اقبال کا یہ شعر کہ دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے، بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے تب ہی سمجھ میں آئے گا جب آپ اٹلس کھول کے شمال مغربی افریقہ کے اس نیم دائرے کو دیکھیں جو بحرِ ظلمات (بحر اوقیانوس) کی جانب کھلتا ہے۔ یہ نیم دائرہ بالترتیب مراکش، مغربی صحارا اور ماریطانیہ پر مشتمل ہے۔ مراکش میں بربر عرب مخلوط آبادی ہے۔ ماریطانیہ میں بربر اور سیاہ فام آبادی آدھوں آدھ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان قائم مغربی صحارا کی مقامی آبادی خالص بربر ہے۔ مغربی صحارا کی سرحد بربر اکثریتی الجزائر سے بھی ملتی ہیں اور تینوں ممالک سے قدیم تاریخی و اقتصادی روابط بھی ہیں۔
اٹھارہ سو چوراسی کی برلن کانفرنس میں افریقہ کو کیک کی طرح کاٹ کر یورپی نوآبادیاتی طاقتوں نے آپس میں بانٹ لیا۔ مراکش اور مغربی صحارا اسپین کے حصے میں آئے جب کہ ماریطانیہ فرانس کو سونپا گیا۔ الجزائر برلن کانفرنس سے چالیس برس پہلے ہی فرانس کا صوبہ بن چکا تھا۔ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں مراکش، ماریطانیہ اور الجزائر کو نوآبادیاتی قبضے سے جیسے کیسے نجات مل گئی مگر مغربی صحارا بدستور اسپین کے قبضے میں رہا۔
مغربی صحارا کا رقبہ اگرچہ لگ بھگ برطانیہ کے برابر (دو لاکھ چھیاسٹھ ہزار مربع کیلومیٹر)ہے لیکن آبادی بمشکل پانچ لاکھ ہے۔ پورا خطہ خشک صحرا ہے۔ لوگ طبعاً خانہ بدوش ہیں اور مویشیوں اور ماہی گیری پر گذر بسر ہے۔ پانی کی شدید قلت کے سبب بیشتر آبادی دارالحکومت لایونی اور داخلہ میں رہتی ہے یا پھر الجزائر کے پناہ گزین کیمپوں اور ماریطانیہ میں قیام پذیر ہے۔
جو کہانی میں سنانا چاہتا ہوں وہ انیس سو پچھتر سے شروع ہوتی ہے جب اسپین کے آمر جنرل فرانکو نے وفات سے کچھ پہلے باقی ماندہ افریقی نوآبادیات چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ مغربی صحارا کے انتظام کے لیے اسپین نے مراکش اور ماریطانیہ سے سہہ فریقی سمجھوتہ کیا۔ اس کے تحت مغربی صحارا کی حتمی حیثیت طے کرنے کے لیے فریقین نے ریفرنڈم کرانے کا عہد کیا۔ جیسے ہی مغربی صحارا پر سے اسپین کا انتظامی کنٹرول ختم ہوا مراکش اور ماریطانیہ کی افواج داخل ہو گئیں۔ مراکش چونکہ طاقتور تھا لہذا اسی فیصد علاقے پر اس کا قبضہ ہوگیا۔ اس بندر بانٹ کے بیچ مقامی باشندے ہکا بکا کھڑے رہ گئے۔ الجزائر نے بھی اس لپا ڈکی کو ماننے سے انکار کر دیا۔
چنانچہ مقامی باشندوں نے مکمل آزادی کے حصول کی خاطر مسلح جدوجہد کے لیے پولیساریو لبریشن فرنٹ تشکیل دیا اور صحاراوی ڈیموکریٹک ریپبلک کے نام سے ایک جلاوطن حکومت کا اعلان کردیا۔ اس کا مرکز الجزائری شہر تندوف میں قائم ہوا۔ قابض مراکشی فوج سے جھڑپوں کے نتیجے میں ہزاروں پناہ گزینوں کو سرحد پار تندوف میں پناہ لینا پڑی۔
اقوامِ متحدہ نے انیس سو چھہتر میں مراکش اور ماریطانیہ کا ملکیتی دعویٰ رد کرتے ہوئے مغربی صحارا کو نان سیلف گورننگ ٹیرٹری کا درجہ دے دیا۔ یعنی وہ خطہ جس کے مستقبل کا فیصلہ استصوابِ رائے سے ہوگا۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے بھی اپنی قانونی رائے میں کہا کہ مغربی صحارا سے تاریخی روابط کا مطلب ملکیت کا دعویٰ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ انیس سو اناسی میں ماریطانیہ نے مغربی صحارا پر سے اپنا دعویٰ واپس لے کر پولیساریو لبریشن فرنٹ کو ملک کا جائز وارث تسلیم کر لیا۔
انیس سو چوراسی میں افریقی اتحاد کی تنظیم ( او اے یو)نے پولیساریو لبریشن فرنٹ کو رکنیت دے دی۔ مراکش نے احتجاجاً تنظیم سے اگلے تینتیس برس تک علیحدگی اختیار کیے رکھی۔
انیس سو اکیانوے میں اقوامِ متحدہ کی کوششوں سے مراکش اور پولی ساریو کے مابین جنگ بندی سمجھوتے کے تحت ایک برس کے اندر مغربی صحارا میں استصوابِ رائے کا انعقاد قرار پایا۔ اقوام ِ متحدہ کا امن مشن جس میں افریقی یونین کے سپاہی شامل تھے انھیں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے مامور کیا گیا۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ نیت نہ ہو تو بہانے ہزار۔ مراکش نے وعدہ کرنے کے باوجود رفتہ رفتہ یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ انیسویں صدی میں صحارا کے جو قبائل ہسپانوی قبضے کے نتیجے میں مراکش ہجرت کر گئے تھے انھیں بھی ووٹرز لسٹ میں ڈالا جائے۔ جب کہ پولیساریو نے کہا کہ ہسپانوی قبضے کے دوران انیس سو چوہتر میں جو آخری مردم شماری ہوئی تھی اسے انتخابی فہرست کی بنیاد بنایا جائے تاکہ مراکشی قبضے کے بعد مقامی آبادی کی تعدادی ہئیت بدلنے کے لیے جو مراکشی شہری بھاری سہولتوں اور ٹیکسوں میں کمی کی ترغیب دے کر مغربی صحارا میں آباد کیے جا رہے ہیں انھیں ووٹ کا حق نہ ہو۔ ووٹرز لسٹ میں ان صحاریوں کو بھی شامل کیا جائے جو مراکشی قبضے کے بعد ہمسایہ ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے تجویز کیا کہ اس کے خوراک پروگرام میں جو نوے ہزار صحاروی رجسٹرڈ ہیں انھیں ہی رائے دینے کا اہل سمجھا جائے۔ پولیساریو نے یہ تجویز مان لی مگر مراکش نے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ یہ منصوبہ پیش کیا کہ معروضی حالات میں مغربی صحارا کو زیادہ سے زیادہ ایسا نیم خودمختار خطہ بنایا جا سکتا ہے جس کے دفاع، امورِ خارجہ اور تجارت کا انتظام مراکش کے ہاتھ میں ہو۔ اس تجویز کو اقوامِ متحدہ میں کوئی پذیرائی نہیں ملی اور پولیساریو نے بھی مسترد کر دیا۔
اب سے پانچ روز قبل تک تصویر یوں تھی کہ دنیا کے کسی ملک نے مغربی صحارا پر مراکش کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا تھا۔ البتہ اسلامی کانفرنس کے اٹھارہ اور عرب لیگ کے چھ رکن ممالک، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، افریقی اتحاد اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے پولیساریو کو مغربی صحارا کی جائز نمایندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کر رکھا تھا۔ مگر دس دسمبر کو اچانک ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ مراکش نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے چنانچہ امریکا مغربی صحارا پر مراکش کا حقِ ملکیت تسلیم کر رہا ہے اور جس سرکاری نقشے میں مغربی صحارا کو مراکش کا حصہ دکھایا گیا ہے امریکا آیندہ وہی نقشہ استعمال کرے گا۔ یوں امریکا دنیا کا واحد ملک بن گیا جس نے مغربی صحارا کے بارے میں مراکش کا موقف مان لیا۔
پولیساریو نے امریکی اعلان سے ایک ماہ قبل ہی انیس سو اکیانوے کے جنگ بندی سمجھوتے سے الگ ہونے اور مسلح جدوجہد کی بحالی کا اعلان کر دیا کیونکہ مراکشی دستوں نے مغربی صحارا میں اقوامِ متحدہ کی طے کردہ جنگ بندی لائن عبور کر کے ماریطانیہ سے جوڑنے والی واحد سڑک کھولنے کے لیے کارروائی شروع کر دی تھی۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز نے بھی وضاحت کی کہ امریکی اعلان کے باوجود اقوامِ متحدہ کی استصوابِ رائے کی قرار دادیں اپنی جگہ برقرار ہیں جن کے تحت مغربی صحارا کے حقیقی باشندے ہی اپنے خطے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔
یہ جو مصنوعی کھاد دنیا بھر میں استعمال ہوتی ہے فاسفیٹ اس کا بنیادی جزو ہے۔ گویا فاسفیٹ عالمی زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس وقت امریکا اور چین کے بعد مراکش اور مغربی صحارا فاسفیٹ کے سب سے بڑے ذخائر کے مالک ہیں۔ مغربی صحارا پر قبضے کے نتیجے میں مراکش فاسفیٹ کے تہتر فیصد عالمی ذخیرے کا مالک بن سکتا ہے۔ اس کی پیداوار اور تقسیم میں امریکی اور فرانسیسی کمپنیاں آگے آگے ہیں۔ فرانس نے امریکی اعلان پر دم سادھ لیا ہے۔
اگر ٹرمپ کے اس اعلان کو نئی بائیڈن انتظامیہ منسوخ کرتی ہے تو پھر مراکش اور امریکا کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر منسوخ نہیں کرتی تو خطے کو نہ صرف پولیساریو فرنٹ اور مراکش بلکہ الجزائر اور مراکش کے درمیان بڑھنے والی نئی کشیدگی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ویسے فاسفیٹ کی صرف امریکا کو نہیں بلکہ چین، روس اور یورپی یونین سمیت سب ہی کو ضرورت ہے۔ چنانچہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس نئی آگ پر کون کون ہاتھ تاپنے کو تیار ہے۔
کسی کے مال اور علاقے پر بزور قبضہ کر کے باقی دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا رویہ اپنانے کے لیے بھارت اور اسرائیل ہونا ضروری نہیں بلکہ ہوسناک ہونا ضروری ہے۔ وہی مراکش جس نے اسپین سے آزادی حاصل کرنے کے لیے عبدالکریم بربر جیسا چھاپہ مار ہیرو پیدا کیا اسی مراکش کو موقع ملتے ہی خود ایک نوآبادیاتی طاقت بننے میں آخر کتنی دیر لگی؟ اسی مراکش کے شہر رباط میں انیس سو انہتر میں مسلم امہ کو نوآبادیاتی استحصال کے خلاف متحد کرنے کے لیے او آئی سی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
بقول ریپبلیکن امریکی سینیٹر جم انہوف "ہمارے صدر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے انعام میں ان بے صدا لوگوں کو تحفے میں دے دیا جن کا امریکا سے دور دور کا علاقہ نہیں "۔