سیاحت محض چند لاکھ یا کروڑ لوگوں کے سیرسپاٹے یا تفریحی و تاریخی مقامات پر اپنی مصروف زندگی سے کچھ دن یا ماہ نکال کے سکون و خوشی کے لمحاتی حصول کا نام نہیں بلکہ یہ بڑی عالمی معاشی سرگرمیوں میں سے ایک ہے جس سے کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ آمدنی خدمات کے شعبے (سروس سیکٹر) سے پیدا ہوتی ہے اور اگر ٹورزام کمپنیوں، ٹرانسپورٹ اور طعام و قیام کی تکون کے تین کونوں کو سیاحوں کی شاپنگ سے جوڑ لیں تو کل ملا کے سیاحت لگ بھگ سات ٹریلین ڈالر کی عالمی صنعت ہے۔
امریکا کی سیاحتی صنعت کا سالانہ حجم دو سو دس ارب ڈالر، اسپین کا اڑسٹھ ارب ڈالر اور فرانس کا سیاحتی حجم ساٹھ ارب ڈالر ہے۔ ان تینوں ممالک کے بعد دیگر سات مقبول ممالک میں علی الترتیب تھائی لینڈ، برطانیہ، اٹلی، آسٹریلیا، جرمنی، جاپان اور چین شامل ہیں جب کہ بھارت گیارہویں مقبول سیاحتی منزل ہے۔ حالانکہ سیاحت سے حاصل ہونے والی تین ارب ڈالر کی آمدنی کا بھارت کی قومی آمدنی میں حصہ محض ایک اعشاریہ ایک فیصد بنتا ہے۔
البتہ کئی ممالک کی تو معیشت ہی سیاحت پر زندہ ہے۔ مثلاً مالدیپ اور جزائر کیریبین کی اقتصادیات میں سیاحت کا حصہ علی الترتیب ساٹھ اور اکتالیس فیصد ہے۔
جنوبی ایشیا کے سب سے مقبول سیاحتی ملک سری لنکا کی سالانہ کمائی لگ بھگ چار ارب ڈالر اور معاشی پیداوار میں اس شعبے کا حصہ چار فیصد ہے۔ ایران مذہبی مقامات کی سیاحت سے سالانہ پونے چار ارب ڈالر کماتا ہے۔ نیپال پینسٹھ کروڑ ڈالر جب کہ پاکستان محض چالیس کروڑ ڈالر سالانہ کماتا ہے اور قومی آمدنی میں اس شعبے کا حصہ صفر اعشاریہ پچیس یعنی ایک فیصد کا بھی چوتھائی ہے۔
ہر وفاقی وزیرِ سیاحت کے منہ سے پچھلے چار عشروں سے سنتے سنتے کان پک گئے کہ پاکستان کے پاس سال کے بارہ ماہ چار موسم ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم اور کوہِ ہندو کش کی بلند و بالا چوٹیاں ہیں۔ گلیشیرز، دریا، جھیلیں، آبشاریں، پانچ ہزار برس پرانی انڈس اور ڈھائی ہزار برس قدیم گندھارا تہذیب اور پشاور، لاہور جیسے صدیوں پرانے تاریخی شہر اور آٹھ سو کلومیٹر طویل ساحل بھی ہے۔ گویا پاکستان کی متنوع سیاحتی مارکیٹ میں کم ازکم پانچ بلین ڈالر سالانہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ پر جانے کیوں دنیا کی توجہ ہی نہیں۔
بات یہ ہے کہ اس وقت چونسٹھ ممالک کے شہری پاکستان پہنچ کر (آن آرائیول) ویزہ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ مگر کوئی بھی سیاح کسی دوسرے ملک کا رخ کرنے سے پہلے سوچتا ہے کہ وہاں سیکیورٹی اور امن و امان کی کیا صورتِ حال ہے۔ رہائش اور کھانے پینے کا معیار کیسا ہے۔ کتنی سستائی مہنگائی ہے۔
ٹرانسپورٹ کیسی آرام دہ اور وافر ہے۔ جہاں جہاں وہ جانا اور قیام کرنا چاہتا ہے وہاں کے میزبان کتنے پروفیشنل اور تربیت یافتہ ہیں۔ ایسے ہوٹل کتنے ہیں جو اس کے بجٹ کے مطابق ہوں۔ کسی حادثے یا واردات کی صورت میں ایمرجنسی سروسز کتنی مستعد ہیں۔ معیاری طبی اور بینکنگ سہولتیں کتنے فاصلے پر ہیں۔ عام لوگوں کا سیاحوں کے بارے میں عمومی رویہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کہنے کو پاکستانی حکومت سیاحتی پالیسیوں اور ترغیبات کا اعلان بھی کرتی رہتی ہے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر سیاحت کے فروغ کے ادارے بھی ہیں۔ نجی سیاحتی کمپنیاں بھی تیزی سے ابھر رہی ہیں۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ اب سے چالیس برس پہلے تک زمینی، آبی و فضائی سرحدوں سے مغربی باشندے جوق در جوق پاکستان آتے۔
