اسرائیل میں سات اکتوبر کو جو ہو چکا اور اس کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں موجود پچاس لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل جو ہو رہا ہے۔
اس کے اثرات اقوامِ متحدہ کے اندر اجلاس در اجلاس، دنیا بھر کے دارالحکومتوں کی سڑکوں پر تاحدِ نگاہ انسانی سروں کی فصل اور حکمرانی کے ایوانوں میں لامتناہی بے نتیجہ ملاقاتوں اور مباحث کی شکل میں تو دیکھنے میں آ رہے ہیں مگر ضمیر کے کچوکوں سے جنم لینے والی بے چینی امریکی فیصلہ سازوں اور امریکی اداروں کے اندر بھی مسلسل کروٹ لے رہی ہے۔ یہ خاموش پس دیوار مزاحمت کن کن صورتوں میں ہو رہی ہے۔ اس بابت کچھ تاک جھانک کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہو کہ
آپس میں کس بلا کی پیکار چل رہی ہے
اب کے دورنِ خانہ تلوار چل رہی ہے
(جاوید صبا)
آٹھ اکتوبر کو غزہ پر اسرائیلی بمباری شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں کو ایک انٹرنل میمو بھیجا گیا جس میں ہدایت کی گئی کہ مقامی میڈیا کے لیے جاری کردہ بیانات میں جنگ بندی، تحمل، بین الاقوامی قوانین جیسے الفاظ و اصطلاحات استعمال نہ کریں۔ مگر بائیڈن انتظامیہ کی یکطرفہ اندھا دھند اسرائیل نواز پالیسی کے سبب دفترِ خارجہ میں ایک خاموش بغاوت کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
دفترِ خارجہ کے لگ بھگ چار سو اہلکاروں نے اسرائیل پالیسی پر اپنے تحفظات کا پسِ دیوار کھل کے اظہار کیا۔ چنانچہ دفترِ خارجہ کے ملازمین کو اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے خصوصی سیشنز میں بولنے کا موقع دیا گیا۔ مگر ان سیشنز کے نتیجے میں اسرائیل کی اندھی حمایت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور لفظ جنگ بندی کا استعمال حرام قرار پایا۔
دفترِ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار جوش پال نے احتجاجاً استعفی دے دیا اور اس استعفی میں لکھا کہ ہم مشرقِ وسطی میں جس راستے پر چل رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بطور ثالث ہماری علاقے میں جو تھوڑی بہت عزت تھی وہ بھی سات اکتوبر کے بعد مٹی میں مل گئی۔ ان حالات میں بوجھل دل اور دماغ کے ساتھ اپنے فرائض نبھانا ناممکن ہو چکا ہے لہٰذا میں اپنا منصب چھوڑ رہا ہوں۔
امریکی کانگریس اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے بھی زیادہ اسرائیل کی وفادار ہے۔ ایوانِ نمایندگان اور سینیٹ کے ڈیموکریٹ یا ریپبلیکن ارکان بھلے ہر معاملے پر جوتم پیزار ہوں مگر ان کی اکثریت اسرائیل نوازی پر متفق ہے۔
چنانچہ کانگریس کے معاون عملے میں شامل مسلمان اور یہودی اہلکاروں نے اپنے باسز کو ایک مشترکہ خط میں کہا کہ وہ کانگریس کے ایوان میں جنگ بندی کا مطالبہ کریں۔ ان ملازمین نے کیپیٹل ہل کی سیڑھیوں پر اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا بھی دیا۔
امریکی کانگریس ڈھائی سو برس کی تاریخ میں اپنے ہی چھبیس ارکان کے خلاف قرار دادِ مذمت منظور کر چکی ہے۔ چھبیسویں رکن رشیدہ طالب ہیں جنھوں نے دریا سے سمندر تک (دریاِ اردن تا بحیرہ روم) فلسطین کی آزادی کے نعرے لگاتے جلوس میں شرکت کی۔
