؤں میں قتلِ عام کی خبریں ملیں تو ان کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ انھوں نے نیویارک میں نیشنل لیبر کمیٹی برائے فلسطین کے اجلاس میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
" یہودیت کے بارے میں مجھے جتنا بھی معلوم ہے اور ان تعلیمات پر میں جتنا بھی کاربند ہوں۔ ان پر دھیان دینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک ایسی یہودی ریاست جس کی طے شدہ سرحدیں، فوج اور مکمل ریاستی بیانیہ ہو۔ وہ بھلے اپنی پالیسیوں میں جتنا بھی معتدل رہنے کی کوشش کرے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ریاست یہودیت کی روحانی قوت کے برعکس سمت میں چلتی ہوئی اسی تنگ نظر قوم پرستی کی دلدل میں دھنستی چلی جائے گی کہ جس کے اثرات سے ہم اب تک اپنی ریاست نہ ہونے کے باوجود لڑتے آئے ہیں۔
مجھے خوف ہے کہ ایک سیاسی شناخت بننے کے عوض ہم اپنی صدیوں پرانی روحانی قوت کھو دیں گے کہ جس سے کشید کردہ توانائی کے بل پر ہم ہمیشہ ظلم کے آگے ثابت قدم رہے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھاتے اور بروئے کار لاتے رہے "۔
آئن اسٹائن چونکہ بیسویں صدی کا انتہائی قد آور نام ہے۔ صیہونی سیاست کاروں نے اس کی عظیم الشان شخصیت کو اپنی قومی کامیابیوں کے پوسٹر بوائے کے طور پر استعمال کیا۔ لہٰذا اس کے سیاسی نظریات سے کبھی ریاستی سطح پر کھل کے ناپسندیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔
جب انیس سو باون میں اسرائیل کے پہلے صدر خائم ویزمین کا انتقال ہوا تو وزیرِ اعظم بن گوریان نے آئن اسٹائن کو صدر بننے کی دعوت دی۔ مگر آئن اسٹائن نے یہ دعوت شائستگی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے رموزِ حکمرانی اور انسانی طبقات سے تعلق کاری کا کوئی خاص تجربہ نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ کبھی بطور صدر میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکلے جو آپ لوگوں کو بری لگ جائے۔ لہٰذا آپ کی پیش کش کا بہت شکریہ۔
آئن اسٹائن کی غیر معمولی ذہانت اور سائنسی کارناموں کا مغرب اور اسرائیل میں بہت ذکر ہوتا ہے مگر ان کے سیاسی خیالات پر مقتدر حلقے بوجوہ بات کرنے سے ہمیشہ کتراتے آئے ہیں۔
آج اگر آئن اسٹائن زندہ ہوتے اور بعینہ انھی خیالات کا اظہار کرتے تو عین ممکن ہے کہ پرنسٹن یونیورسٹی انھیں یہود دشمنی کے شک میں مزید پڑھانے سے روک دیتی۔