عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت سرکردہ مالیاتی اداروں کی سرخ بتی مسلسل روشن ہے۔ اب تک بفضلِ کورونا عالمی معیشت تین فیصد تک سکڑ چکی ہے۔ آگے کی بحرانی سرنگ کتنی طویل ہے کوئی نہیں جانتا۔ حتی کہ ٹرمپ جو باقی سب جانتا ہے مگر نہیں جانتا کہ نومبر کے صدارتی انتخابات میں اس کی نئیا پار لگے گی یا کورونا کے منجدھار میں ڈوب جائے گی۔ امریکا میں ساڑھے چار کروڑ ملازمتیں یا تو ختم ہو چکی ہیں یا ڈاؤن گریڈ ہو چکی ہیں۔
جنوبی کوریا کو خدشہ ہے کہ اس برس کے اختتام تک اس کی قومی آمدنی انیس سو تریسٹھ کی سطح تک پہنچ سکتی ہے۔ یا تو فیکٹریاں بند ہیں یا مال بھرا پڑا ہوا ہے مگر اٹھانے والا کوئی نہیں یا پچھلے آرڈر سکڑ گئے ہیں تو کھپت بھی آدھی رہ گئی ہے۔ غرض سوائے مانگ تانگ کے گزارہ کرنے والے ممالک کے ہر ملک مستقبلِ قریب کے بارے میں پریشان ہے۔
حتی کہ جن ریاستوں کے پاس تیل کے ذخائر آج بھی ٹھاٹھیں مار رہے ہیں ان کو بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس تیل کا کیا کریں اور جب تک قیمتیں پاگل پن کے بانس سے نیچے نہیں اترتیں تب تک اس تیل کو کہاں چھپائیں۔ اب تک تو طلب ہی رسد کے آگے کشکول لیے کھڑی رہتی تھی۔ پہلی بار ہوا ہے کہ رسد طلب کے پاؤں پڑی ہے۔
ایران کا حال تو برسوں سے برا ہے لہذا اس کا کیا ذکر۔ مگر مشرقِ وسطیٰ کے دیگر مجازی خداؤں کی وضع داری بھی داؤ پر لگ چکی ہے اور اب وہ صرف بظاہر ہی نہیں بلکہ اندر سے بھی سفید پوش ہو چلے ہیں۔
مثلاً چند ماہ پہلے تک کون سوچ سکتا تھا کہ سب سے زیادہ فی کس آمدنی والی خلیجی ریاست کویت کی پارلیمنٹ ایک دن حکومت کو بیرونی ذرائع سے قرضہ لینے کا اختیار دے دے گی۔ سب سے امیر خلیجی ملک سعودی عرب کے بارے میں گزشتہ برس کون کہہ سکتا تھا کہ اس ٹیکس فری ریاست میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس پانچ فیصد سے بڑھا کر پندرہ فیصد تک کر دیا جائے گا۔ سعودی شہریوں کو مہیا ماہانہ رہائشی سبسڈی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
وہ لاکھوں تارکینِ وطن جو خود چند سو ریال مزدوری کے لیے سعودی عرب میں پردیسی ہیں ان کے ساتھ رہنے والے اہلِ خانہ پر بھی بھاری سالانہ ٹیکس عائد کر دیا جائے گا۔ نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ سعودی معیشت کے سر کا تاج یعنی آرامکو کے شئیرز مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش ہو جائیں گے۔ یہ سب یمن کی جنگ اور کورونا کا نتیجہ ہے۔
اور متحدہ عرب امارات جہاں گزشتہ برس تک تمام معاشی اعشاریے جانبِ آسمان تھے۔ آج صورت یوں ہے کہ تارکینِ وطن کو آہستہ آہستہ واپس جانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ امارات ایئرلائنز سے نو ہزار ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں۔ تعمیراتی شعبہ بھی راکٹی رفتار سے رفتہ رفتہ کچھوے کی اوقات پر آ گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی بی بی سی پر یہ رپورٹ بھی آئی کہ امارات میں اپنے واجبات کے کئی ماہ سے منتظر پھنسے ہزاروں پاکستانی مزدور اب ایک دوسرے سے روٹی پانی کا قرضہ لے رہے ہیں۔