اس کو بنیاد بنا کے ان ہی کے اسرائیل نواز ساتھیوں نے ان کے خلاف ایک سو اٹھاسی کے مقابلے میں دو سو چونتیس ووٹوں سے قرار داد منظور کی۔ اس قرار داد میں کہا گیا کہ رشیدہ دراصل اس نعرے کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے خاتمے اور اسرائیلیوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہی ہیں۔
رشیدہ طالب نے اپنی جوابی تقریر میں کہا کہ فلسطینی انسان ہیں کوئی کوڑا کرکٹ نہیں۔ میں اس ایوان میں امریکی فلسطینیوں کی واحد منتخب نمایندہ ہوں لہٰذا اگر میرے معزز ساتھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا چاہتے ہیں تو انھیں میری بات زیادہ دھیان سے سننا چاہیے۔
اسرائیلی حکومت پر تنقید کا مطلب یہود دشمنی ہرگز نہیں۔ میرے ووٹر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آخر فوری جنگ بندی کیوں ممکن نہیں۔ بجائے اس کے کہ مجھے اس سوال کا جواب ملتا۔ آپ نے میرا ہی منہ بند کرنے کے لیے قرار داد منظور کر لی۔ نا یہ منہ بند ہوگا نہ ہی سچائی کی گونج کم ہوگی۔
عجیب بات ہے کہ جس کانگریس میں رشیدہ طالب کو دریا تا سمندر فلسطینیوں کی آزادی کے نعرے کی حمایت پر سرزنش کی گئی۔
اسی کانگریس میں جب ایک رکن میکس ملر نے کہا کہ یہ جنگ بندی کا نہیں بلکہ جنگی اخلاقیات کے تمام بین الاقوامی کنونشنز کو پسِ پشت ڈالنے کا وقت ہے یا پھر سینیٹر لنڈسے گراہم نے کہا کہ غزہ کو مکمل مسمار کر دینا چاہیے۔ ایسے ریمارکس پر قراردادِ مذمت تو کجا کسی رکنِ کانگریس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔
یو ایس ایڈ کا نام کس نے نہیں سنا۔ دنیا بھر میں امریکی امداد سے جتنے بھی عوامی فلاح کے منصوبے مکمل ہوتے ہیں وہ اسی ادارے کے توسط سے ہوتے ہیں۔ یو ایس ایڈ کے کئی پروجیکٹس مقبوضہ فلسطین میں بھی ہیں۔
یو ایس ایڈ کے اہلکاروں نے اس ماہ کے اوائل میں ایک کھلا خط لکھا جس پر ایک ہزار سے زائد اہلکار دستخط کر چکے ہیں۔ خط میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری جنگِ بندی کے لیے اقدامات کرے۔ کیونکہ یو ایس ایڈ جیسے ادارے بھلے فلاح و بہبود کے جتنے بھی منصوبے مکمل کر لیں اگر وہ جنگ یا بمباری کے سبب برباد ہو جائیں تو پھر ایسے منصوبوں کو روک دینا زیادہ بہتر ہوگا۔
خط میں مطالبہ کیا گیا کہ مزید تباہی سے بچنے کے لیے نہ صرف یرغمالیوں کی فوری رہائی عمل میں آئے بلکہ جنگی کارروائیاں روک دی جائیں۔ غزہ کے لیے منقطع بجلی، خوراک اور ادویات و اسپتال کے آلات کی رسد کو بلا روک ٹوک بحال کیا جائے۔ اسرائیل سمیت تمام فریقوں کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر مجبور کیا جائے۔ اس پاسداری میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
یقین نہیں آتا کہ اس خط میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ حکومتِ امریکا کے ایک ادارے کے کارکنوں کی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ خط کسی فلسطینی فلاحی ادارے کے کارکنوں کی تکلیف کا اظہاریہ ہے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ غزہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور ہونے والا ہے۔ سوشل میڈیا کے طفیل اس کی گونج اب امریکی اداروں کے اندر تک سرائیت کر چکی ہے۔
فوری طور پر تو اس بے چینی کے سبب ریاستی پالیسی نہیں بدلے گی مگر یہ بات یقینی ہے کہ اب آنکھوں میں دھول جھونکنے کا زمانہ لپٹتا جا رہا ہے اور اس کے کچھ نہ کچھ نتائج اگلے چار پانچ برس میں ضرور دیکھنے کو ملیں گے۔