کراچی، لاہور اور پشاور سمیت بڑے شہروں کی شاہراہوں پر آزادی سے گھومتے پھرتے۔ حتیٰ کہ سائیکل سوار بھی ایک کونے سے دوسرے کونے تک محفوظ سفر کرتے۔ ساحلِ سمندر پر بھی گوروں کی اچھی خاصی تعداد دیکھنے کو ملتی۔
جیسے جیسے افغان خانہ جنگی کے اثرات اور پاکستان میں انیس سو اسی کے عشرے کے دوران اسلامائزیشن کا رجحان بڑھتا گیا توں توں سیاحوں کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔ اب یہ عالم ہے کہ سن دو ہزار اکیس بائیس کے اعداد و شمار کے مطابق اکیانوے لاکھ مقامی سیاحوں نے خیبر پختون خوا اور شمالی علاقہ جات کا رخ کیا۔ جب کہ غیر ملکی سیاحوں کی تعداد محض ساڑھے تین ہزار تھی۔
پاکستان میں حسن ابدال، ننکانہ صاحب اور کرتار پور صاحب وغیرہ کی سکھ مذہب میں وہی اہمیت ہے جو مسلمانوں کے لیے سعودی عرب کے مقدس مقامات کی۔ دنیا میں سکھوں کی تعداد تین کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر ہر سال بھارت سمیت پوری دنیا سے لگ بھگ دس ہزار سکھ ہی زیارات کے لیے آ پاتے ہیں۔ آخر کیوں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گندھارا تہذیب کے مراکز ٹیکسلا، سوات اور پشاور کی دھوم جاپان تک ہے۔ اس دنیا میں گوتم بدھ کے پیرو کاروں کی تعداد پچاس کروڑ بتائی جاتی ہے۔ کیا وجہ ہے پاکستان میں سالانہ لگ بھگ دو ہزار بدھسٹ ہی مذہبی سیاحت کے جذبے سے آتے ہیں۔ جب کہ سری لنکا میں اوسطاً پانچ لاکھ بدھسٹ سیاح جاتے ہیں۔
مصر کے پاس سیاحوں کو دکھانے کے لیے اہرام، فرعونوں کے مقبروں اور دریاِ نیل کے سوا کیا ہے۔ مگر ان تینوں چیزوں کی کشش نے گزشتہ برس ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد غیرملکیوں کو اپنی جانب کھینچا۔ مصر کی سیاحتی صنعت کا حجم آٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
ہمارے ہاں مصری تہذیب سے بھی قدیم ہڑپا اور موہن جو دڑو سمیت کم ازکم دو ہزار چھوٹے بڑے آثار ہیں۔ مگر موہن جو دڑو کے ریسٹ ہاؤس میں ایک درجن کمرے ہیں اور قریب ترین سمبارا ہوٹل بھی تیس کلومیٹر پرے لاڑکانہ شہر میں ہے۔
اگرچہ ایئرپورٹ موجود ہے مگر عرصہ ہوا وہاں کوئی پرواز نہیں اتری۔ قریب ترین ایئرپورٹ سکھر ہے۔ کراچی سے سڑک کے راستے فاصلہ چھ گھنٹے کا ہے۔ موسم کے سبب سال میں صرف چار ماہ ایسے ہیں کہ دیگر علاقوں سے سیاح دن بھر کے دورے پر آ سکتے ہیں۔ کیونکہ قیام و طعام اور سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ جب کہ پاکستان کے ہر سفارت خانے کی لابی میں جو سیاحتی بروشر پڑے پڑے تھک رہے ہیں ان میں موہن جو دڑو بھی ایک مقبول ٹورسٹ اسپاٹ کے دور پر دکھایا جاتا ہے۔
پورا بلوچستان، آزاد کشمیر، خیبر پختون خوا کے متعدد سرحدی اضلاع غیر ملکی سیاحوں کے لیے نو گو ایریا ہیں یا پھر وہاں تک رسائی کے لیے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ سیاحوں کے پاس بھلا اتنا وقت، صبر اور ہمت کہاں؟
ایسے ماحول میں پانچ ارب ڈالر محض خوابوں میں ہی کمائے جا سکتے ہیں۔ بہرحال آپ سب کو عالمی یومِ سیاحت (ستائیس ستمبر) مبارک ہو۔