ایسے عالمِ غم ناکی میں پانچ دن پہلے خبر آتی ہے کہ متحدہ عرب امارات کا خلائی جہاز مریخ کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ یوں امارات پہلا عرب اور پہلا مسلمان ملک بن گیا جسے مریخ تک رسائی کے ایلیٹ کلب کی رکنیت مل گئی ہے۔
پچھلے اتوار کو امل نامی خلائی مشن جاپان کے تنیگاشیما اسپیس سینٹر سے چھوڑا گیا۔ امل سات ماہ کا سفر طے کر کے فروری میں مریخ کے مدار میں داخل ہو گا جب متحدہ عرب امارت کو وجود میں آئے پچاس برس مکمل ہو جائیں گے ( چھوٹی چھوٹی خلیجی ریاستوں نے انیس سو اکہتر میں برطانیہ سے آزادی پا کر یہ ریاستی اتحاد تشکیل دیا تھا)۔
کہا جاتا ہے کہ امل خلائی مشین اماراتی سائنسدانوں نے امریکا کی یونیورسٹی آف کولوریڈو، کیلی فورنیا کی برکلے یونیورسٹی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کے اشتراک سے تیار کی ہے۔
خلا میں پہلے ہی امارات کے تین مصنوعی سیارے گردش میں ہیں۔ ان میں سے دو سیارے جنوبی کوریا کی ایک کمپنی نے بنائے اور انھیں روسی راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا۔ جب کہ ایک سیارہ جاپانی راکٹ کے ذریعے چھوڑا گیا۔ یہی نہیں بلکہ پچھلے برس ستمبر میں اماراتی خلاباز ہزا علی المنصور نے روس امریکا اور یورپی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں ایک ہفتہ بھی گزارا۔
المنصور انیس سو پچاسی میں سعودی شہزادے سلطان بن سلمان السعود اور انیس سو ستاسی میں شامی خلاباز محمد فارس کے بعد خلا میں وقت گذارنے والے تیسرے عرب ہیں۔ اب تک ایرانی نژاد خاتون امریکی شہری انوشے انصاری اور افغان خلا باز عبدالاحد مہمند سمیت گیارہ مسلمان خلاباز زمین کے مدار میں جا چکے ہیں۔ ان میں صرف سعودی شہزادے سلطان اور انوشے انصاری نے امریکی خلائی مشن کا حصہ بن کے سفر کیا۔ باقی نو خلابازوں کی میزبانی روسی خلائی اسٹیشن میر اور سویوز نے کی۔
ان خلائی مشنوں کے تجربات سے سوائے مسرت کے اور کیا کیا حاصل ہوا؟
انیس سو چھ میں ملائیشیا کے خلائی ادارے انگ کاسا نے کوالالمپور میں بین المسلمین خلائی کانفرنس بلائی۔ اس میں اسپیس سائنسز کے ماہرین اور علما سمیت ڈیڑھ سو مندوب شریک ہوئے۔ اس کانفرنس نے اتفاقِ رائے سے ایک گائیڈ لائن کی منظوری دی۔ اس میں تفصیلاً بتایا گیا کہ زمین سے سیکڑوں میل اوپر مدار میں حالتِ بے وزنی میں قبلہ کی جانب رخ کر کے نماز کیسے پڑھی جا سکتی ہے۔ اگلے برس ملائیشیائی خلاباز شیخ مظفر شکور نے اکتوبر دو ہزار سات میں سویوز خلائی اسٹیشن میں تحقیقی وقت گزارا اور طے شدہ گائیڈ لائین کے مطابق نماز بھی پڑھی۔
متحدہ عرب امارات کا امل خلائی مشن آیندہ دو برس تک مریخ کے مدار میں رہے گا۔ اس دوران وہ سیارے کے درجہِ حرارت اور ماحول کا مطالعہ کرے گا۔ جو ڈیٹا جمع ہو گا وہ سب کے لیے دستیاب ہو گا۔ جس ملک نے یہ خلائی مشن لانچ کرنے میں امارات کی مدد کی یعنی جاپان۔ وہ خود اپنا مریخی مشن دو ہزار چوبیس میں لانچ کرے گا۔
مگر امارات یہ اعلان کر کے پوری دنیا پر بازی لے گیا ہے کہ اکیس سو سترہ میں مریخ پر پہلی اماراتی عرب مسلمان بستی قائم ہو جائے گی۔ سب کہو سبحان اللہ۔